مجبوریاں

بے شک انسان صاحب اختیار بھی ہے اور مجبور بھی،اس بات کو سمجھنے کا بہترین طریقہ حضرت علی ؑ کا وہ قول ہے جس میں فرمایا:’’ایک پیر پر کھڑے ہونا اختیار ہے اور دونوں پاؤں پر کھڑا نہ ہونا مجبوری ہے‘‘

ہمارے معاشرے میں مجبور افراد بہت زیادہ ہیں اچھا یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مجبور بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو کچھ کرتے نہیں ہیں اور مجبور بن جاتے ہیں اور دوسرے وہ جو کوشش بہت کرتے ہیں آمدنی کم اور خرچے زیادہ ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مجبور ہو جاتے ہیں، ایسے افراد کی مجبوری کو سمجھنا چاہئے کیوں کہ ایسے افراد غلط نہیں ہیں اور ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں لوگ اپنی بہنوں،اور بیوی کو جاب کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں جب یہ کسی آفس میں جاب کرتی ہیں تو اکثر جگہوں پر ایسی خواتین کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا باس تو ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے کہ جیسے وہ ان کی لونڈی یا کنیز ہوں کسی کی مجبوری سے اس طرح فائدہ اُٹھانا غلط ہے ،کسی کی مجبوری اور غربت کا مذاق نہیں اُڑانا چاہئے،اﷲ ایسے افراد کو سخت نا پسند کرتا ہے اور روز آخرت ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔اﷲ کہتا ہے کہ اگر تم نے حقوق العباد میں کسی کے حق کو مارا تو یاد رکھنا اس کی معافی میں اﷲ نہیں بلکہ وہی دے گا جس کے حق کو مارا جائے اور ہم لوگوں کی آنکھوں کے آگے شیطان کی پٹیاں بن گئیں ہیں اپنی ماؤں اور بہنوں کو سات پردوں میں چھپاتے ہیں اور دوسروں کی ماؤں بہنوں کو بری نگاہ سے دیکھتے ہیں دل میں خیال بھی نہیں آتا کہ اﷲ دیکھ رہا ہے ہم یہی کہتے رہتے ہیں چلو آج گناہ کر لیتے ہیں آئندہ نہیں کریں گے یہ کہتے کہتے موت ہمارے سروں پر پہنچ جاتی ہے پھر ہم افسوس کرتے ہیں کہ یا اﷲ یہ میں نے کیا کر دیا معاف کر دے لیکن اب کیا فائدہ ،اس طرح تو ڈوبتے ہوئے تو فرعون نے بھی معافی مانگی تھی کیا معافی مل گئی نہیں کیوں کے معافی مانگنے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے ،ہم سمجھتے ہیں کیوں کہ ہم پیسہ دے رہے ہیں تو ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں ایسا نہیں ہے آپ پیسہ جاب کرنے کام کرنے کا دے رہے ہیں کسی کی عزت کے ساتھ کھیلنے کا نہیں ۔اس خوف سے ہماری مائیں بہنیں جاب وغیرہ نہیں کرتیں درحالانکہ شرعی پردے میں رہ کر جاب کی جا سکتی ہے لیکن شریف عورت ہمیشہ ڈرتی ہے کہ کہیں خدا نہ خواستہ کچھ غلط نہ ہو جائے،میں جانتا ہوں کہ جو گناہ گار ہے وہ اتنا عادی ہو چکا ہے کہ اب اُس پر کسی کی بھی نصیحتیں کام نہیں کرتیں وہ سمجھتا ہے بس میں تھا،ہوں اور ہمیشہ رہوں گا ایسا نہیں ہے ،جناب خدا کے لئے موت آنے سے پہلے سمجھیں کہ گناہ تو گناہ ہی کہلاتا ہے چاول کے دانے کے برابر بھی گناہ کا اﷲ سوال کرے گا تو کیا اﷲ اتنے بڑے گناہ کے بارے میں معاف کر دے گا نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ ہر گناہ کا سوال ہو گا ہر گناہ کی سزا ملے گی ہر مظلوم کو انصاف ملے گا اور ہر ظالم کیفر کردار تک پہنچے گا۔
 
Shahid Raza
About the Author: Shahid Raza Read More Articles by Shahid Raza: 162 Articles with 238907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.