خود مختاری یا نجکاری
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
ایک گھر کے سربراہ کو یہ برداشت
نہیں کہ اس کی بیوی کسی اور سے گھر کا خرچہ لے اسی طرح ایک والد کو منظور
نہیں کہ اس کے ہوتے ہوئے اس کے بچے روزانہ کا خرچ کسی اورسے لیں کیونکہ
بیوی بچوں کے اخراجات خاوند یا والد کے ذمہ ہیں ایک غیرت مند انسان کی یہی
خواہش ہوتی ہے کہ میری بیوی اور بچے کسی کے آگئے ہاتھ نہ پھیلائیں بلکہ میں
خودہی ان کے اخراجات پورے کروں اور اپنے گھر والوں کی دولت جو اﷲ تعالیٰ نے
مجھے عطاء کی ہے فضول خرچ نہ کروں تاکہ بعد میں اخراجات پورے کرنے کیلئے
کسی اور کے آگئے ہاتھ نہ پھیلاؤں بالکل اسی طرح ایک قوم کے حکمرانوں پر اہم
ترین فرائض میں سے ایک فرض یہ عائد ہوتا ہے کہ اپنی قوم کو معیاری
،یکساں،قومی زبان پر مشتمل تعلیم سے آراستہ کرے ،جس طرح ایک گھر کا سربراہ
فضول خرچی نہیں کرتا تاکہ مجھے کسی کے ایک آگئے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں بالکل
اسی طرح ایک حکمران کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کے پیسے کو امانت سمجھ کر
جائز کاموں میں استعمال کرے تاکہ بعد میں اسے ریاست کے اخراجات پورے کرنے
کیلئے اسے کسی ملک کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں یہ زد عام حقیقت پاکستان
کے حکمرانوں کو سمجھ میں اب تک نہیں آئی ہر سال بجٹ پیش کیا جاتا ہے مگر
الفاظ کا ہیر پھیر امیروں کو نوازا جاتا ہے غریبوں کا استحصال کرنے کا عزم
کر رکھا ہے تعلیم ،روٹی کپڑا،مکان،صحت پر کوئی خاص رقم مختص نہیں کی جاتی
قوم کی حالت ویسے کی ویسے ہی ہے تعلیم جیسے اہم شعبے کا یہ حال ہے کہ ہر
سال حکمران بجٹ پیش کرتے وقت تعلیم سے مذاق کرتے ہیں مختص کی گئی رقم تعلیم
کیلئے ہمیشہ ناکافی ثابت ہوئی مگر حکمرانوں نے قوم کا پیسہ ذاتی عیاشیوں
کیلئے مختص کئے رکھا تعلیم کا کبھی بھی خیال نہ کیا جس کے باعث ہر سال یہ
انتہائی بری،ذلت ا ٓمیزخبر سننے کو ملتی ہے کہ حکومت تعلیمی ادارے ملک دشمن
قوتوں کو فروخت کر رہی ہے پھر وہ قوتیں نصاب تعلیم کو اپنی منشاء کے مطابق
ڈھالنے میں مگن ہوجاتی ہیں کیونکہ جب تعلیم کے نام پر اپنے دشمن ممالک سے
فنڈ لو گے تو ان کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کا نصاب وطریقہ تعلیم وضع کریں
تعلیم اداروں کو فروخت کرنے کے ظالمانہ عمل درجہ بدرجہ جاری وساری ہے اس کا
پہلے نام نجکاری تھا عوامی ردعمل کے خوف سے حکمرانوں نے اس کا نام اب خود
مختاری رکھ دیا ہے لاہور میں 200 سکولوں کو خود مختاری کے نام پر نجکاری کی
بھینٹ چڑھایا جارہا ہے ہر سکول کیلئے بورڈ آف گورنرز بنایا جائے گا جس میں
ارکان اسمبلی اور مقامی سیاستدان شامل ہوں گے سکول نیم سرکاری حیثیت سے
چلائیں جائیں گے بورڈ آف گورنرز کو انتظامی امور اور بھرتیوں کے اختیارات
حاصل ہوں گے تاکہ سیاست کے میدان کی طرح یہ اقتدار ،عہدے،نوکری کے
لالچی،اقربا پرور سیاست دان تعلیمی اداروں میں بھی اپنی سیاسی بازی گری کا
مظاہرہ کر سکیں جو ملک کے گلی، محلوں،اقتدار کے ایوانوں میں قوم دیکھ کر سر
