برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
(Prof Masood Akhtar Hazarvi, )
عالمی حالات کا بغور جائزہ لینے
سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کچھ ممالک میں
مسلمانوں کی نسل کشی کرکے ان کیلئے عرصہ حیات تنگ کیا جارہاہے۔ بوسنیا
ہرزیگووینیا میں مسلمانوں کی بے دریغ نسل کشی کی گئی۔ کشمیر ، فلسطین اور
چیچنیاں میں انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ افغانستان اور
عراق میں لاکھوں بیگناہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اور ان دنوں
برما کے مسلمانوں پر تو ظلم و ستم کی انتہا گئی ہے۔ برما جنوب مشرقی ایشیا
کا ملک ہے جس کا دارالحکومت رنگون ہے۔ چودہ صوبوں پر مشتمل۔ ا س ملک کی کل
آبادی 54,164,262( تقریبا پانچ کروڑ اکتالیس لاکھ)ہے۔ان میں سے 89 فیصد
بدھ، 4 فیصد مسلمان، 4 فیصد عیسائی, ایک فیصد ہندو اور 2 فیصد دیگر مذاہب
سے تعلق رکھنے والی آبادی ہے۔ پہلے اس ملک کا نام ’’ برما ‘‘ تھا لیکن 1996
میں اس کا نام تبدیل کے ’’میانمار‘‘ رکھ دیا گیا۔ اس ملک میں مسلمانوں کی
زیادہ آبادی راکھین (رخائن) میں آباد ہے جن کی تعداد چھ لاکھ ہے جنہیں’’
روہنگیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک ریپورٹ کے مطابق روہنگیا کے
مسلمانوں کو ’’روئے زمین کی مظلوم ترین اقلیت‘‘ قرار دیا گیاہے۔ بینادی
انسانی حقوق تو کجا انہیں تو اس ملک کا شہری کہلانے بھی حق حاصل نہیں۔
معاشی اور سماجی حوالے سے یہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی طویل داستان ہے۔
1938 میں برما کو جب برطانوی تسلط سے آزادی ملی تو اسی وقت سے انتہا پسند
بدھ بھگشوں نے’’ مسلم کش‘‘ پالیسیاں اختیار کر کے برما سے مسلمانوں کی
شناخت مٹانے کیلئے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے شروع کر دیے۔ ایک صوبے سے
دوسرے صوبے تک جانے پہ پابندی عائد کی گئی۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں
مسلمانوں کیلئے دروازے بند کر دیے جبکہ نجی ادارے بنانے پر بھی پابندیاں
لگا دیں ۔یہاں تک کہ شادی کرنابھی دشوارترین عمل بنا دیا گیا ۔ شادی سے
پہلے جوڑے کو سرکاری اہلکاروں کے سامنے پیش ہونا ہوتاہے۔ ہزاروں ایسے
واقعات رونما ہوئے کہ شادی سے پہلے ہی عفت مآب مسلمان بیٹیاں ان درندہ صفت
برمی اہلکاروں کے ہاتھوں اپنی عزتیں گنوا بیٹھیں۔ مسلمان ظلم سہتے رہے اور
یہ خبریں میڈیا پر آتی رہیں۔ لیکن ان سارے مظالم کے باوجود پر عالمی برادری
خصوصا مسلمان ممالک اور حقوق انسانی کا واویلا کرنیوالی این۔ جی۔ اوز نے
کوئی نوٹس نہیں لیا۔ دنیا بھر کے میڈیا نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔ یہ
وہی برمی مسلمان ہیں کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو انہوں نے اظہار
خوشی کیا۔ جب پاکستان کے حالات تنگ تھے تو 4750 ٹن چاول اپنے پاکستانی بہن
بھایؤں کیلئے تحفہ بھیجے۔ لیکن افسوس کہ آج پاکستانی حکومت اور میڈیا اپنے
ان مظلوم بھایؤں کیلئے وہ آواز نہیں اٹھا رہا جو کہ ان کا دینی، ملی ور
اخلاقی فریضہ ہے۔
آج میانمار میں بدھ دہشت گردوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔ مسلمانوں کے قتل عام،
آتش زنی اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلمان لقمہ اجل بن رہے ہیں جبکہ
امن پسندی کی دعویدار بدھ حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ مسلمان
عورتوں، بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ دماغ
کو ماؤف کر دینے والے مظالم کے سامنے چنگیز خان، ہلاکو خان اورحجاج بن یوسف
کے ظلم و جبر کی داستانیں بھی مات کھا تی نظر آتے ہیں۔ چھ سو مساجد بند
