فقر اضطراری اور فقر اختیاری
(Hamid Jamil, Gujranwala)
کچھ لوگ فقر مجبوری کی حالت میں
لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ زندگی میں کچھ حاصل نہیں کر
سکتے اور نہ ہی زندگی کے کسی شعبہ میں کامیاب ہو سکتے ہیں اس لیے ضروریاتِ
زندگی کے حصول کے لیے کسی صاحبِ فقر کی بار گاہ میں پہنچ کر فقر کی چادر
اوڑھ لیتے ہیں۔ مقصد ان کا دیدارِ الٰہی نہیں، دنیا ہو تا ہے یا کسی دنیوی
پریشانی تکلیف اور بیماری سے گھبرا کر یا جذباتی ہو کر فقر کی راہ اختیار
کر لیتے ہیں ۔ یا کسی ولئکامل (صاحبِ فقر) کی وفات کے بعد اس کی خانقاہ کی
گدی نشینی اختیار کرنے والے لوگ ہیں عموماً یہ لوگ صاحبِ مزار کی اولاد میں
سے ہوتے ہیں ان کو فقر کی ہوا بھی نہیں لگتی مقصدِ زندگی صرف مزار کی آمدنی
تک یا صاحبِ مزار کے مریدوں کے نذرانے تک محدود ہوتا ہے یا پھر مشائخ بن کر
مقامِ عزّو جا ہ مقصود ہوتا ہے ۔ ایسے فقر کو'' فقرِ اضطراری'' کہتے ہیں۔
وہ طالبانِ حق خواہ وہ بادشاہ ، امیر، حاکم ، دولت مند، دنیا میں معروف،
غیر معروف یا غریب ہوں لیکن صرف دیدارِ الٰہی کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر
لگا کر فقر اختیا ر کرتے ہیں اور ان کی طلب دیدارِ الٰہی ہوتا ہے سارا عالم
چھوڑ کر کوئے یا ر کو اپنا بنا لیتے ہیں اور کہتے ہیں '' ہمارے لیے اللہ ہی
کافی ہے'' وہ اللہ سے اللہ کو ہی مانگتے ہیں اس مقصد کے لیے وہ اپنا سب کچھ
داؤ پر لگا دیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور فقیر ہوتے ہیں انہی کے بارے
میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ'' اللہ غنی ہے اور تم فقیر ہو۔ '' یہ فقرِ
اختیاری ہے۔ فقرِ اختیاری کے لیے دِل کو دنیا ، خواہشاتِ دنیا سے بے رغبت
کرنا ضروری ہے ۔ فقرِ اختیاری اور فقرِ اضطراری میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
فقرِ اضطراری روح کی موت کا باعث بنتا ہے جبکہ فقرِ اختیاری سے روح کو
زندگی حاصل ہوتی ہے۔ فقرِ اضطراری والا انسان ذلیل و خوار ہوتا ہے مگر فقرِ
اختیاری انسان کو وہ شوکت و قوت عطا کرتا ہے کہ پوری کائنات اس کے تصّرف
میں دے دی جاتی ہے حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے اسی فقر کو اپنا فخر قرار
دیا ہے۔
حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
واضح رہے کہ فقر دو قسم کا ہے ایک اختیاری دوسرا اضطراری۔ فقرِ اختیاری
الفقر فخری والفقر منی
(فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے) ہے ا س کے دو مراتب ہیں ایک خانہ دِل
کا تصرّف اور عنایت اور تمام دنیاوی خزانوں کا تصرّف دوسرے ہدایت، معرفت
اور قربِ الٰہی ۔ فقرِ اضطراری والا در بدر بھیک مانگتا پھرتا ہے(اللہ
تعالیٰ سے مانگنے کی بجائے لوگوں سے مال اکٹھا کر تا ہے) اور عنایتِ حق سے
محروم رہتاہے فقرِ اضطراری ہی فقرِ مُکبّ ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا
فرمان ہے
نعوذ باللہ من فقر المکب
(ترجمہ: میں منہ کے بل گرانے والے فقر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں) فقرِ ِ
اختیاری اسم اللہذات اور قربِ حضور پر مبنی ہے۔ (امیر الکونین)
فقیر (صاحبِ فقر ) دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جنہوں نے شہوت و ہوا کو
مار رکھا ہے اور وہ مقرّ بِ رحمٰن ہو چکے ہیں یہ لوگ اتنے عظیم الشان مرتبے
کے مالک ہیں کہ جس کی شرح بیان نہیں کی جا سکتی۔ اس قسم کے فقیر کو فقرِ
محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حاصل ہوتا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم کا فخر ہے ۔یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہم مجلس، ہم دم
اور ہم قدم ہوتے ہیں۔ یہ نہ تو کسی سے آرام کا سوال کرتے ہیں اورنہ کسی سے
روپے پیسے کی امید رکھتے ہیں۔ کیونکہ اُن کے پاس فقر کی نورانیت کا سرمایہ
ہوتا ہے ایسے فقیر راہِ خدا کے مشکل کشا اور راہنما ہوتے ہیں۔ دوسری قسم کے
