میٹرو بس نے معیارِ زندگی بلند کر دیا ہے

حنیف عباسی صاحب نے اسلام آباد راولپنڈی میٹرو بس سروس کے افتتاح کے بعد آئی نائن ایچ نائن ایسٹ سروس روڈ کا افتتاح کرتے ہوئے اور بھی بہت کچھ کہا لیکن ایک بات جو کہی وہ پڑھ کر میرے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ کہتے ہیں کہ میٹرو بس نے عوام کا معیارِ زندگی بلند کر دیا۔کیا کہنے۔ اسی خبر کے ساتھ ہی دو صفحات چھوڑ کر ایک خبر اسی حوالے سے تھی کہ میٹرو کے ملازمین کو تین مہینے سے تنخواہ نہیں ملی اور اگر جلد ہی نہ ملی تو وہ ایک تو ہڑتال کریں گے دوسرا میٹرو بس سروس کو معطل کر دیں گے۔چونکہ میٹرو سروس کو کسی نجی کمپنی کے زیرِ اہتمام دیا گیا ہے تو اس کمپنی نے ابھی تک اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں کچھ بھی ادائیگی نہیں کی ہے۔ملازمین نے یہاں تک کہا ہے کہ حنیف عباسی صاحب نہ تو فون اٹھاتے ہیں اور نہ ہی ان سے ملاقات کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ گھر پر موجود ہونے کے باوجود ان کے ملازمین جھوٹ بول کر کہ گھر پر نہیں ہیں ، ٹرخا دیتے ہیں۔اور پھر حنیف عباسی صاحب کہتے ہیں کہ عوام کا معیارِ زندگی بلند کر دیا ہے۔

شاید معیارِزندگی بلند ہوا ہو کہ مارکیٹ میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں چالیس سے پچاس فیصد اضافہ ہو گیا ہے، جب کہ ابھی بجٹ پر بحث ہو رہی ہے اور تاجروں نے ابھی سے بجٹ کے حوالے سے اپنے پاس پہلے سے موجود اشیاء پر ہر وہ ٹیکس لگا دیا ہے جس کا بجٹ میں اعلان کیا گیا ہے۔ بجٹ میں نامیاتی پانی پر ٹیکس لگا ہے، دکانداروں نے صابن پر جمع کر دیا ہے۔ بجٹ میں موبائل انٹرنیٹ پر ٹیکس لگا ہے دکانداروں نے چینی پر لگا دیا ہے۔ بجٹ میں بجلی پر ٹیکس لگا ہے ، تندور والے نے روٹی کا وزن کم کر دیا ہے۔ ٹماٹر سو روپے کلو، پیاز سو روپے کلو، مرغی کا ریٹ دو سو روپے کلو، سیب کم سے کم ڈیڑھ سو روپے کلو ، کیلا ایک سو اسی سے دوسوتیس روپے درجن ہو گیا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں کی سمری حکومت کے پاس جاتی ہے تو کیا حکومت کے پاس یہ اختیار نہیں کہ قیمتوں میں اضافہ نہ کرے۔ اور اگر نہ اضافہ کرے تو حکومت کو تو پھر بھی کوئی نقصان نہیں۔جو ٹیکس پہلے سے موجود ہیں وہ تو پٹرولیم کمپنیوں نے ادا کرنے ہی ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ اضافہ بے حد ضروری ہے کہ کمپنیوں کو اپنے منافع میں ناجائز اضافہ بھی تو کرنا ہے۔ اور حنیف عباسی صاحب کہتے ہیں کہ میٹرو نے عوام کا معیارِ زندگی بلند کر دیا ہے۔

میں بھی میٹرو میں سفر کرتا ہوں ۔ اور آغاز سے ابھی تک بیٹھ کر سفر کرنا نصیب نہیں ہوا۔ وہ میرا نصیب۔ لیکن ساتھ میں اگر کسی وجہ سے میٹرو کے آمد و رفت کے راستے سے ہٹ کر سفر کرنا ہو تو ٹیکسی لینی پڑتی ہے۔ اور ٹیکسی والوں نے پٹرول کی قیمتوں میں تین سے چار روپے اضافہ کے ساتھ اسی روٹ کا کرایہ پچاس سے سو روپیہ بڑھا دیا ہے۔اور جب ان سے کہا جائے کہ بھائی جان پٹرول کی قیمت تو صرف اتنی بڑھی ہے تو کہتے ہیں کہ چھوٹی بھائی ٹماٹر ، پیاز، سبزی اور پھلوں کی قیمتیں بھی تو بڑھی ہیں۔ اور یہ سن کر ہم اپنے کان دبا لیتے ہیں۔ کہ ان کی بات بالکل بجا ہے۔ آخر کو انھوں نے صرف پٹرول ہی نہیں برابر کرنا ہوتا بلکہ گاڑی کی دیکھ بھال بھی کرنی ہوتی ہے، گھر بھی چلانا ہوتا ہے، بچوں کی سکول فیس بھی ادا کرنی ہوتی ہے۔ واقعی عباسی صاحب، عوام کا معیارِ زندگی بلند ہو گیا ہے کہ وہ یہ سارے خرچے اس مہنگائی کے باوجود پورے کر سکتا ہے۔

