تحریک استشراق اور قرآن پر کام کرنے والے مشہور مستشرقین

٭ سدرہ افضال صابری ٭٭ ڈاکٹر محمد عمران
تاریخ کے اوراق اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ مسلم امہ کے سکالرز اور فضلاء نے ہر زمانے میں سیرت سرورکائنات پر تفسیر حدیث اور دیگر علوم پر لکھ کر سعادت دارین کا سزاوار بننے کی سعی کی ہے۔ہر دور میں عصری راہنمائی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے ملت اسلامیہ کے علماء ہر پہلو پر قلم اٹھاتے رہے ہیں۔
مستشرقین کی تحریروں کے تعارف وجائزہ سے قبل استشراق کے متعلق جاننا ضروری ہے تا کہ مستشرقین کی ذہنیت مقاصد اور تحریروں کے پس منظر کا ادراک ہو سکے۔
اشتراق کی لغوی تحقیق:۔
" استشراق" عربی زبان کا لفظ ہے اس کا سہ حرفی مادہ " شرق" اور " چمک" ہے اس لفظ کو مجازی معنوں میں سورج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اسی طرح شرق اور مشرق،سورج طلوع ہونے کی جگہ کو بھی کہتے ہیں۔
ابن منظور لکھتے ہیں۔
اشرق،الضوء والشرق الشمس
وروی عمروعن ابیہ انہ قال الشرق الشمس بفتح الشین والشرق الضوء الذی یدخل من شق الباب
شرقت الشمس تشرق شروقاوشرقاطلعت واسم الموضع المشرق(۱)
لفظ شرق کو جب استفعال باب کے وزن پر لایا جائے تو الف، س ،تا کے اضافے سے استشرق بن جاتا ہے۔اسی طرح اس کے اندر طلب کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے گویا" استشراق" سے مراد مشرق" آداب" لغات اور ادیان تک محدود ہے ۔یہ ایک نیا لفظ ہے جو قدیم لغات میں موجود نہیں ہے۔انگریزی زبان میں " شرق" کیلئے(Orient) اور استشراق کے لیے (Orientalists) کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔
استشراق کا مفہوم:۔
ایڈورڈ سوید اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔
شرق شناسی(استشراق) ایک سیاسی موضوع ہی نہیں یا صرف ایک شعبہ علم ہی نہیں جس کا اظہار تمدن،علم یا اداروں کی صورت ہوتا ہے نہ یہ وسیع وعریض مشرق کے بارے میں کثیر تعداد میں منتشر تحریروں پر مشتمل ہے ۔اور نہ یہ کسی ایسی فاسد مغربی سازش کی نمائندگی یا اس کا اظہار ہے جس کا مقصد مشرقی زمین کو زیر تسلط رکھنا ہو ۔بلکہ یہ ایک مغربی شعور ہے اور معلومات اور علم کا جمالیاتی اور عالمانہ،معاشی،عمرانی،تاریخی اور لسانیات کے متعلق اصل تحریروں میں ایک طرح کا پھیلاؤہے(۲)
اصطلاحی تعریف:۔
استشراق کے معنی مشرقی علوم میں مہارت حاصل کرنا اورمستشرق کے معنی مشرقی علوم کا ماہر اور مشرقی آداب سے آگاہ ہونا ہے(۳) وہ شخص جو مشرقی زبانوں،علوم وفنون ،آداب وثقافت اور تہذیب وتمدن وغیرہ پر عبور رکھتا ہے اور بقول مولوی عبد الحق کے ماہر مشرقیات ہو(۴) عمر فروخ کے مطابق مشرق: علوم اسلامیہ کا وہ مغربی(یورپین یا امریکی) سکالر ہوتا ہے جو غیر مسلم ہو(۵)
عربی زبان کی لغت" المنجد "کے مطابق:۔
"العلم باللغات والادب والعلوم الشرقیۃ والاسم الا ستشراق" (۶)
" مشرقی زبانوں،آداب اور علوم کے عالم کو مستشرق کہا جاتا ہے اور اس علم کا نام استشراق ہے"
