برما

 11 برمی مسلمانوں کو جون کے مہینہ میں دوران سفر بس سے اتار کر فوجی اور بدھ مت کے پیروکاروں نے شدید تششد د کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کر دیا یہ خبر بین الاقوامی میڈیا میں آئی تو ضرور لیکن کسی کا بھی ضمیر نہ جاگا، کسی ہیومن رائٹس تنظیم کی زبان نہ کھلی جو پاکستان میں ذرا سی بات کو طوفان بنا کر رکھ دیتی تھیں ، 1962 میں فوجی حکومت کے آتے ہی مسلمانوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں کا سلوک روا رکھا جانے لگا، انہیں معاشی اور معاشرتی میدان میں دیوار کے ساتھ لگا دیا مسلمان نام کو نفرت کے طور پر جانچا جانے لگا، دلائی لامہ آنگ سانگ سوچی جس نے فوجی حکومت کے خلاف ایک طویل قیدو بند کی جدوجہد کی تھی اور میں خود اس کا معترف بھی ہوں لیکن ان کی زبان پر بھی تالے لگ گئے شایدڈھلتی عمرنے ان کے سارے نظریات بھی افہام تفہیم اور فوجی ضابطوں کے آگے سرنڈر کر دیئے تھے،فوجی حکومت کو اور شہ مل گئی روزانہ سوشل میڈیا پر ایسی ایسی ظلم وبربریت سے بھری تصاویر ماؤں بہنوں کی اپ لوڈ ہوتی ہیں کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے لیکن ہائے افسوس کہ نہ تو یو این او ایکشن میں آئی اور نہ ہی ہماری حکومت کے قفل کھلے۔عرب ممالک تو اپنی عیش و عشرت میں ہی ڈوبے ہوئے ہیں مسلمانوں کو ایسے ذبح کیا جارہا ہے کہ شاید جانوروں کے ساتھ بھی ایسا سلوک نہیں کیا جاتا۔ 7.5 کروڑ کی آبادی والے برما میں صرف 7 لاکھ مسلمانوں پر وہ ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں کہ آسمان بھی آنسو بہا رہا ہے لیکن مسلمان ممالک نے بے غیرتی کی حد کر دی ہے کہ اپنے ہی بھائیوں کو اپنے سامنے مٹی ہوتے دیکھ رہے ہیں لیکن زبان سے کلمہ حق ادا نہیں کیا جار ہا، کتنے افسوس کی بات ہے کہ برما کے صوبے اراکان کی سرحد بنگلہ دیش کی ساتھ ملتی ہے اور یہ وہ صوبہ ہے جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جب انہوں نے ہجرت کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کی تو بھارت نواز بنگلہ دیشی حکومت نے مہاجرین کے ساتھ جو سلوک کیا پوری دنیا نے دیکھا ، ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے بنگلہ دیش میں مسلم نہیں غیر مسلم بستے ہیں رہی کسر بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے اپنے انٹرویو میں پوری کر دی جس نے ثابت کیا کہ وہ مسلم کی خیر خواہ نہیں -

مسلم اکثریتی صوبہ اراکان کے مسلمانوں نے ہمت کرتے ہوئے ان مظالم پر احتجاجی تحریک شروع کی تو ان کی پہلی ریلی پر ہی فوجیوں نے فائرنگ کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کو زخمی و شہید کر دیا۔ مسلم خواتین کی اجتماعی زیادتی اور سرعام کی جانے لگی ان کی نازک اعضاء کو اپنی جنسی خواہش کے پوری ہونے کے بعد جانوروں سے بھی بد تر سلوک کا نشانہ بنا کر مغربی میڈیا میں پیش کیا جانے لگا ، شیر خوار بچوں کو اپنے پاؤں تلے کچل کر اپنی حیوانیت کو تسکین دی جانے لگی خاندان کے خاندان اجتماعی بربریت کا نشانہ بنادیئے گئے لیکن افسوس صد افسوس پاکستان کے میڈیا نے بھی ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیاشاید حکومت وقت کی خاموشی کو ہی اپنی خاموشی سے تعبیر کر لیا گیا، بین الاقوامی میڈیاجو پاکستان میں خواتین کے حقوق پر بڑا سر گرم عمل رہتا ہے اس کا ضمیر بھی سو گیا،یو این او بھی سائیلنٹ ہے حافظ سعید نے حکومت وقت کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ ہوش کے ناخن لو اور او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلاؤ ہماری ماؤں بہنوں کو سرعام رسوا کیا جارہا ہے مسلم بھائیوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں ترکی کے صدر نے مسلم امہ کی ترجمانی کرتے ہوئے دلیرانہ بیان میں کہا کہ ہمیں انتہائی اقدام پر مجبور نہ کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی طیب اردگان نے اپنی فوج کو مسلمانوں کے مدد کیلئے سمندر میں جانے کے احکامات جاری کئے ہیں اور بھٹکے ہوئے برمی مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ دی ہے ان پناہ گزینوں کا استقبال شیر دل صدر طیب اردگان اور انکی ہمسفر نے خود کیا طیب اردگان اورخاتون اول مہاجرین کی حالت زار پر خون کے آنسو روتے رہے لیکن باقی امت مسلمہ کہاں گئی ؟ کیا ہمارے ایٹمی پاکستان کے پاس چند ہمدردی کے بول بھی نہیں ہیں ۔ کہاں گئے وہ نعرے کہ خون کے آخرہ قطرہ تک اورپاسبان حرم۔ ڈوب کے مر جانا چاہئے ہمیں کہ ہم رات کو سکون سے سوتے ہیں اور ہمارے بھائی ظلم کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں ان کو کاروبار نہیں کرنے دیا جارہا ان کی شہریت ختم ہے،وہ جائیداد نہیں خرید سکتے اس دور جدید میں وہ کمیونیکیشن رابطہ سے محروم ہیں موبائل فون رکھنے پر پابندی ہے اور ہم سفارتی اصولوں ، خارجی اصولوں کی رسیوں سے بندھے نظر آتے ہیں کیا قرآن پاک کا وہ حکم ہم بھول گئے جس میں ہمیں بتلایا گیا کہ یہودو نصاری ٰ تمہارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے اور ہم چلے ہیں دوستیاں نبھانے اور بنانے۔

