کیا ہم ماڈرن ایج کے واقعی نکھاندے لوگ ہیں....؟
( محمد عیداللہ علوی, Islamabad)
میں بھی چاہتا ہوں اور یقیناً آپ
بھی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے چاہتے ہوں گے کہ آپ اپنے سماج، علاقہ اور
برادری میں چاہے جائیں .... جی ہاں .... یہ ہماری زندگی کی سب سے بڑی اور
آخری تمنا، خواہش اور آرزو (desire) ہوتی ہے، اس خطہ کوہسار نے بے شمار
ایسے لوگ دیکھے ہیں جو چاہے بھی گئے ہیں اور انہیں رد بھی کیا گیا ہے، چاہے
جانے والوں میں حضرت بابا چندن خان، حضرت بابا رتن خان، حضرت پیر ملک سراج
خان،حضرت پیر فقیر االلہ بکوٹی، حضرت پیر نظیر احمد موہڑوی، حضرت لعل
بادشاہ اور بہت سے دیگر بزرگ شامل ہیں ہم اپنی دلی انا (Ego) کے مطابق ان
کی ابدی آرام گاہوں تک جاتے ہیں اور انہوں نے جو اپنے فیض کے چشمے بعد از
مرگ جاری کئے ہوئے ہیں ان کی چاہت سے من کی مراد بھی پالیتے ہیں۔
چاہنا تو ایک طرف، کوہسار کے اجلے معاشرے کو داغدار کرنے والوں کی فہرست
بھی بڑی طویل ہے ایک طرف بالاکوٹ کا معرکہ جاری تھا اور دوسری طرف یہ لالچ
کے پتلے اپنے بھائی بندوں کو خونخوار ڈوگرہ جرنیل ہری سنگھ نلوہ کے حوالے
کررہے تھے، اس طوفان بدتمیزی کے بعدکوہسار کے ویرانوں اورآبادیوں میں آخری
1857ءکی جنگ آزادی لڑی گئی اس میں بھی ان کا منافقانہ کردار جاری رہا،
ڈوگروں نے کچھ دیا یا نہ دیا مگر کوہسار کے ان ٹھکرائے جانے والوں کو
منٹگمری (موجودہ ساہیوال) کے مربعے ضرور ملے۔ ان کرداروں میں ایک کردار نور
دین کابھی تھا جس کا محل موجودہ کوہالہ بازار سے ٹھیک اوپر نکے پر تھا، آج
اس جگہ کا نام ”نورے ناں باغ“ (Garden of Nora) ہے مگر آج یہ کوئی نہیں
جانتا کہ یہ نورا تھا کون؟ اور اس کا فردوس گم گشتہ (Paradise Lost) کی کیا
حقیقت ہے کیونکہ کوہسار کے سماج نے اسے بل گیٹس سے زیادہ دولت مند ہونے کے
باوجود مسترد کردیا تھا اور پرانے کوہالہ کے تاریخی پل کے نیچے اسے انسانی
گندگی کھاتے ہوئے آخری سانسیں بھی لیتے دیکھا گیا تھا، اس کی نماز جنازہ کے
بجائے اس کی بدبودار لاش دریائے جہلم کے اچھلتے کودتے پانیوں کے حوالے کردی
گئی تھی (اس موضوع پر پھر کبھی سہی) انہی کوہساروں نے چودہویں صدی کے ”باس
خان“ نامی ایک کیٹھوال سردار کو بھی دیکھا تھا، وہ موجودہ سرداروں سے زیادہ
سیاسی، سماجی اور دولت کی طاقت میں بھی بہت بڑا تھا اور ہوتریڑی چوک سے
کنیر پل تک کی جاگیر کا مالک بھی .... اس کا نڑھ(وسطی باسیاں) میں محل بھی
تھا، باسیاں کا دیوان (گکھڑوں کے عہد میں دیوان کی وہی حیثیت تھی جیسے آج
یونین کونسل اور ویلج کونسل کی ہے، اس پر بھی پھر کبھی بات ہوگی) اس کا
سیاسی نیوکلس(Nucleus) تھا، مگر اس سب سے ہٹ یہ کہ اس کا دسترخوان ہر کسی
کے لئے بالعموم اور مسافروں اور پردیسیوں کے لئے بالخصوص 24گھنٹے کھلا ہوتا
تھا باسیاں آنے یا جانے والا بھوکا یا پیاسا نہیں رہتا تھا، جتنے دن چاہتا
قیام کرتا اور پھر اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتا، ویلج کونسل باسیاں کی
حدود میں واقع علاقہ اس کے عہد میں دومیل کہلاتا تھا ، مگر وہ دومیل کے
ہزاروں لوگوں میں چاہا گیا اور آج اس کے نام سے دومیل کا یہ علاقہ ”باسیاں“