ان تمام تعریفوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرقی علوم اور ثقافت اور ادب کا مطالعہ استشراق کہلاتا ہے۔لیکن اگر اس مفہوم کو مان لیاجائے تو چند سوال پیدا ہوتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت اسلام کے علاوہ دو بڑے مذاہب یہودیت اور عیسائیت ہیں ۔ان دونوں مذاہب کے انبیاء اور ان کے ابتدائی پیروکاروں کا تعلق مشرق سے ہے۔تورات وانجیل میں بیان کئے گئے تمام حالات وواقعات اور مقامات کا تعلق بھی مشرق سے ہے۔لیکن اس کے باوجود بائبل یا عیسائیت ویہودیت کے عالمانہ مطالعے کو کوئی بھی استشراق کے نام سے موسوم نہیں کرتا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ استشراق کی اس تحریک کے مقاصد سراسر منفی ہیں۔مستشرقین اپنے ان مقاصد کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کا بنیادی مقصد اسلام اور اس کی تعلیمات کا صرف تحقیقی مطالعہ نہیں۔بلکہ ان کا بنیادی مقصد اسلام اور اس کی تعلیمات سے دھندلانا،مسلمانوں کا گمراہ کرنا اور غیر مسلم لوگوں کے سامنے اسلام کا منفی تصور پیش کر کے انہیں اسلام قبول کرنے سے روکنا ہے۔ لفظ استشراق کی کوئی قدیم تاریخ نہیں ہے۔یہ ایک نیا لفظ ہے جو پرانی لغات میں موجود نہیں ہے(۷)
تحریک استشراق کا پس منظر:۔
اگرچے لفظ استشراق نومولود ہے لیکن تحریک استشراق کا آغاز بہت پہلے ہو چکاتھا۔اہل مغرب کی اسلام دشمنی کی تاریخ کا آغاز حضرت محمدﷺ پر غار حرا میں پہلی وحی کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔اہل مغرب سے یہاں ہماری مراد اہل کتاب یہودونصاریٰ ہیں جو مشرکین بنی اسماعیل کے بعد اسلام کے دوسرے مخاطب تھے۔یہودونصاریٰ کی کتب اور صحائف میں آخری زمانے میں آنے والے ایک نبی کا ذکر بڑی صراحت اور واضع نشانیوں کے ساتھ موجود تھا۔
عہد نامہ قدیم میں ہے:۔
میں ان کے لیے ان کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپاکروں گا۔اور میں ایسا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔اور وہ انہیں وہ سب کچھ بتائے گا جس کا میں اسے حکم دوں گا۔اگر کوئی شخص میرا کلام جسے وہ میرے نام سے کہے گا۔نہ سنے گا تو میں خود اس سے حساب لوں گا(۸)
عیسائی علماء اس آیت کا مصداق حضرت عیسیٰ کو قرار دیتے ہیں ۔لیکن حضرت عیسیٰ کسی طرح بھی حضرت موسیٰ کی مانند نہیں تھے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی تخلیق،حیات مبارکہ اور وفات کے لحاظ سے حضرت موسیٰ سے مکمل طور پر مختلف تھے۔صرف حضرت محمد ﷺ ہی پیدائش،شادی ،اولاد، وفات اور شریعت ہر طرح سے ان کے مماثل تھے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے:۔
واذقال عیسیٰ ابن مریم یبنی اسرائیل انی رسول اﷲ الیکم مصدقا لمابین یذی من اتوراۃ ومبشرالرسول یأتی من بعد اسمہ احمد فلما جاء ھم بالبینت قالوا ھذا سحر مبین(۹)
" اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا اے بنی اسرائیل میں تم سب کی طرف اﷲ کا رسول ہوں ۔اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی تمہیں خوشخبری سنانے والے جن کا نام احمد ہے۔پھر جب وہ ان کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے یہ تو کھلا جادو ہے"
اسی طرح انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب الفاظ اس طرح ہیں
اور میں باپ سے درخواست کروں گا۔ وہ تمہیں ایک اور مددگار بخشے گا۔تا کہ وہ ہمیشہ تک تمارے ساتھ رہے۔
