ایسی چھلنی جس میں پانی نہ ٹھہرے

ایک بار ایک بادشاہ اپنے مصاحبوں کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا اور شعری انداز میں یہ اظہار کررہا تھا کہ آج کی دنیا میں میرے جیسا خوش نصیب شاید کوئی نہ ہو کیوں کی مجھے کسی قسم کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ اتفاق سے اسی وقت ایک فقیر ننگ دھڑنگ حالت میں گزرا جو شعری انداز میں کہ رہا تھا کہ اگر خدا تعالیٰ نے تجھے تمام نعمتیں عطاء بھی کی ہیں اور تجھے کوئی فکر نہیں ہے تو کیا تجھے میری اس حالت کی بھی فکر نہیں ہے میں تیری سلطنت میں رہتا ہوں اور میری حالت اتنی بری ہے بادشاہ نے فقیر کی یہ بات سنی تو اس کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا فقیر اپنا دامن پھلاؤں میں آپ کو چند اشرفیاں دینا چاہتا ہوں-

فقیر بادشاہ کی بات سن کر کہنے لگا بادشاہ میرا تو دامن بھی نہیں ہے تو پھیلاؤں کیا تو فقیر کی بات سن کر بادشاہ نے اسے ایک خوبصورت لباس بھی عطا کردیا ۔

چند دن کے بعد ایسا ہوا پھر فقیر گزرا اس نے پھر وہی آواز لگائی تو بادشاہ کو فقیر کی بات سن کر بہت غصہ آیا اس نے حکم دیا کہ اس فقیر کو بھگا دیا جائے اور مزید کہا کہ اس کی مثال اس چھلنی کی سی ہے جس میں جتنا بھی پانی ڈال لیا جائے اس میں پانی ٹھہر نہیں سکتا ہے میں نے اس کو اتنی اشرفیاں دیں تھی تو اس نے تو چند دن میں ہی ختم کردی ہیں۔

بادشاہ کا وزیر عقلمند اور غریبوں کا ہمدرد تھا اس نے کہا بادشاہ بلکل آپ ٹھیک فرماتے ہیں مگر اس کی ضرورت کے مطابق اسے امداد دیں یہ ایک حکایت تھی جس کاذکر شیخ سعدی نے فرمایا ہے ۔ اس حکایت سے ہمیں بہت سے سبق ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ امداد سائل کی ضرورت سے زیادہ نہ ہو کیوں کہ اس کی وجہ سے انسان کو فضول خرچی کی عادت پڑجاتی ہے جس کی وجہ سے خواہ اس کے پاس جتنا بھی ہوں اس کی حالت پھر ننگ دھڑنگ ہو جاتی ہے اور وہ پھر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائے گا ۔

دنیا میں جو اقوام آگے بڑھتی ہیں ان میں بہت سے خصوصیات ہوتی ہیں جو کہ انفرادی اور اجتماعی طور ہوتی ہیں انہیں خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے اپنے وسائل کا عقلمندانہ استعمال اور جو اقوام انفرادی یا اجتماعی طور پر فضول خرچی کی عادی بن جاتی ہیں ان کو ذلت اور رسوائی کا ان کو سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر بعد میں جائز ضرورتوں کے لئے بھی غیروں کے سامنے ساتھ پھیلانے پڑھ جاتے ہیں فضول خرچی نا صرف ایک بری عادت ہے بلکہ ایک گناہ بھی ہے قرآن اور نبی کریم ﷺ نے فضول خرچی کو انتہائی نا پسند فرمایا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ قرآن کریم کی سورہ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے کہ۔ ’’ بلا شبہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔

فضول خرچ آخر ناکام ہوتے ہیں اوردنیا اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے مگردور کیا جانا ہے بر صغیر میں مغلوں نے کتنے برسوں حکومت کی اور ایسی ایسی فضول خرچی کی کہ جس کی مثال ہمیں تاریخ میں نہیں ملتی ہے اور کبھی محل بنائے کبھی سرائے بنائے کبھی ہرنوں کے مقبرے بنائے کبھی جانوروں سے لاڈ پیار میں فضول خرچی کی اور کبھی شادی بیاہوں میں فضول خرچی کی۔