کہلاتا ہے۔ یہی روایت پوٹھ شریف میں حضرت پیر ملک سراج خانؒ نے جاری رکھی،
مسافروں کی کشمیر سے پوٹھوہار جاتے ہوئے باسیاں سے اگلی منزل پوٹھہ شریف
ہوتی تھی اور وہاں بھی انہیں وسیع دسترخوان ملتا جہاں وہ روٹیاں اور نوالے
گننے والوں سے آزاد ہوتے تھے، پیر ملک سراج خان کی مہمانداری کا لطف اٹھاتے
اور اپنی مرضی کے مطابق جتنے دن چاہتے وہاں رہتے، انجوائے کرتے اور پھر
اپنی منزل کی طرف چل پڑتے، خواجہ بکوٹی و موہڑوی نے بھی اپنے دسترخوان کو
وی آئی پیز کے بجائے بے کس و بے بس ہم وطنوں ، مسافروں اور پردیسیوں کے لئے
کھلا رکھا ، اپنے جانشینوں کو بھی یہی ہدایت کی اور آج ایک صدی بعد بھی وہ
کوہسار میں بسنے والے ہر شخص کے دل میں بستے ہیں اور چاہے جارہے ہیں اور
صبح قیامت تک اسی طرح چاہے جاتے رہیں گے۔
کھانا پینا اور مناظر فطرت کو انجوائے کرنا ہرزندہ مرد و عورت کی ضرورت ہے،
مشکل وقت پڑنے پر کوئی منہ میں نوالہ رکھے یا نہ رکھے ، اگر زندگی کی
سانسیں باقی ہیں تو بیت ہی جاتی ہیں، 5 ہزار سالہ تاریخ میں سرکل بکوٹ کے
ان فلک بوس پہاڑوں نے اپنوں کی کیا ، نامعلوم پردیسیوں کی بھی ایسی اجلی
اور مایہ ناز مہمانداریاں دیکھی ہیں کہ ہم ان نامعلوم میزبانوں کے حسن سلوک
پر صدیوں بعد بھی نازکرسکتے ہیں۔ ان کوہساروں نے دیکھا:۔
٭.... 4 ہزارقبل مسیح میں گندھارا سلطنت بشمول سرکل بکوٹ ، گلیات اور کوہ
مری کا دارالحکومت ٹیکسلا میں بدھا یونیورسٹی تھی، کشمیر سے طالب علم
موجودہ کنیر پل سے 5 سو فٹ اوپر سے گزرنے والے وتستا (دریائے جہلم) کو عبور
کرکے ہوتریڑی (قدیم ہند کا ایک ایسا شہر تھا جیسے سعودی عرب کا جدہ) میں
قیام کرتے اور یہاں بسنے والے کیٹھوالوں اور راجپوتوں کی مہمان نوازی کا
لطف اٹھاتے، وہاں سے اوپر موشپوری پر ان کا ایک مندر (Temple) تھا وہاں
ماتھا ٹیکتے ، وہاں سے وہ لورہ کے راستے ٹیکسلا کی بدھا یونیورسٹی میں
پہنچتے اور وہاں پانانی اور چانکیہ کوٹلیہ جیسے اپنے وقت کے ہندو اور بدھ
علماءسے علم کی پاس بجھاتے۔
٭.... 570ءکے لگ بھگ وسطی ایشیا کے سفید ہنوں نے ٹیکسلا کی اینٹ سے اینٹ
بجائی، تمدن تتر بتر ہوا مگر اہلیان کوہسار کی مہمان نوازی میں کوئی فرق
نہیں آیا، کشمیر اور پنجاب سے مسافر اور پردیسی آتے جاتے رہے، لوگوں نے
مسافر خانے بنائے اور خدمت جاری رکھی۔
٭.... حضرت شاہ علی ہمدانؒ 12ویں صدی میں کوہسار آئے، یہاںکے کیٹھوال، ستی
اور راجپوت قبائل نے ان کی مہمان نوازی کی اور ان کی تبلیغ پر اسلام بھی
قبول کیا، ان کے سوانح نگار کوہسار میں ان کی مہمان نوازی پر آج بھی رطب
اللسان ہیں۔
٭....ڈھونڈ عباسی قبیلہ کے جد امجد حضرت بابا چندن اور حضرت بابا رتن کی
مہمانداری پونچھ میں اپنی مثال آپ تھی، چمیاٹی ان کی بہک(Seasonal stay)
تھی، یہاں بھی ڈوگروں کے آنے تک ان کا لنگر جاری رہا۔
٭.... پوٹھہ شریف میں حضرت پیر ملک سراج خان کا لنگر تو بے مثل و بے مثال
تھا، وہ مسافروں سے ان کی روزمرہ کی ضروریات کے بارے میں بھی پوچھتے اور اس
کی مراد پوری کرتے، یہ سلسلہ بھی 1800ءتک جاری رہا۔
٭.... پیر فقیراللہ بکوٹی سرکل بکوٹ آئے تو پہلے بیروٹ اور پھر بکوٹ میں