فقیر (صاحبِ فقر) مطلق مردُود ہوتے ہیں سر اور داڑھی منڈواتے ہیں وہ بے حیا
ہیں اور معرفتِ خدا سے محروم ہیں۔اِسے فقرِ مُکِبّ (منہ کے بل گرانے والا
فقر) یعنی فقرِ اضطراری کہتے ہیں کیونکہ ایسے فقیر شرع محمدی صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم اور قدمِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کوا ختیار نہیں کرتے
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے:
نعوذ باللہ من فقر المکب
ترجمہ: میں فقرِ مُکِبّ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔
فقرِ مُکِبّ(فقرِ اضطراری) اسے کہتے ہیں جو دو حکمت سے خالی نہیں ہوتا یا
تو وہ ہر وقت دولتِ دنیا کی باتیں کرتا رہتا ہے کیونکہ وہ بخیل ہوتا ہے اور
اپنے مسلمان بھائیوں کا دشمن ہوتا ہے یا پھر خدا سے مفلسی اور تنگدستی کی
شکایت کرتا رہتا ہے۔ جو شخص فقرِ مُکِبّ کو چھوڑ دیتا ہے وہ فقرِ مُحبّ کو
پا لیتا ہے۔فقرِ مُحب کسے کہتے ہیں؟ فقرِ محب احکامِ الٰہی کی تعظیم، خلقِ
خدا پر شفقت اور اپنے اندر اخلاق الٰہیہ (صفاتِ الٰہیہ یعنی مقامِ بقا تک
رسائی) پیدا کرنے کا نام ہے۔ (نورالہدیٰ کلاں)
حاصلِ بحث یہ کہ فقر دینِ اسلام کا انتہائی اہم اور بنیادی حصہ ہے جس میں
انسان اللہ کا دیدار کر کے اس کی پہچان اور معرفت حاصل کرتا ہے اور باطنی
طور پر اپنے محبوب آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس تک رسائی حاصل کرتا
ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔
یایھا الذین اٰمنوا ادخلوا فی السلم کافت
ترجمہ: اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اسلام میں پورے داخل ہو جاؤ۔
اسلام صرف حقوق العباد اور حقوق اللہ کے نام پر صرف نماز روزے کا نام نہیں۔
معرفتِ الٰہی کا حصول بھی دین کا ایک اہم اور بنیادی حصہ ہے لیکن عام
مسلمانوں نے اسے دین سے بالا کوئی شے سمجھ کر اسے صرف ایک طبقے (اولیاء
اللہ) تک محدود کر دیا اور خود کو اس سے مبرّا سمجھ لیا حالانکہ قرآن کا
مخاطب ہر وہ انسان ہے جو خود کو مسلمان کہتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو فقر
ہی اصل دین ہے کیونکہ دین کا مقصد اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے اور یہ مقصد
راہِ فقر پر چل کر ہی پورا ہو سکتا ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال رحمتہ اللہ
علیہ نے فرمایا:
لفظ ‘‘اسلام‘‘ سے اگر یورپ کو کِد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے ‘‘ فقرِ غیور ‘‘
موجودہ دور میں جب ہم اپنے اردگرد نظر ڈالتے ہیں تو سوائے فتنہ' فساد اور
انتشار کے کچھ نظر نہیں آتا اور جب اپنے اندر جھانکتے ہیں' تو بے سکونی'
خوف اور فرسٹریشن ہماری حسیات پر غالب نظر آتی ہے۔ اسلام یعنی سلامتی والے
دین کے پیروکار ہوتے ہوئے بھی ہر جگہ سے سلامتی اور سکون مفقود ہے۔ محسنِ
انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو دین لائے ہیں' وہ ہر
انسان کی ظاہری و باطنی اور انفرادی و اجتماعی بہتری کا دین ہے۔آپ صلی اللہ
علیہ وآلہٖ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں اس انفرادی و اجتماعی فلاح
کی گواہی تمام تاریخ دیتی ہے لیکن آج اسی دین کی پیروی کرنے کے باوجود
مسلمانوں میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے دین کی
ادھوری پیروی کر رہے ہیں اور اسلام میں پورے داخل نہیں ہو رہے۔ صرف ظاہری
عبادات اور عقائد پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کر کے دین کی اصل روح یعنی
معرفتِ الٰہی کو مجروح کر رہے ہیں۔ معرفتِ الٰہی حاصل کیے بغیر عبادات کی
حیثیت ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم۔ بے روح عبادات بے سود اور بے کار
ہیں' ان سے وہ مطلوبہ نتائج کبھی حاصل نہیں کیے جاسکتے جو دین اسلام کا
مقصد ہیں یعنی روحانی ترقی اور ظاہری فلاح و بہبود۔۔
تحریر : خادم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس |
|