اسی طرح انجیل یوحنا کے اگلے باب میں لکھا ہے۔
جب وہ مدد گار یعنی روح حق آئے گا جسے میں باپ کی طرف سے بھیجوں گا تو وہ میرے بارے میں گواہی دے گا(۱۰)
انجیل کے یونانی نسخوں میں" مددگار" کے لیے لفظ"Paracletos" استعمال ہوا ہے۔جبکہ انگریزی نسخوں میں Paracletos کا ترجمہ "comfortor" مددگار دیا گیا ہے ۔جبکہ Paracletor کا صحیح ترین ترجمہA kind fried بجائے" یا رحمۃ اللعالمین" ہو سکتا ہے لیکن اگر ہم قرآن کی روشنی میں دیکھیں تو یہ لفظ اصل میں Paracletosکے بجائے Pericleytorہے جس کا ترجمہ عربی زبان میں احمد یا محمد اور انگریزی میں The praised oneہے قوم یہود کو نبی کریم سے انتہائی درجے کا حسد تھا۔ وہ اپنی کتابوں اور انبیاء بنی اسرائیل کی پیش گوئیوں کی روشنی میں آنے والے نبی کے انتظار میں تھے۔ان کو اس حد تک نبی کی آمد اور آمد کے مقام کا اندازہ تھا کہ انہوں نے مدینہ کو اپنا مرکز بنا لیا تھا۔اور عربوں کو اکثر یہ بات جتاتے تھے کہ ہمارا نبی آنے والا ہے اور ہم اس کے ساتھ ملکر عر ب پر غلبہ حاصل کریں گے۔
قرآن مجید نے اس بات کو اس طرح سے بیان کیا ہیـ:۔
وکانوا من قبل یستفتعون علی الذین کفروافلما جآء ھم ماعرفواکفروابہ(۱۱)
اور پہلے ہمیشہ کافروں پر فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔تو وہ چیز جسے یہ خوب پہنچانتے تھے۔جب ان کے پاس آپہنچی تو انہوں نے اس کا انکار کر دیا۔
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنی کتابوں میں بیان کردہ نشانیوں کے لحاظ سے حضرت محمد کو پورے یقین کے ساتھ بطور نبی جاتے اور پہچانتے تھے
ارشاد ہے
الذین اتینھم الکتاب یعرفونۃ کما یعرفون ابنا ئھم وان قریقا منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون(۱۲)
" جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ان کو یعنی حضرت محمد ﷺ کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں مگر ان میں سے ایک فریق سچی بات کو جانتے بوجھتے چھپاتا رہتا ہیـ"
بنی اسرائیل اپنے آپ کو اﷲ کی پسندیدہ قوم سمجھتے اور اس خوشگمانیوں کے برعکس اﷲ نے اپنے آخری نبی کو بنی اسماعیل میں مبعوث کر دیا تو یہود نے فرشتہ جبرائیل کو اپنا دشمن قرار دے دیا کہ انہوں نے دانستہ وحی بجائے یہود پر اتارنے کے بنی اسماعیل کے ایک فرد محمد ﷺ پر نازل کر دی ہے چناچہ اس حسد اور جلن کی وجہ سے انہوں نے آپﷺ کا انکار کر دیا۔
قرآن مجید نے ان کی اس حرکت پر اس طرح بیان فرمایا ہے
قل من کان عدو الجبریل فانہ نزلہ علی قلبک باذن اﷲ مصدقا لمابین یدیہ وھدی وبشریٰ للمومنین(۱۳)
کہہ دو کہ جو شخص جبرائیل کا دشمن ہے تو اس نے یہ کتاب اﷲ کے حکم سے تمہارے دل پر نازل کی ہے جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ایمان لانے والے کے لیے ہدایت وبشارت ہے۔
اس حسد اور جلن نے یہود اور عیسائیوں دونوں کو مسلمانوں کا دشمن بنا دیا۔انہوں نے آنے والے نبی کے بارے میں اپنی کتابوں میں موجود پیش گوئیوں کو اپنی دانست میں گویا ہمیشہ کے لیے مٹادیا۔لیکن اس تحریف کے باوجود اﷲ نے بہت ساری نشانیاں ان کی کتابوں میں باقی رہنے دیں۔اور قرآن مجید میں دوٹوک انداز میں ان کی تحریف کا پول بھی کھول دیا
