بیٹی اور باپ کی آپس میں محبت کے
بارے میں کیاخوب کہاگیا ہے :
’’باپ اور بیٹی میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے کہ دونوں کو اپنی گڑیا سے بہت
پیار ہوتا ہے ‘‘
(خبر) چک جھمرہ میں غربت سے تنگ ارشاد عرف شادا نے گلہ دبا کر اپنی بیٹیوں
سات سالہ دو جڑواں بہنیں امان ، تشمان اور پانچ سالہ فضاکو قتل کر دیا۔غربت
اور فاقوں سے تنگ یہ ملزم ارشاد ایک عرصہ سے بے روزگار تھا اور اسے کہیں
کام نہیں مل رہا تھا ۔یہ انتہائی قدم اٹھانے کے بعد ملزم ارشاد چیخ و پکار
کرتا ہوا گھر سے فرار ہوگیا اس المناک واقعہ کے بعد پورے گاؤں میں کہرام مچ
گیا گاؤں والوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ غربت اور بیٹیاں زیادہ ہونے کی
وجہ سے ارشاد نے یہ قدم اٹھایا ۔
اس خبر کو پڑھ کر جہاں افسوس ہوتا ہے وہاں ہی ایک لاچارگی ایک مایوسی نظر
آتی ہے ۔اس خبر کو المیہ کہا جائے یا بے حسی کہی جائے ، یہ فیصلہ کرنا تب
مشکل ہے کہ اس ایک واقعہ میں وہ سبھی الفاظ ضم ہوجاتے ہیں جو اس موقع پر
فرداً فرداً استعمال ہوتے ہیں ۔اس نقصان کا غم تو وہی جانے کہ جس پر یہ
گزری باقی تو بس چند منٹ کی آہ یا پھر بکاہ اور پھر وہی لاپروائی وہی بے
حسی کہ جو ایسے واقعات کا موجب بنتی ہے۔ نہ جانے کیو ں مجھے یہ واقعہ پڑھ
کر زمانہ جا ہلیت کے وہ لوگ یاد آنے لگ پڑے جو جھو ٹی شان وشوکت اور غربت
وتنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسے ہی اقدام کر تے اور اپنی اولاد خاص
کر بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے ۔مذکورہ بالا خبر اور زمانہ جاہلیت کے
حالات و واقعات پڑھنے کے بعد سوچنے اور غور و فکر کرنے والوں کے لیے یہی
سوال کافی ہے کہ کیا ہم زمانہ جاہلیت سے بھی گئے گزرے دور میں زندگی بسر کر
رہے ہیں ـ؟
غر بت کو ڈھا ل بناکر والدین کی طرف سے اٹھائے جا نے والے انتہائی اقدامات
میں سے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے تقریباً آئے روز اس قسم کی خبروں سے واسطہ
پڑتا رہتا ہے ،کہیں بچوں کی بھوک و پیاس کی وجہ سے ماں خودکشی کر لیتی ہے
تو کہیں والد ۔کہیں ماں کی ممتا بچو ں کو اپنے ساتھ لپیٹ کر دریا میں
چھلانگ لگا لیتی ہے تو کہیں والد ۔کہیں والد رات کی تنہائی میں جب اُس کی
اولاد بھو کوں چلہ کاٹنے کے بعد عمرؓکو دروازے پر آتا نہ دیکھ کر سو جا تے
ہیں تو والد اپنی بیوی سمیت بچو ں کو قتل کرکے خودرسی سے جھول جاتا ہے ۔غرض
یہ قصہ آج کا قصہ نہیں ہے جس معاشرے کی رگو ں میں ظلم ،ناانصافی اور دنیا
کی محبت خون بن کر زندگی کا موجب بنے تو وہاں احساس ختم ہو جاتا ہے ، ان
قباحتوں کے آس پاس جنم لینے والی زندگیاں اُس بے حس معاشرے کے ماتھے پر
کلنک کا ٹیکہ ثبت کرکے ختم ہو جاتی ہیں ۔یہی واقعات وسانحات جب تاریخ پڑھنے
والے سالوں بعداس کو پڑھتے ہیں تو حیران و ششدر رہ جاتے ہیں جیسے آج ہم
زمانہ جاہلیت کے واقعات پڑھ کر حیران ہوجاتے ہیں ۔
مضمون کے شروع میں بیان کی گئی خبر پر کس کو قصو ر وار ٹھہرایا جائے ؟میں
جب اس سوال کا متلاشی ہوتا ہوں تو مجھے تین عنا صر مکمل طور پر ناکام اور
قصور وار نمایاں اور واضح طور پر نظر آتے ہیں نمبر ایک: ریاست اور ریاستی
ادارے ۔نمبر دو: والدین ۔نمبر تین : عزیزواقارب ،جن میں تما م وہ افراد
شامل ہیں جن کا تعلق ان بچوں اور اس خاندان سے برادرانہ بھی تھا ،مذہبی اور
وطنی بھی تھا ۔مگر جب ماضی قریب و بعید کو کھنگالتا ہو ں تو تینوں عنا صر
سے خیر وبھلائی کا عنصر کم بل کہ بہت کم دکھا ئی دیتا ہے یا شاید انھی
اداروں سے مایو س ہو کر خودکشیاں معمول اور قتل وغارت عام ہو تا جارہاہے ۔
موجودہ حالات کے پیش نظرریاست اور ریاستی اداروں کا سب سے بڑا اور ترجیحی
