انسان کی اصل حقیقت اور آزمائش
کے وقت سامنے آتی ہے۔ اُس کی اصلیت، اس کی شخصیت کا بڑا یا چھوٹا پن، اُس
کی فطری جبلت، اُس کی اچھائیاں اور برائیاں کسی بھی امتحان کے وقت نمایاں
ہو کر سامنے آجاتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں خواہ وہ مہذب معاشرہ ہو یا غیر
مہذب، اچھے لوگوں کا ایک ہی چلن ہوتا ہے کہ جس کے ساتھ چلنا ہے ڈوبنا یا
تیرنا اُسی کے ساتھ ہوتا ہے۔ مصیبت میں ساتھ چھوڑنے والوں کو کوئی بھی
معاشرہ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ ایگزٹ اور بول دو مختلف ادارے ہیں۔مالکان
میں کچھ لوگ مشترک ہوں گئے۔ ایگزٹ زیر عتاب ہے جس کا اثر بول پر پڑا ہے مگر
کیوں؟اصل بات یہ ہے کہ اس ملک میں بہت سے مافیہ راج کر رہے ہیں۔ یہ سارے
مافیہ ایک دوسرے کے مددگار اور غمگسار ہیں۔ وہ لوگ جنہیں بول کسی طرح بھی
پسند نہیں تھا۔ ایگزٹ کی آڑ میں انہوں نے بول کو بھی پوری طرح نشانہ بنایا۔
میں نہیں جانتا بول کے مالکان میں کون کون شریک ہے مگر بول کا کمال یہ ہے
کہ اس نے کارکن صحافیوں کو عزت دی ہے۔ انہیں اُن کا جائز مقام دیا ہے۔
انہیں اُن کی خدمات کا جائز معاوضہ دیا ہے اور سب سے بڑی بات کہ معاوضہ
بروقت دیا ہے۔ آج بہت سے بڑے میڈیا گروپ کے مالکان خود تو ہر طرح کی مراعات
اور سرکار سے لفافے لیتے نہیں تھکتے۔ مگر جب کارکن صحافیوں کو ادائیگی کا
وقت آتا ہے تو اُن کا بجٹ خراب ہوتا ہے۔ کارکنوں کو کئی کئی ماہ تک تنخواہ
نہیں دیتے اور جو دیتے ہیں وہ اُن کی محنت کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے۔
بول کے طرز عمل نے نوجوان اور کارکن صحافیوں کے بارے ایک نیا کلچر پروان
چڑھایا ہے۔ وہ کلچر جس نے پرانے گدھ نما میڈیا گروپوں کو پریشان کیا ہوا
تھا۔ چنانچہ میڈیا کے مافیہ نے ملک بھر میں موجود برادر مافیہ سے مل کر
زبردستی بول کو بھی نشانہ بنایا ہے اور اسے صحافت اور صحافیوں کی نئی قدریں
متعارف کرانے کی پوری سزا دی جا رہی ہے۔ مگر خاص طور پر حیرانی اُن لوگوں
پر ہے جو صحافت میں بڑے اُصولی ہونے کے دعویدار تھے اور اپنے بڑے نام کی
وجہ سے بول سے موٹی موٹی رقمیں وصول کر رہے تھے کل تک بول کی تعریف کرتے نہ
تھکتے تھے اور اپنے ساتھ بہت سے کارکن صحافیوں کو بھی ایک اچھے مستقبل کی
یقین دہانی کے ساتھ لائے تھے۔ یکایک حالات بگڑتے دیکھ کر اُن کے ضمیر جاگ
گئے او روہ ابتداء کے اس دور میں اپنے ساتھی کارکنوں کو حالات کے رحم و کرم
پر چھوڑ کر ضمیر کے دئے جلانے شروع ہو گئے۔ ضمیر تو کبھی نہیں سوتا۔ البتہ
شرم کھو جاتی ہے۔ حیا سو جاتی ہے۔ اسی لئے کل تک جو میڈیا کے لیڈر بنے
پھرتے تھے آج بھاگنے میں بھی سب سے آگے ہیں۔ ان مشہور لوگوں کے بھاگنے پر
ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ حیرت کا اظہار کریں مگر میرے خیال میں یہ بہت فطری
تھا۔ یہ بظاہر بڑے نظر آنے والے لوگ بنیادی طور پر اپنے مفادات کے بندے ہیں۔
انہیں دوسرے سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ اپنی ذات سے پیار کرتے اور ذات ہی
سے سروکار رکھتے ہیں۔ سترہویں (۱۷) صدی کے مشہور انگریز فلسفی اور جدید
سائنسی فکر کے معمار فرانسس بیکن نے کہا ہے :