اگر میٹرو بس کی بجائے اسی مری روڈ کو کشادہ کرکے اس پر تین سو کے لگ بھگ بڑی بسیں چلادی جاتیں تو چھپن ارب روپے کی بجائے شاید چھ ارب روپے کا ہی خرچہ آتا۔ وہ بسیں حکومت کے زیرِ نگرانی چلتیں تو پرائیویٹ گاڑیوں کے مالکان کی جرأت نہ ہوتی کہ اس طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ لیتے۔ اور جو باقی پچاس ارب روپے بچ جاتے اس سے جو پاکستان میں ہزار پندرہ سو کارخانے بند پڑے ہیں ان کو اس رقم میں سے ایک ایک دو دو کروڑ روپے عنایت کردیتے کہ وہ اپنا کارخانہ دوبارہ چلانے کے قابل ہوتے۔ پھر بھی کوئی پانچ دس ارب روپے کی رقم بچ جاتی تو کچھ سو دو سو نئے کارخانے شروع کر دیے جاتے۔ اس سے کیا ہوتا کہ شاید کچھ بھی نہیں تو تیس چالیس ہزار افراد کو روزگار مل جاتا اور تیس چالیس ہزار افراد کو روزگار ملنے کا مطلب اتنے خاندانوں کی کفالت یعنی اڑھائی تین لاکھ افراد کے لیے روٹی روزی کا بندو بست۔ میٹرو سے کیا ہوا ہو گا ، دو تین ہزار افراد ( یہ میں زیادہ سے زیادہ تعداد بتا رہا ہوں) کو روزگار ملا ہو گا، جن کو ابھی تک بقول اخبار کے تنخواہیں ہی نہیں دی گئیں۔

اسلام آباد میں ابھی میٹرو زوروں پر ہے، ابھی تک منچلے اس پر سوار ہو کراس کی سیر کرتے ہیں۔ بزرگوں اور معمر افراد کے لیے جو سیٹیں رکھی گئی ہیں ان پر جوان اور نوجوان تشریف فرما ہوتے ہیں۔ سیٹیں بھی اتنی بڑی بس میں مشکل سے تیس پینتیس کے قریب ہیں۔ اس وجہ سے ایک وقت میں پچاس سے زیادہ افراد کھڑے ہو کر سفر کرتے ہیں جس میں پچاس فیصد بزرگ ہوتے ہیں ۔ خواتین کوبھی کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑ رہا ہے۔ عباسی صاحب، کیا یہی معیارِ زندگی ہوتا ہے جو بلند ہوتا ہے۔ لاہور میں میٹرو بس کے سٹیشنز کے آس پاس جو سیڑھیاں بنائی گئی ہیں وہ شاید قدرے کمزور ہو چکی ہیں۔ کیونکہ پچھلے دنوں کی ایک خبر کے مطابق سیٹرھیاں اترتے ہوئے جب ایک برزگ نے سہارے ساتھ ریلنگ کا سہارا لیا تو ریلنگ کے کمزور ہونے کی وجہ سے وہ جڑسے اکھڑ گئی اور بزرگ اپنے آپ کو نہ سنبھال سکے ۔ سیڑھیوں سے لڑھکتے ہوئے نیچے جا گرے۔ آخری خبریں آنے تک وہ شدید زخمی تھے۔ راولپنڈی اسلام آباد کی سیڑھیوں کا اور انکی ریلنگ کابھی یہی حال ہونا ہے۔

پنجاب کے تعلیمی بجٹ کے لیے آٹھ سو ارب روپے سے زیادہ کی رقم رکھی گئی ہے۔ایک کارٹون میں یہ کہا گیا ہے کہ پچھلے سات سالوں میں ایک بھی نیا سکول نہیں تعمیر کیا گیا۔ البتہ دانش سکولوں کی بات میں نہیں کرتا۔لیکن اس کارٹون میں یہ بھی تھا کہ اگر ان سکولوں میں تعلیم کی بجائے سریا سیمنٹ استعمال ہوتا تو یقینا ہزار پندرہ سو سکول بن چکے ہوتے ۔ چاہے استاد، شاگرد ہوتے یہ نہ ہوتے۔ اس کے باوجود بھی راولپنڈی اسلام آباد میں ایک اور میٹرو پراجیکٹ شروع کرنے کا پروگرام ہے، کراچی میں گرین بسیں، انٹر سٹی ریل ٹریک شرور کرنا ہے، جو کہ ۲۰۱۷ تک مکمل ہو جائے گا۔ ٹھیک ہے کہ عوام کو سفر کی سہولت تو ملے گی، لیکن ان کی غربت، ان کے لیے بڑھتی ہوئی مہنگائی، ان کے لیے ہسپتالوں کا علاج اور غیر موجود دوائی کی حالت اسی طرح رہے گی۔ کہاں کا معیارِ زندگی؟

میٹرو شروع کرنے کی بجائے ٹرانسپورٹ کا نظام اگر درست کر دیا جاتا، اس پر باقاعدہ اچھے طریقے چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پہلے سے موجود ٹرانسپورٹ سے ہی عوام کو فائدہ نہ ہو۔ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟؟؟
Ibn e Niaz
About the Author: Ibn e Niaz Read More Articles by Ibn e Niaz: 79 Articles with 71171 views I am a working, and hardworking person. I love reading books. There is only specialty in it that I would prefer Islamic books, if found many types at .. View More