چنانچہ اس پس منظر کے باعث مغربی مفکرین بالعموم اسلا م کے بارے میں منفی انداز فکر سے کام لیتے ہیں۔اسلام کے تمام تعمیری کاموں کو نظر انداز کر کے صرف انہی پہلوؤں پر زور دیتے ہیں جن کے ذریعے سے وہ لوگوں میں اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا سکیں۔جب ہم استشراق اور مستشرقین کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں تو لفظ استشراق میں تکلف کا جو مفہوم پایا جاتا ہے اس کی وضاحت زیادہ آسانی سے ہو جاتی ہے۔چنانچہ ہم اس کی تعریف اس طرح سے کریں گے کہ مغربی علماء مفکرین جب اسے مخصوص منفی مقاصد کے لیے اسلامی علوم وفنون کا مطالعہ کرتے ہیں۔اور اس سلسلے میں اپنی تمام تر توانیاں صرف کر دیتے ہیں ۔تو اس عمل کو استشراق کہا جاتا ہے ہم یہ بات بلا خوف وتردید کہہ سکتے ہیں کہ استشراق صرف مشرقی لوگوں کی عادات رسم ورواج زبانوں اور علوم کے مطالعے کا نام نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو یہودیت عیسائیت او ر دیگر تمام مشرقی مطالعات کو بھی استشراقـ کے ذیل میں رکھا جاتا۔بلکہ یہ اسلام اور اس کی تعلیمات کے خلاف ایک پوری تحریک ہے۔جس کا آغاز اسلام کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔مشرق اہل مغرب کے لیے ہمیشہ پر اسراردنیا کی حیثیت اختیار کیئے رہا ہے۔اس کے بارے میں جاننے اور کھوجنے کی کوشش ہمیشہ سے کی جاتی رہے ہے اہل مغرب کے سامنے مشرف کی پرکشش تصویر مغربی سیاح پیش کرتے تھے اوراپنے اور اپنے تجارتی اور سیاحتی سفیروں کی کہانیاں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے۔مشرق کے بارے میں ان کے علم کا بڑا ذریعہ مختلف سیاح تھے۔مثلاً اطالوی سیاح مارکو پولو(Marco polo) (1254-1324) لوؤوویکوڈی وارتھیما(1470-1517) (Ludovico di varthema) وغیرہ ان کے بارے میں بھی کبھی مشرق ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔
اگرچے بعض مغربی مفکرین خلوص نیت سے اسلام کی تفہیم کے لیے مشرقیت اختیار کرتے ہیں۔اور اس سلسلے میں مفید تحقیق بھی کرتے ہیں لیکن فی الحال ہمارے پیش نظر وہ مغربی مفکرین ہیں جو اسلام کی مخالفت اور اسے بد نام کرنے کے لیے اسلامی تعلیما ت کا مطالعہ کرتے ہیں(۱۴)
تحریک استشراق کا آغاز:۔
اس تحریک کا آغاز اسلام کے ساتھ ہی ہو گیا تھا عیسائیوں اور یہودیوں نے اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے ہر حربہ آزمایہ لیکن ناکام رہے نبی پاکﷺ کے ساتھ کئے گئے معاہدات کی خلاف ورزی کے نتیجے میں یہودیوں کو مدینے سے نکال دیا گیا اور ان کی نسلی اور علمی برتری کا نشہ ٹوٹ گیا۔حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت حکومت کے اختتام تک ان لوگوں کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی۔اور نہ ہی اسلام کے شاندار اور تابندہ نظریات کے سامنے کوئی اور فکر یا نظریہ اپنا وجود برقرا ر رکھ سکا۔بلکہ یہودونصاریٰ کے مذہبی روحانی مرکز بیت المقدس پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ۔ظہوراسلام کے ایک سو سال مکمل ہونے سے پہلے ہی اسلام اپنے آپ کو دنیا میں ایک روشن خیال،دوست،شخصی آزادیوں کے ضامن ،عدل وانصاف رواداری جیسے خوبیوں سے متصف دین کے طور پر منور چکا تھا یہ یہ کامیابی یہودونصاریٰ کو ہر گز گوارہ نہ تھی۔اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہودونصاریٰ کی ریشہ دانیوں کا آغاز حیاۃ نبوی ہی میں ہو چکا تھا۔لیکن ان کارروائیوں کا عملاً کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوا۔مدینہ میں عیسائی راہب ابو عامر نے منافقین کے ساتھ ملکر مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے مسجد ضرار تعمیر کرائی اور ساتھ ہی رومی سلطنت سے مسلمانوں کے خلاف مدد چاہی لیکن اسے کا میابی نہ ہوئی۔عہد خلافت راشدہ میں نبی کریمﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام کثیر تعداد میں موجود تھے۔مسلمان دینی اور علمی لحاظ سے یہودونصاریٰ سے کہیں آگے تھے لہٰذا دین کے دشمنوں کی زیادہ ترسرگرمیاں جنگ وجدل تک ہی محدود رہیں۔لیکن اس مجاز پر بھی مسلمانوں کی برتری کامیاب رہی اور اسلامی ریاست کی حدود پھیلتی گئیں۔یہاں تک کہ ان کے مذہبی مقامات بیت المقدس وغیرہ بھی مسلمانوں کے قبضے میں آگئے۔خلافت راشدہ کے آخری دور میں صحابہ کرام کی تعداد کم ہو چکی تھی۔اور نئے غیر تربیت یافتہ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے تھے۔ جو ابھی تک اپنے سابقہ رسوم کو نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ عبد اﷲ بن سا اور اس طرح کے لوگوں نے مسلمانوں میں غلط عقائد کو رواج دینا شروع کیا مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو بھڑکایا۔اور غلط سلط احادیث اور قصے کہانیوں کو رواج دینا شروع کیا۔پہلا آدمی جس نے باقاعدہ طور پر اسلام کے خلاف تحریری جنگ شروع کی وہ جا ن آف دمشق (یوحنا دمشقی749 December 676-4) تھا اس نے اسلام کے خلاف دوکتب لکھیں۔اور وہ یہ ہیں) محاورہ مع المسلم۔اور ارشادات النصاری فی۔۔۔۔۔ جد المسلمین)(۱۵) کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس تحریک کا آغاز ۱۲،۱۳ میں ہوا جبکہ فنا میں گلیسا کی کانفرنسیں ہوئی۔جس میں یہ طے کیا گیا کہ یورپ کے جامعات میں عربی،عبرانی،اور سریانی زبان کی تدریس کے لیے پیرس اور یورپ کی طرز چیئر قائم کی جائیں(۱۶)
بعض اہل علم کے نزدیک یہ تحریک دسویں صدی میں شروع ہوئی جب فرانسیسی پادری جربرٹ ڈی اور یلیک(1003-942 )(Gerbert d aurillae) حصول علم کے لیے اندلس گیا اور وہاں کی جامعات سے فارغ ہو کر 999ء سے1003 تک یورپ سلوسیئر ثانی(silvester 11) کے نام سے پاپائے روم کے منصب پر فائز رہا اسی طرح بعض نے اس کا آغاز1269ء میں قرار دیا جب متشالیہ (castile) کے شاہ الفانسوددھم (Alfonso x)(1284-1221) نے 1269 ء میں مرسیا(Murcia) میں اعلیٰ تعلیم کا ایک ادارہ قائم کیا اور مسلم،عیسائی اور یہودی علماء کو تصنیف وتالیف اور ترجمے کا کام سونپا:۔