’’شہرت ایک دریا کی طرح ہے جو ہلکی او رکھوکھلی چیزوں کو اوپر لاتی ہے اور
وزنی اور ٹھوس چیزوں کو ڈبو دیتی ہے۔‘‘
چرب زبانی ایک فن ہے اور آج کل اس فن کے فنکار بھی بہت ہیں اور اس فن کو
فروغ دینے کے مواقع بھی بہت ہیں، وسائل بھی بے پناہ ہیں اور ایسے فنکاروں
کے فن سے فائدہ اٹھانے والے بھی بہت۔ جس چرب زبان کو حکومتی کاموں کو
خوبیوں میں بدلنا اور کمزور طبقے کی اچھائیوں کو بھی اہل اقتدار کی خوشنودی
کے لیے برائیوں میں بدل کر خوبصورتی سے پیش کرنا آتا ہے۔ وہ آج عزت اور
شہرت کی بلندیوں پر موجود ہے۔ اس لیے کہ چینلوں کی بھرمار ہے اور ایسے اہل
لوگوں کی کمیابی کہ جو بول ہی اچھے انداز میں سکیں نے ان لوگوں کو حادثاتی
طور پر اینکر بنا دیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ چند ایک اہل علم اور اہل فکر
کو چھوڑ کر زیادہ تر اینکر اسی قماش کے لوگ ہیں۔ یہ لوگ خود کوعقل کل
سمجھتے ہیں۔ موضوع کتنا ہی مشکل یا پیچیدہ ہو۔ یہ موضوع کو سونگھ کر اس پر
بے تُکا بول سکتے ہیں اوربولتے ہیں۔ اپنی عالمانہ رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
انہیں چینلوں کا مشکور ہونا چاہیے کہ اینکر بنا دیا، وگرنہ پرانے وقتوں میں
ایسے لوگ لال بجھکڑ کہلایا کرتے تھے۔ آج معزز ہونے کے بعد یہ لوگ اینکر کی
حیثیت سے کسی نہ کسی چینل پر بیٹھے پوری قوم کو اپنی سوچ اور فکر سے مالا
مال کر رہے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر بہت سے ایسے لوگوں سے پالا پڑا ہے۔
بلاشبہ ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اپنے علم، تجربے اور
معلومات کے باعث قابل تحسین اور قابل صد احترام ہیں۔ مگر بہت زیادہ ایسے
بھی ہیں جن سے ملاقات کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ان کے ذہن کے خول کے اندر
مغز پایا ہی نہیں جاتا۔ وہ چھلکے ہی کے بل بوتے پر عوام سے خوب کھیل رہے
ہیں۔
خوشی اس بات کی ہے کہ صحافی تنظیموں نے پہلی دفعہ کارکنوں کا درد محسوس کیا
ہے اور بول کے کارکنوں کا کھل کر ساتھ دے رہی ہیں۔ انہوں نے اُن نام نہاد
بڑے اینکروں کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کیا ہے کہ جو اُن کی کشتی منجدھار میں
چھوڑ کر خود ساحل کو لوٹ گئے۔ ہمارے بہت سے مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ
ہوتے ہیں۔ اگر تمام صحافی کارکن اکٹھے ہو جائیں تو چند اجارہ داروں کے نہیں
ہر کارکن کے حالات بہتر ہوں گے۔ یہ کارکنوں کے اتحاد ہی کا سبب ہے کہ آج
وزیر اطلاعات بھی کہتے ہیں کہ اس سارے معاملے میں بول ٹی وی کے ورکرز کا
کوئی قصو رنہیں ہے۔ حکومت اُن کے معاشی مسائل کو ان کی خواہشات کے مطابق حل
کرے گی اور صحافیوں کی تنخواہوں کا معاملہ جلد حل کر لیا جائے گا۔ یہ بیان
یقینا ورکرز کے اتحاد کا ہی مرہون منت ہے۔ ویسے ہو سکتا ہے کہ کسی کو پرویز
رشید سے کسی قسم کی کوئی اُمید ہو مگر وہ کچھ نہیں کریں گے۔ ورکرز کو اپنی
جنگ خود لڑنا ہوگی۔ اُن کا بیان تو اِک سیاسی بیان ہے۔ اُن سے کسی کو
بھلائی کی اُمید …………قتیل شفائی نے کہا ہے:
لٹ کر سمجھ رہے ہیں کہ نادم ہے رہزن
کتنی حسین اہل مروت کی بھول ہے |