عالم اسلام کے پاس کس چیز کی کمی ہے، کونسی سے نعمت ہے جو اﷲ پاک کی ذات اقدس نے عالم اسلام کو نہیں دی عرب ریاستوں کی تیل کی پاور سونے کی پاور کو دیکھا جائے تو مغرب ہمارے پاؤں چاٹتا رہے لیکن اس نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کو اپنا کر ہمیں ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے ہم نے بھی دین اسلام کی تعلیمات سے دوری اختیار کر کے انہیں موقع دیا کہ وہ ہم میں نفاق پیدا کریں ،جب تک ہم اسلام اور اس کے ذریں اصولوں پر کاربند رہے ہمیں کوئی بھی نہ جھکا سکا پوری دنیا پر حکمرانی کی جھنڈا لہرایا اور جب سے دین کو چھوڑا تو اغیا ر نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، ہماری وہ حس ہی ختم ہو گئی جو ایک بھائی کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتی تھی ،کوئی ایک مسلمان پریشان ہوتا تھا تو دوسرے میں تڑپ اٹھتی تھی آ ج روزانہ درجنوں کے حساب سے ہمارے سامنے ہمارے بھائی بہنوں بزرگوں کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے لیکن ہمارے دل کو کچھ نہیں ہوتا ہمارے سامنے ہماری عصمتوں کو نوچا جا رہا ہے لیکن ہم خاموش تماشائی ہیں عالم اسلام کے پاور او آئی سی جو اقوام متحدہ کے بعد طاقتور تنظیم ہے شاید انہوں نے بھی عالم مغرب کی بیعت کر لی ہے کہ سرکار جو کریں وہ درست ہے لیکن ہمیں نہ پوچھا جائے ۔ آخر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی آج ان کے ساتھ ہو رہا ہے تو کل ہماری باری بھی آئیگی کیا ہم نہیں دیکھ رہے کہ فلسطین، کشمیر، فلپائن،لیبیا،صومالیہ،مراکش، عراق،ایریٹر یا اور افغانستان کے ساتھ کیسے سلوک کیا گیا اور ہم صرف خاموش تماشائی بنے مغرب کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہے اور چند ڈالرز کی خیرات لیتے رہے اہل مغرب نے ایک ایک کو تباہ و برباد کر دیا بلکہ وہاں پر اپنی موجودگی کو یقینی بنا کر ایسے ایسے اقدامات کیئے کہ ہماری اخلاقیات کا بھی جنازہ نکال کر رکھ دیا، کیا ہم نہیں دیکھ رہے کہ کشمیر اور فلسطین کے مسئلہ کو کون حل نہیں ہونے دے رہا اور آج برما میں حالات کیسے اور کون پیدا کر رہا ہے ہمیں اسلام کے نام لیوا ہونے کی سزا دی جارہی ہے اور اس میں پورا عالم اسلام بھی شامل ہے، اس کی خاموشی نے جہاں اہل برما کو اذیت پہنچائی ہے وہاں پر ہمارے مردہ ضمیر ہونے کی نشاندہی بھی ہو گئی۔
Dr Khalid Hussain
About the Author: Dr Khalid Hussain Read More Articles by Dr Khalid Hussain: 20 Articles with 13397 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.