اسی طرح بعض کے نزدیک اس تحریک کا بانی پطرس محترم (Peter the venerable) 1092 (1156) تھا جو کلوئی(Cluny,France) کا رہنے والا تھا،اس نے اسلامی علوم کے تراجم کے لیے مختلف علماء پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جس میں مشہور انگریزی عالم رابرٹ آف کیئن (Robert of ketton) (1110-1160) بھی تھا۔اس نے قرآن مجید کا پہلا لاطینی ترجمہ کیا۔جس کا مقدمہ پطرس نے کیا تھا۔اہل مغرب نے اس بات کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا کہ مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے انہیں علمی میدان میں مسلمانوں کو شکست دینی ہو گی۔اس کے لیے انہوں نے مختلف طریقے اختیار کیے1539ء میں فرانس کے شاہ لوئی چہارم دہم(France Louis xiv of) (1638-1715) تمام اسلامی ممالک سے اپنے کارندوں کے ذریعے سے مخطوطات اکھٹے کروائے۔اور اس سلسلے میں تمام ممالک میں موجود سفارتخانوں کو ہدایت کی کہ اپنے تمام افرادی اور مالی وسائل استعمال کریں(۱۷)
اسباب ومحرکات:۔
تحریک استشراق کا علمی اور تاریخی جائزہ لینے سے درج ذیل اسباب ومحرکات سامنے آتے ہیں۔
(۱)مستشرقین کے مخاصمانہ اور معاندانہ رویے کی ایک وجہ مذاہب کا نظریاتی وفکری اختلاف ہے۔ اسلام توحید کا علمبردار ہے جبکہ دوسرے مذاہب میں شرک کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔
(۲) فکری و نظریاتی سبب کے علاوہ دوسری وجہ تاریخی ہے اسلام مختصر مدت میں تیزی اور سرعت کے ساتھ عرب کی زمین سے نکل کر دور دراز حصوں تک پھیل گیا۔
(۳) صلیبی جنگیں تحریک استشراق کا ایک ایسا سبب ہیں جس سے انکار ممکن نہیں
(۴)تحریک استشراق کا ایک سبب مسلمانوں کا اخلاقی زوال اور مسلم سلطنتوں کا سقوط والنحطاط ہے
(۵) مغرب کی علمی بیداری کو بھی تحریک استشراق کا سبب قرار دیا جا سکتا ہے
(۶) تجارتی مفادات بھی تحریک استشراق کا ایک سبب ہیں (۱۸)
اہم مستشرقین اور ان کے عقائد:۔
اہم مستشرقین کے عقائد:۔
نمبر۱ تھیوڈر نولڈ یکے(Theodor Noldeke) (۱۸۳۶ء۔۱۹۳۹ء)
جرمن مستشرق نولڈیکے نے تاریخ القرآن کے نام سے کتاب لکھی جس میں قرآن کریم کی تاریخی حیثیت کو متعین کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے متعدد مباحث کو موضوع بنایا گیا ہے۔نولڈیکے طبقہ مستشرقین میں ایک پیش رو کی حیثیت رکھتا ہے جس سے بعد کے مستشرق نے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔بلا شیر نے اپنے تحقیقی اسلوب میں اسی سے راہنمائی حاصل کی ہے۔نولڈیکے نے اپنی کتاب میں قرآنی متن کے حوالے سے سورتوں کی تربیت اور نسبتا عمیق اور منفرد مباحث کو موضوع بنانے کی کوشش کی ہے ابو عبد اﷲ زنجانی(۱۳۶۰ھ) نے تاریخ قرآن پر مستشرقین کی اہم تالیفات میں سے اس کتاب کو مختلف پہلوؤں کی وجہ سے اہم قرار دیا ہےّ۱۹)
قرآنی سورتوں کی ترتیب کا ذکر کرتے ہوئے نولڈیکے نے الفاتحہ یہ مکی سورتوں میں شمار کیاہے نہ مدنی سورتوں میں شائد اس نے توقف اختیار کیا یا پھر کوئی اور وجہ ہو سکتی ہے۔سورتوں کی ترتیب نزولی کا اعتبار کرتے ہوئے اس نے ابتداء سورۃ العلق سے کی ہے پھر سورۃ القلم اور پھر تاریخی لحاظ سے باقی سورتوں کی ترتیب قائم کی ہے۔نولڈیکے نے کتابت کو مختلف قرات قرآنیہ کے وجود میں آنے کا سبب قرار دیا ہے۔اسی نظریے کی توثیق کا رل برل کلمان نے کی ہے اور یہ نظریہ زور وشور سے بیان کیا جانے لگا کہ مختلف قرآت کا دروازہ در اصل کتابت سے کھلا ہے اسی بنیاد پر قراء ،قرأت کی تصیح میں منہمک نظر آتے ہیں اس طرح بظاہر نولڈیکے وہ اولین مستشرق ہے جس نے قرآن کریم پر متن کے حوالے سے اعتراضات کا باقاعدہ اور رسمی طور پرآغاز کیا(۲۰)