کام بلا تفریق عدل انصاف کا قیام ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ کہیں
عدل ہے تو نہ کہیں انصاف جب کہ بلا تفریق تو دور کی بات ہے ۔ یہاں جو جتنا
بلند و بالا ہے وہ قانون سے بھی اتنا ہی بلند و بالا ہے جس کے نتیجہ میں
بگاڑ شدت اختیار کر گیا ہے ۔ریاست عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے سے
قاصر ہے جس کی وجہ سے ریاستی ادارے کرپشن کا منبع بن چکے ہیں اور یہ کرپشن
ناسور کی طرح معاشرے میں پھیل کر انسانی جانوں کو کھائے جا رہا ہے ۔ ملک
میں غریبوں اور حق داروں کے لیے کیا کوئی ادارہ نہیں کہ جو ان کی مشکلات
میں مدد کر کے انھیں خودکشیوں اور قتل و غارت گری سے روک سکے؟ ہے بل کہ ایک
نہیں بیسیوں ایسے ادارے ہیں مگر وہ بھی کرپشن کی نظر ہیں ۔ریاستی ترجیحات
کا اندازہ لگانا ہوتو ریاستی سکیمیں دیکھ لیں جہاں میٹروبس سروس ، لیپ ٹاپ
سکیم، ییلو کیب اور گرین گاڑیوں کی سکیمیں ہوں تو وہاں فاقوں سے مرنے والے
غریبوں کو کون بچا سکتا ہے ؟
والدین کی طرف سے انتہائی قدم اٹھانے کی ایک وجہ مایوسی بھی ہے ۔صرف مسائل
گننا اور ان کو ہی سوچنا مایوسی کی ایک وجہ ہے مگر ان مسائل کا حل ڈھونڈنا
یا ان مسائل کو حل کرنے میں کوشش کرنا مایوسی کا توڑ بھی ہے مگر دیکھا گیا
ہے کہ مسائل گنے جاتے ہیں مگر حل نہیں نکالا جاتا ہے جس کی وجہ سے مایوسی
اس معاشرے میں سرایت کر چکی ہے۔حالات کی کس مپرسی سے مایوس ہونا ایک ہارے
ہوئے راہی کی مانند ہے اور ہارا ہوا راہی منزل پر پہنچنا تو دور کی بات
منزل کی جانب روانہ بھی نہیں ہو سکتا ہے ۔دوسروں کے حقوق تو بعد کی بات ہے
افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ اپنے آپ پر اپنے حقوق بھی نہیں پتا ہوتے ہیں
جس کی وجہ سے ایسے واقعات سننے کو مل رہے ہیں ۔
تیسرے عنصر کی طرف جب نگاہ دوڑاتا ہوں تو مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آجاتا ہے
کہ ایک بار ایک نہایت غریب بچی کی شادی کے لیے کچھ سامان اور پیسوں کی
ضرورت تھی تو اپنے موبائل کی فون لسٹ میں موجود تقریباً500نمبرز کو ایک اس
غریب بچی کی امدادسے متعلق ایک پیغام بھیجا مگر افسوس کہ ان 500افراد میں
سے صرف 4افراد نے اس غریب بچی کی شادی کے لیے امداد کی ۔میرا ارادہ یہ تھا
کہ ان پانچ سو افراد میں سے ہر فرد سو سو روپے بھی دیتا تو اس غریب بچی کی
شادی کے لیے ایک اچھی خاصی رقم جمع ہو جاتی مگر شاید کہ اس قوم کے لیے
ہزاروں روپے سگریٹ پان سپاری اور ایسی ہی فضول لوازمات کے لیے ہیں مگر ایک
غریب کی امداد کے لیے تھوڑی سی رقم بھی مختص نہیں ۔اسی طرح ہوٹلوں میں
جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس قوم کے پاس کھانے کے لیے بے پناہ پیسے ہیں
جب کہ شادی بیاہ اور دیگر خوشی و غمی کی تقریبات کو پائے تکمیل تک پہنچانے
کے لیے اس قوم کے پاس بے پناہ اور اندھا پیسہ ہے مگر کسی غریب کے لیے پائی
بھی نہیں تو پھر اس معاشرے میں والدین بچوں کو یا قتل کریں گے یا پھر زندہ
اس بے حس معاشرے میں چھوڑ کر خود ہمیشہ کے لیے چلے جائیں گے ۔
یہی سب کچھ ارشاد عرف شادا کے ساتھ بھی ہوا ہو گا اور اب ریاست ، ریاستی
ادارے ، عزیز و اقارب اور دیگر لوگ ارشاد عرف شادا کے اٹھائے گئے اس
انتہائی قدم پر افسوس کرنے کے ساتھ ساتھ ارشاد عرف شاد ا کو کوس بھی رہے
ہوں گے مگر کسی نے بھی اپنا محاسبہ نہیں کیا ہو گا کیوں کہ سب کی نظریں اس
انگلی پر ہیں جو دوسروں کی طرف سمت کیے ہوئے ہیں حالاں کہ ماحول یہ گواہی
دیتا ہے او رحالات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ان انگلیوں کی طرف دیکھنا چاہیے جو
اپنی طرف جھکی ہوئی ہیں جو شاید نادم ہو کر شرمندگی سے شرم سار ہیں ۔
|