کردی گئی جنہیں نظر آتش یا مسمار کیا جا رہا ہے۔ قرآن پاک پڑھنے پر پابندی
ہے۔ رمضان المبارک میں سحر و افطار کے اعلانات نہیں کیے جا سکتے۔ مساجد یا
گھروں میں قرآن سننے سنانے کی صورت میں سخت ترین سزا تجویز کی گئی ہے۔ ایک
لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا بے دریغ قتل کیا جا چکا ہے۔ چودہ ہزار مسلمان آگ
کے شعلوں میں زندہ جلائے جا چکے ہیں۔ میانمار کی فوج دیدہ دلیری سے مسجدوں
کی توہین اور مسلمانوں کے قتل عام میں شریک ہے۔ 1982سے’’ اورکان‘‘ کے
مسلمانوں شہریت کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ کہاں ہیں انسانی حقوق کے نام پہ
شہرت کمانے والی این جی اوز؟ کہاں ہیں اپنی بادشاہتوں کے تحفظ کیلئے
مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانے والے شہنشاہان وقت؟ آج ان دل سوز مناظر پر
اقوام متحدہ کیوں خاموش ہے؟ کیا صرف اس لئے کہ مظلومیت کی اس چکی میں پسنے
والے مسلمان ہیں۔ اگر یہی کچھ عیساؤں یا یہودیوں کے ساتھ ہو تو پھر بھی کیا
یہی رویہ ہو گا!! یقینا نہیں۔ مسلمانوں کو اب بھی ہوش نہ آئے اور خواب غفلت
سے بیدار نہ ہوں۔ متحد ہوکر اپنے آپ کو مضبوط نہ کریں تو پھر اﷲ ہی حافظ
کیونکہ بقول اقبالؒ تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے ہے جرم ضعیفی کی
سزا مرگ مفاجات
تاریخ گواہ ہے کہ پوری دنیا میں جہاں بھی خونی تشدد، خانہ جنگی، انسانی
حقوق کی پامالی یا وحشیانہ سلوک کے واقعات پیش آئے ، وہاں اقوام متحدہ،
انسانی حقوق کی تنظیموں اور با اثر ممالک نے اس وقت مداخلت کی جب ان کے
مفاد وابستہ تھے یا مظلوم عیسائی تھے۔ ایسٹ تیمور، جنوبی سوڈان یا دیگر
مقامات پر ایسے واقعات کو روکنے کیلئے اقوام متحدہ اور با اثر ممالک نہ صرف
فوری مداخلت کی بلکہ ملکوں کو ہی تقسیم کردیا۔ لیکن جہاں جہاں مظلوم مسلمان
ہیں وہاں ان ساری طاقتوں کو سانپ سونگھ گیا۔ اگر کہیں کاروائی کی بھی تو
وسیع قتل و غارت کے بعد۔ افسوس تو ان57 مسلمان ممالک کے سربراہان پر ہے جو
خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ صرف ترکی کے صدر نے جرئت مندانہ آواز بلند کی
ہے باقی سب سہمے ہوئے اور خاموش۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمان ممالک کے قدرتی
وسائل اور تیل کے بغیر غیر مسلم ممالک کا ایک منٹ بھی گزارہ نہیں۔ کیا ان
وسائل پر قابض مسلمان ممالک کے سربراہان کا فرض نہیں بنتا کہ اپنے ان مظلوم
بھائیوں کا ان بد ترین حالات میں ساتھ دیں اور اس معاملے کو جلد از جلد
اقوام متحدہ میں اٹھائیں۔ ہم حکومت پاکستان سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ کہ
اس معاملے کو فوری طور پر اقوام متحدہ میں اٹھائیں۔ مسلم ممالک کی کانفرنس
بلائیں اور انہیں ساتھ ملا کر دباؤ بڑھائیں۔ برمی مسلمانوں سے چھینا ہوا حق
انہیں واپس لے کر دیں۔ یہ ان کا آبائی وطن ہے اور وہاں پر سکون طریقے سے
رہنے کا انہیں حق دیا جائے۔ یاد رکھیں اگر آج آواز نہ اٹھائی تو کل یہی حال
کسی اور ملک میں بسنے والے مسلمانوں کا بھی ہو سکتا ہے۔
جس دور پہ نازاں تھی دنیا ہم وہ بھی زمانہ بھول گئے غیروں کی کہانی یاد رہی
اور اپنا فسانہ بھول گئے
اغیار کا جادو چل بھی چکا ہم ایک تماشہ بن بھی چکے اپنوں کا مٹانا یاد رہا
غیروں کا مٹانا بھول گئے
انجام غلامی کیا کہیے بربادی سی بربادی ہے جو درس شہ بطخا نے دیا، وہ سبق
پڑھانا بھول گئے
عبرت کا مرقع یہ پستی اور قابل حیرت یہ مستی اوروں کو جگانا یاد رہا خود
ہوش میں آنا بھول گئے
اذان تو اب بھی ہوتی ہے مسجد کی فضا میں اے اختر جس ضرب سے دل ہل جاتے تھے
وہ ضرب لگانا بھول گئے- |
|