شرم سے جھکائے ہوئے ہے غیر جانب دار حلقوں کا کہنا ہے کہ تعلیم کو سیاسی
جمہوری مطلب پرست بازی گروں سے بچایا جائے ورنہ شعبہ تعلیم بھی موجودہ
سیاست کی طرح زوال پذیر ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ صوبہ پنجاب کے 400 تعلیمی
ادارے پہلے ہی مختلف این جی اوز اور فلاحی تنظیموں کے سپرد ہیں ،ایک قومی
اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی دارالحکومت کے 200 سکولز کے انتظامات پہلے
ہی ایک فاؤنڈیشن کے سپرد ہیں اسی طرح دیگر اضلاع میں بھی 200 سکولوں کے
انتظامات دیگر فلاحی تنظیموں اور این جی اوز کے سپرد ہیں ۔ اس صورتحال کے
بعد کسی تبصرے اور تجزیے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ صوبہ بھر کے 400 تعلیمی
ادارے این جی اوز اور فلاحی تنظیموں کے سپرد ہیں جن کا محب اسلام اور
پاکستان ہونا ہر گز ضروری نہیں ۔بس فلاحی اور این جی اوز کا لیبل ہونا
ضروری ہے اس اقدام سے تعلیم پر مثبت کی بجائے منفی بلکہ بہت ہی زیادہ منفی
اثرات مرتب ہورہے ہیں نصاب تعلیم ونظام تعلیم کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا گیا
ہے نظریہ پاکستان کو الٹی چھری سے ذبح کرنے کا ناقابل معافی جرم سرعام کیا
جا رہا ہے کوئی پوچھنے ولا ہی نہیں ۔تعلیم ہی نظریاتی نسل تیار کرتی ہے جو
ریاست ومذہب کیلئے ہر قسم کی قربانی کیلئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے مگر یہاں
چند ٹکوں کے عوض نظام ونصاب تعلیم گروی رکھ دیا گیا ہے یعنی دودھ کی
رکھوالی پر بلیوں کو بیٹھا دیا گیا ہے ۔قارئین کرام!غور فرمائیں کہ ہر گھر
کے فرد میں تو اتنی غیرت ہے کہ میں نے خود اپنی کمائی سے اپنے گھر کے
بنیادی اخراجات پورے کرنے ہیں مگر پاکستان کے حکمرانوں میں ابھی تک اس غیرت
نے انگھڑائی نہیں لی کہ تعلیم جیسے بنیادی شعبے کیلئے ہم نے وسائل دوسرے
ممالک ،این جی اوز یا فلاحی تنظیموں سے لینے کی بجائے اپنے قومی وسائل سے
پورے کرنے ہیں تاکہ محب اسلام محب وطن نسل قوم کو میسر آسکے۔ ان حکمرانوں
نے کبھی نہیں سوچا کہ یہ ہماری قوم کے بچے ہیں ان کو معیاری تعلیم پاکستانی
قوم کے وسائل سے ہی دلوانی ہے ،قوم کے دانشور،قلمکار، محب وطن ہمہ وقت یہی
مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ قوم کو ملک وسائل سے قومی زبان پر مشتمل
نظریاتی نظام ونصاب تعلیم مہیا کیا جائے حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ
پاکستانی ایک بیدار قوم کانام ہے تمھاری ہر غلط پالیسی پر نظر عقاب رکھے
ہوئے ہے اور اصلاح کی غرض سے تنقید کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے خود مختاری
کے نام پر تعلیم اداروں کی نجکاری قوم کو ہرگز قبول نہیں قوم کا مطالبہ ہے
کہ قومی وسائل سے ہی ان کے بچوں کواسلام اور نظریہ پاکستان کی حامل تعلیم
سے آراستہ کیا جائے اس سلسلے میں اساتذہ تنظیمیں،متحدہ طلبہ محاذ،اسلامی
تحریک طلبہ ،اسلامی جمعیت طلبہ،اے ٹی آئی،اے ایم ایس،ودیگرطلبہ تنظیموں نے
تعلیم بچاؤ مہم جاری کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ |
|