مسافروں ، مجاہدوں اور پردیسیوں کے لئے لنگر جاری کیا جو آج بھی بکوٹ میں
موجود اور جاری ہے اسی طرح خواجہ موہڑوی اور دیگر روحانی اکابر کے چشمہ
ہائے فیض سے پیٹ اور من کے بھوکے پیاسے سیر ہو کر مرادیں پا رہے ہیں۔
1800 ءمیں سکھوں نے اپنے اقتدار سے کوہسار کو بانجھ کردیا، مگر تمدن اور
تہذیب کا سفر جاری رہا، ڈوگروں کے ظلم سے ستائے کشمیری اس خطہ کوہسار میں
آتے اور مدد لے کر جاتے۔ یہ سلسلہ 1985 ءتک جاری رہا، 1948ءمیں بھارت نے
کشمیر پر قبضہ کیا تو کشمیریوں نے کوہالہ پل عبور کرکے پھر اس خطہ میں پناہ
لی۔ سرکل بکوٹ سمیت کوہسار کے لوگوں نے ان کشمیری خاندانوں کو آپس میں بانٹ
لیا اور مواخات نبوی کی یاد تازہ کردی ، گھر میں جو کچھ تھا آدھا آدھا ان
خدائی مہمانوں میں تقسیم کردیا، یہی صورتحال 1991ءکے دریائے جہلم میں
طغیانی کی وجہ سے پیش وئی ، کوہالہ پل ٹوٹ گیا اور کشمیری مسافر ، خواتین ،
مردوں اور بچوں کو یونین کونسل بیروٹ میں ڈیڑھ ہفتے تک مہمان بنا کر ان کی
اپنی بساط سے بڑھ کر مہمان نوازی کی گئی۔ 2005ءکے زلزلہ میں سرکل بکوٹ کے
اجڑے دیار میں زخمیوں اور لٹے پٹے لوگوں کی جو مہمان نوازی کی گئی وہ بھی
بے مثال تھی.... لیکن ....30 مئی 2015 ءکو ہم نے کیا کیا.... کہ سر شرم سے
جھک گئے۔
30 مئی کو سرکل بکوٹ میں بلدیاتی الیکشن تھا، الیکشن کمیشن نے اگلے روز
عملہ یہاں کے ہر پولنگ سٹیشن پر بھیجا، 30 مئی کی صبح سے رات گئے تک یہ
عملہ بھوکا پیاسا کام کرتا رہا۔ اپنی الیکشن مہم پر لاکھوں روپے خرچ کرنے
والے امیدواروں کو کھانا تو ایک طرف ، پولنگ سٹیشن میں ایک ٹھنڈے پانی کا
کولر بھی رکھنے کی توفیق نہیں ہوئی، باہر 20 روپے میں پانی فروخت ہوتا رہا۔
مغرب کے بعد میں ہائی سکول بیروٹ میں انتخابات کا تماشا دیکھنے گیا ،
امیدواروں کے حامی غراتے ہوئے ایک دوسرے پر برس رہے تھے میں نے ایلیٹ فورس
کے ایک مسلح اہلکار کو اس کی ڈیوٹی یاد دلائی تو اس نے اپنے منہ سے جو
الفاظ نکالے کہ ہم آج صبح سے بھوکے پیاسے ہیں، آپ لوگ اتنے گئے گزرے ہیں کہ
آپ نے اپنے مہمانوں کو پوچھا بھی نہیں .... یقیناً ....یہ ایک پشتون کی طرف
سے سرکل بکوٹ کے ہم ماڈرن مگر نکھاندے (Uncivilized) لوگوں کے لئے طعنہ تھا
، میں سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ باسیاں سے ایک فون آیا، میں نے اس سے پوچھا
کہ کیا ہورہا ہے ، تو اس نے بتایا کہ باسیاں کے امیدواروں کی دعوتیں اڑا
رہا ہوں، آج باسیاں میں کسی نے گھر میں کھانا نہیں پکایا، امیدواروں کا
انتخابی عملے ، پولیس اور ایلیت فورس کے اہلکاروں اور ووٹروں کے لئے صبح سے
رات گئے تک کھانا چلتا رہا .... واقعی ماڈرن سرکل بکوٹ کے نکھاندے سماج میں
.... باس خان جیسے مہمان نواز باسیاں والو.... تم نے ہماری عزت رکھ لی،
ورنہ ہمیں کیا پتہ کہ .... ہم کون تھے اور اب کیا ہیں.... ہم لالچی، حریص
اور نکھاندے لوگ ہیں.... کوئی ہمارے گھر آئے تو کیا لائے گا اور ہم اس کے
گھر جائیں گے تو وہ ہمیں کیا دے گا.... کیا ایسی سوچ رکھنے والے خواہ اپنے
دیس میں ہوں یا پردیس میں.... چاہے جانے کے قابل ہیں....؟ ذرا نہیں پورا
سوچئے۔ |
|