علاقائی صحافی المعروف چھوٹے صحافی
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
پریس اور میڈیا کو کسی بھی ریاست
کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے لیکن اعلی ایوانوں والے
اورمقتدر حلقے اسے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور یوں کہا جائے تو بے جا نہ
ہوگاکہ وہ اسے نفرت و حقارت سے بھرے خوف کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہ نفرت
وہ خوف ہے جس کی وجہ ان کی بداعمالیاں اور بدعنوانیاں ہیں جن کے فاش ہونے
اور منظر عام پر آنے کے خوف سے منافقانہ طور پر میڈیا کو اہمیت دیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کے تمام کرپٹ طبقات جن میں سیاست، بیوروکریٹس، انتظامیہ اور
مقننہ کے علاوہ مجرمانہ ذہنیت اور خصلت رکھنے والے تمام لوگ آزادی صحافت کے
علمبردار تو دکھائی دیتے ہیں لیکن در حقیقت وہ آزادی رائے آزادی صحافت کے
بالکل مخالف ہیں کیونکہ میڈیا ان کی منافقت اور ان کے چہروں پر سجی جھوٹی
انا کو روز روشن کی طرح عیاں کردیتا ہے۔ ہر کوئی دلی طور پر چاہتا ہے کہ
پریس کو آزادی نہ دی جائے۔ یہ شتر بے مہار ہوگیا ہے اسے نکیل ڈالی جائے
لیکن آگ تو دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے کہ نہ وہ طبقات اپنے بداعمالیاں
چھوڑنے کو تیار ہوتے ہیں اور نہ میڈیا اپنے فرائض اور وقار سے صرف نظر کر
سکتاہے
صحافت کا بنیادی مقصد تو یہی ہے کہ عوامی آرزوؤں کو عوامی امنگوں کو زبان
دے کر معاشرے میں موجود ناہمواریوں ناانصافیوں اور مظالم کو بے نقاب کیا
جائے۔ تاکہ مستحق کو حق مل سکے۔ گناہگار کو سزا مل سکے۔ مظلوم کی داد رسی
ہو سکے۔ ظالم پر گرفت ہو سکے۔ان تمام حقائق کو منظر عام پرلانے کیلئے
صحافیوں کو کڑی آزمائش اور مصیبتوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ مار کھانی پڑتی ہے۔
دھکے سہنے پڑتے ہیں۔ تذلیل برداشت کرنا پڑتی ہے جیلوں کاٹنا ہوتی ہیں خون
بہانا پڑتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ معاشرے میں امن و سکون بپا رکھنے کی
خاطر صحافیوں کو جان کے نذرانے بھی پیش کرنا پڑے ہیں اور تاریخ کے اوراق اس
کی قربانیوں سے بھرے پڑے ہیں کہ صحافت کیلئے آزادی رائے اور آزادی اظہار
کیلئے صحافیوں کو اخباروالوں کو ہر طرح سے tease کیا گیا۔ لیکن سلام ہے ان
عظیم صحافیوں کی عظمت کو جن کے پایہ استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔ اور
وہ اپنے مقصد کی تکمیل میں ڈٹے رہے اور ضرورت پڑنے پر اپنی جان بھی نچھاور
کردی اورصحافت کی آزادی کو داغ نہ لگنے دیا مگر اس وقت بے حد افسوس اوردکھ
ہوتا ہے جب علاقائی صحافیوں کو نظر انداز کردیا تاجاتا ہے۔علاقائی صحافی
کسی بھی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کاBasics ہوتے ہیں محلہ گلی کوچوں اور
’’اندر کی خبروں‘‘کو منظر عام پر لانے میں ان کا کردار روز روشن کی طرح
عیاں ہے ۔ کسی بھی قومی و علاقائی اخبار کی سرکولیشن بات ہو کہ الیکٹرانک
میڈیا پر نشر ہونے والے پروگرام اور ریٹنگ حاصل کرنے والے اینکرشہرت میں
اضافہ ان سب عوامل میں علاقائی صحافی کسی نہ کسی شکل میں موجو د ہوتا ہے جو
انہیں حقائق اور معلومات باہم پہنچا رہے ہوتے ہیں۔مگراخبار و چینلزمالکان
انہیں own کرنے سے صاف انکاری ہوجاتے ہیں یہ بڑی مضحکہ خیز صورت حال ہو تی