ان کی اسی فضول خرچیوں کی وجہ سے ان کے اخراجات بہت زیادہ ہوتے گئے اور سلطنت کی آمدنی کم ہوتی گئی اور اب آمدنی چونکہ کم تھی مگر فضول خرچی ان کی طبیعت میں رچ بس چکی تھی اب انہوں نے فضول خرچیوں کو جاری رکھنے کے لئے قرض لئے اور فوجیوں کی تنخواہیں دینا چونکہ ان کے لئے نا ممکن سا ہو گیا تھا فوج بھی کم کر لی جب فرج کم ہوئی تو سرحدوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوئے تو دشمنوں کو موقع ملا حملہ کرنے کا اور یوں مغلیہ سلطنت کا کام تمام کروالیا ۔

پورے ہندوستان میں ان کی فضول خرچیوں کی نشانیاں قائم ہیں ۔ آگرہ کا تاج محل، لال قلعہ، دہلی کے قطب مینار، پرانا قلعہ اور اسی طرح لکھنؤ اور فتح پور سیکری سمیت پورے ہندوستان میں مستقبل کے نا آشناؤں کی دلچسپیوں کا خمیازہ آج پوری مسلمان قوم بھگت رہی ہے ان حکمرانوں نے اپنے اللے تللے پورے کرنے کے شوق میں سلطنت کی معیشت کا دیوالہ نکال دیا تھا ۔

فضول خرچی ایک بری عادت اور ایک گناہ ہے جس کے مضر اثرات صرف ایک فرد تک محدود نہیں رہتے ہیں بلکہ پورا معاشرہ ان کے مضر اثرات سے متاثر ہو جاتا ہے آج ہم بھی اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں بھی یہ نظر آئے گا کہ ہمارا پورے کا پورا معاشرہ فضول خرچی کا شکار ہے ۔ ہر آدمی پنی ناک اونچی کرنے کی خاطر اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلا رہا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں وہ مزید ذلت اور رسوائی کا سامنا کرتا ہے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے بڑھ چڑھ کر خرچ کرتا ہے انفرادی فضول خرچی انسان کو انفرادی نقصان دیتی ہے مگر اجتماعی فضول خرچی سے قومی و ملکی معیشت بحران کا شکار ہو جاتی ہے اور یہ وہ بری عالت ہے جو آسمان سے زمین پر لا کر مارتی ہے۔ جو کوئی بھی خواہ وہ عام انسان ہو یا حکمران ہو اگر فضول خرچی میں مصروف ہے تو وہ یہ سمجھے کہ وہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے میں مصروف ہے آج اگر ہم دیکھیں تو ہمیں یہ صاف دیکھائی دے کا کہ ہمارا ملک بھی قرضوں پر چل رہا ہے کیوں کے ہمارے حکمرانوں نے اپنے اپنے دور بھی قومی وسائل کی قدر نہیں کی ہے۔ کہتے ہیں کہ عقل مند وہ ہے جو کہ اپنی غلطی سے سبق حاصل کرے مگر اس سے بھی پڑھ کر عقل مند وہ ہے جو دوسروں کی غلطی سے بھی سبق حاصل کرلے۔ہم بھی اپنے عقل مند ہونے کا سبق اپنی فضول خرچیوں کو کنٹرول کر کے دے سکتے ہیں ۔

مولنا الطاف حسین حالی اپنے منظوم کلام میں فضول خرچی کے بارے میں فرماتے ہیں۔
سرے راہ کے بیٹھا تھا اک گدائے ظریف
جہاں سے ہو کر گزرتے تھے سب صغیر و کبیر
ہر ایک سے ایک درم مانگتا تھا بے کم بیش
سخی ہو اس میں کے ممسک غریب ہو کہ امیر
فضول خرچ تھا بستی میں ایک دولت مند
کہ جس کا تھا کوئی اسراف میں نہ سبہ و نظیر
ہوا جو ایک دن اس راہ سے گزر اس کا
درم ایک اس نے بھی چاہا کہ کیجئے نذر فقیر
کہاں فقیر نے گو اپنی نہیں یہ عادت
کہ لیں درم سے زیادہ کسی سے ایک شعیر
پہ لوں گا آپ سے میں پانچ کم سے کم دینار
کہ دولت آپ کی پاتا ہوں میں زوال پذیر
یہی اللے تللے رہے تو آپ کو بھی !
ہماری طرح سے ہونا ہے ایک روز فقیر
سووقت ہے یہی لینے کا خود بدولت سے
دکھائے دیکھیے پھر اس کے بعد کیا تقدیر
Nadeem Ahmed Farrukh
About the Author: Nadeem Ahmed Farrukh Read More Articles by Nadeem Ahmed Farrukh: 33 Articles with 30769 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.