نمبر۲ ریحس بلا شیر(Blachere)(۱۹۰۰ء۔۱۹۷۳ء)
بلاشیر ایک فرانسیسی مستشرق ہے جو 1900ء میں پیدا ہوا۔رباط(مراکش) میں تعلیم حاصل کیاور 1939 ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔بعد ازاں جامعہ سوربون میں پروفیسر متعین ہوا۔بعض مآخذ کے مطابق بلا شیر فرانسیسی وزارت خارجہ میں بھی خدمات سر انجام دیتا رہا نجیب عقیقی نے اس کی تالیفات کا ذکر کرتے ہوئے پانچ اہم کتابوں کے نام ذکر کئے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں
۱۔ المتنبی:حیاۃ وآثار
۲۔ مقتبات عن شھر البحغر المینین العرب فی العصر الوسیط
۳۔ قواعد نشرو ترجمۃ النصوص العربیۃ
۴۔ فرانسیسی زبان میں ترجمہ قرآن جو 1947 ء سے 1952ء کے دوران تین جلدوں پر پیرس سے شائع ہوا۔
۵۔ معضلۃ محمد:۔ یہ کتاب1953 ء میں منظر عام پر آئی(۲۱)
ڈاکٹر التہامی نقرہ کے بقول بلا شیر نے قرآن کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اس نے نص قرآنی کے حفاظت کے متعلق دلائل سے قطع نظریہ دعویٰ اختیار کیا کہ قرآن محمد کے زمانے میں نہیں لکھا گیا تھا۔اس کے نزدیک نزول وحی کے وقت رسول اﷲ ﷺ پر شدت خوف کی حالت طاری ہو جاتی تھی۔اس لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وحی لکھوا لیا کرے اس کے علاوہ مسلمانوں اور مدینہ کے یہودیوں کے مابین،جو تحریروں کتابت کے تمام وسائل پر قلبض تھے۔شدید کشمکش تھی ان مقدمات سے بلاشیر یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ دور نبوت میں ٓن کی مکمل تدوین نہیں ہو سکی اور محظ حافظے کے بل بوتے پر قرآن کو کلی طور پر محفوظ کرنا ممکن نہ تھا۔وہ اس خدشے کا بھی اظہار کرتا ہے کہ ممکن ہے کہ قرآنی متن کے ساتھ وہ معمولی اضافہ جات بھی خلط ملط ہو گئے ہوں جنہیں بعد کے ادوار میں قرآن ہی کا حصہ سمجھ لیا گیا(۲۲)
نمبر۳ گولڈزیہر(Gold Zhir)(۱۸۵۰ء۔۱۹۲۱ء)
گولڈزیہر ایک یہودی مستشرق ہے ۔جو حدیث پر اعتراضات کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔اس کی پیدائش 1850ء میں ہوئی اور وفات 1921ء میں ہوئی(۲۳) اس نے مشہور زمانہ کتاب مذاہب التفسیرلاسلامی(۲۴) کے پہلے باب کے ابتدائیہ میں قرآت قرآنیہ کے ضمن میں سبعہ احرف کی روایات کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے(۲۵)
۱۔اس کے اہم ترین اعتراضات تین ہیں
قرآنی متن دیگر تمام کتب سماویہ کے برعکس زیادہ اضطراب،تحریف اور عدم ثبات کا شکار ہوا(۲۶)
۲۔ قرآت کا اختلاف مصحف عثمانی کے رسم الخط کے نقطوں اور اعراب سے خالی ہونے کے سبب وجود میں آیااور یہ تمام قرأت انسانی اختراع ہیں (۲۷)
۳ صحابہ کے مصاحف میں باہم کمی بیشی کا فرق موجود تھا۔مثلا حضرت عبد اﷲ ابن مسعود کے مصحف میں فاتحہ اور معوذ تین نہ تھیں۔جبکہ ابی بن کعب کے مصحف میں سورۃ الخلع اور سورۃ الحفد کی اضافی سورتیں شامل ہیں(۲۸)
نمبر۴:۔ گستاف لیبان (Gustave Lebon) (۱۸۴۱ء۔۱۹۳۱ء)