ہے ۔ایسی ہی کسی صورت حال سے بچنے اور نمٹنے کیلئے ریجنل یونین آف جرنلسٹ
علاقائی صحافیوں کے حقوق کیلئے اپنا کردار نہایت عمدگی اور خلوص کے ساتھ
نبھارہی ہے ۔ قیادت کا اخلاص، لگن،چاہت اور چھوٹے صحافیوں سے محبت کو
دیکھتے ہوئے اس کا دائرہ کار پنجاب سے نکل کر سندہ اور بلوچستان کی جانب
اپنے سفر کا آغاز کرچکا ہے جو کہ نہایت ہی خوش آئندہے اور اس بات کا بین
ثبوت ہے کہ قیادت علاقائی صحافیوں کے حقوق کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں
کررہی ہے۔ اسی بات اور عمل میں ان کی مقبولیت کا گراف انتہائی حد تک بلند
کردیاہے ۔لاہور میں اسمبلی ہال کے سامنے دھرنا بھی بے مثال رہا اور اس میں
پنجاب حکومت نے ہم جیسے علاقائی صحافیوں کے مسائل سن اور سمجھ کر ان کے حل
کیلئے قدم بھی اٹھایا جس میں ضلعی سطح پر صحافتی کالونی کا قیام بھی ہے۔
جبکہ تیسرا یوم تاسیس بھی بھرپور انداز میں لاہور الحمرا میں15 جون کو
conduct کیا جارہا ہے جس میں پنجاب اور سندھ کے علاوہ ملک بھر سے ’’چھوٹے
صحافی‘‘ شرکت کریں گے
پاکستان میں بھٹو کا دور ہو یا ضیاء الحق کا۔نواز شریف اور مسلم لیگ کا دور
رہا ہو کہ پی پی پی کا ہر دور میں آزادی صحافت پر اپنے تئیں قدغن لگانے کی
بار ہا کوششیں کی گئیں مشرف دور میں نام نہاد آزادی صحافت کا ڈھنڈورا پیٹا
گیا اور سب سے زیادہ مظالم بھی اسی دور میں ڈھائے گئے۔ صحافیوں کا اغوا اور
قتل و غارت کی بھی بہت سی تازہ مثالیں اسی دور کی پیدا کردہ ہیں چینلز کی
بندش بھی اسی دور کا شاخسانہ ہیں۔ کسی بھی دور میں صحافیوں کی سیکیورٹی اور
ان کے فرائض کی ادائیگی کو حقیقی انداز میں نہیں سراہا گیا۔ سخت سے سخت
قوانین کا نفاذ اور آرڈیننس کی تلوار ہمہ وقت لٹکتی رہی اور پولیس رینجر
اور فوج کے ذریعے صحافیوں کو مختلف انداز اور طریقوں سے ٹارچر کیا جاتا رہا
اور تادیبی تعزیری کارروائیوں کے عذاب مسلسل میں دھونکا گیا ان سب کے
باوجودآزادی صحافت، آزادی اظہار، آزادی رائے کو، آوازکو، خیالات کو احساسات
و جذبات کو communicate کرنے کیلئے،عوامی آواز و جذبات کو اعلی ایوانوں تک
پہچانے اور اعلی ایوانوں کی ترجمانی کرکے ان کے خیالات عوام تک پہنچانے
کیلئے، دنیا کے گلی کوچوں سے روشن و تاریک کونوں سے دبی سسکیوں اور چیخ و
پکار سے حقائق کھینچ لانے کیلئے، علاقائی صحافی المعروف چھوٹے صحافی تن من
دھن جی ہاں تن من دھن سے اپنے کاز پر ڈٹے ہوئے ہیں جس کی وجہ ادارے پاکستان
اور دنیا بھر میں اپنا لوہا منوارہے ہیں جس طرح سے ہم علاقائی صحافی آپ کے
اداروں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کیلئے مخلص ہوکر مصروف عمل ہیں آپ کو بھی
اسی خلوص اور محبت کے ساتھ ان کے جائز حقوق کو تسلیم کرلینا چاہئے اور
انہیں بنیادی سہولیات اور مراعات دینے اور دلوانے کیلئے ان کے شانہ بشانہ
چلنا چاہئے
تاہم پیشے کے اعتبار سے کسی بھی تمیز و تفریق کے بغیر اصل حقائق عوم تک
پہنچانا ہمارا فرض ہے اور اشتعال انگیز اور نفرت کو ہوا دینے والی معلومات
سے اجتناب نہ کرنا بھی ایک جرم ہے اس قسم کے عوامل سے پرہیز کرنا چاہئے
جبکہ خفیہ ہاتھوں اور چھپے درندوں کو بے نقاب کرناچاہئے۔میڈیا چونکہ کسی کی
ہاں میں ہاں ملانے کا عام طور پر روادار نہیں ہوتالیکن اسے صحافتی ضابطوں
سے بھی انحراف نہیں کرنا چاہئے
|
|