یہ ایک فرانسیسی مستشرق ہے جس نے گولڈز یہرے سے بھی پہلے1884ء میں ایک کتاب(حضارۃ العرب) شائع کی اس کتاب کے دوسرے باب کی دوسری فصل کو قرآن کریم کی تحقیق کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔اس فصل میں قرآن کی جمع وتدوین اور نظم قرآن کے قرآن کے متعلق خصوصیت سے تفصیلی بحث کی گئی ہے اس نے قرآن کو توراۃ وانجیل کے قریب لانے کی بھر پور کوشش کی ہے اور ساتھ ہی قرآنی مضامین کا ہندوستان کی مذہبی کتب سے بھی موازنہ کرتا ہے وہ قرآن کے متعلق مسلمانوں کے تصورات ونظریات کو غلط قرار دینے کے ضمن میں عیسائیوں اور یہودیوں کی مسامحت، دنیا میں سرعت کے ساتھ پھیلنے والی قرآنی تعلیمات اور امت مسلمہ میں قرآن کے ذریعے اتحاد جیسے حقائق کو بڑی تنگ نظری سے پیش کرتا ہے(۲۹)
نمبر۵:۔ منٹگمری واٹ(۱۹۰۹ء۔۲۰۰۶ء)
متن قرآنی کو محمد کے اختراع قرار دینے والوں میں منٹگمری واٹ مستشرقین کے ہاں سب سے زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔اس کے اعتراضات میں بھی دیگر مستشرقین کی طرح اسلام اور قرآن سے تعصب اور عناد کی بوموجود ہے ۔وہ افسانوی طرز استدلال کے ذریعے سے ایک مصنوعی ماحول تخلیق کرتا ہے۔اور اس نے نقلی دلائل وشواہد کے مقابلے میں عقلی امکانات سے استدلال کا طریقہ اختیار کیا ہے اس سلسلے میں وہ قرآن وسنت جیسے عظیم اور محکم مصادر کی تنقیص صرف امکانات کے ذریعے سے کرتا ہے مثلا وہ وحی کا انکار کرتے ہوئے اس امکان کا اظہار کرتا ہے شائد جو خیالات انسان کو خارج سے آتے دکھائی دیتے ہیں وہ درحقیقت اس کے اپنے ہی لا شعوری کی پیدا وار ہوتے ہیں (۳۰) وہ اس امکان کا بھی اظہار کرتا ہے کہ محمدﷺ پر بر س یا برس کے ماحولیاتی عوامل کے اعتبار سے ان کے جذبات کی دنیا اس قدر منفعل ہو گئی ہو کہ وہی جذبات ابھر کر وحی کی صورت میں ظاہر ہو گئے ہیں (۳۱) منٹگمری نے عبد اﷲ بن مسعود کے مصحف میں معوذتین نہ ہونے کے مسئلے کو بہت اچھالا ہے اس کے نزدیک ابن مسعود ان سورتوں کو قرآن کا جز نہیں مانتے تھے۔(۳۲)
نمبر۶:۔ ڈی ایسن مارگو لیتھ (D.S Morgoliuth) (۱۸۵۸ء۔۱۹۴۰ء)
ڈی ایس مارگولیتھ ایک ایسا مستشرق ہے جو نصوص قرآنیہ اور ذخیرہ احادیث میں سے خصوصیت سے ان نصوص واحادیث کو اپنا مشدل بناتا ہے۔جن میں سے بظاہر قرآن مجید کی حفاظت میں تشکیک پیدا کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے۔مثلاً منند احمد کی ایک روایت ذکر کرتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے کچھ آیات گم ہو گئی تھیں(۳۳)مسند احمد میں یہ روایت اس طرح مذکور ہے۔
عن عائشہ زوج النبی ﷺ قالت، لقد انزلت آیت الرجم ور ضعات الکبیر عشر افکارت فی ورقۃ تحت سریر فی بیتی فلما اشتکی رسول اﷲ ﷺ تشا غلنا بامرہ ودخلت دویبۃ لنا فاکلتھا
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رجم کی آیت اور بالغ کے لیے دس رضعات کی آیات نازل ہوتی تھیں یہ آیات میرے گھر میں چار پائی کے نیچے ایک کاغذ پر لکھی ہو ئی تھی ۔جب آنحضرت محمد ﷺ کو مرض وفات کی تکلیف شروع ہوئی تو ہم آپ کی دیکھ بھال میں لگ گئے ہمارا ایک پالتو جانور آیا اور اس نے اس کاغذ کو کھا لیا(۳۴)
نمبر۷:۔ جان برٹن(John Burton)(۱۸۶۳ء۔۱۹۴۰ء)
مشہور زمانہ مستشرق جان برٹن بھی نص قرآنی کو موضوع بحث بنانے والے مستشرقین میں قابل ذکر ہے۔اس نے The collection of the quranکے نام سے کتاب لکھی جس میں قرآن کی جمع وتدوین اور علوم قرآنیہ میں سے علم الناسخ والمنسوخ پر بڑی تفصیلی بحث کی ہے جان برٹن نے یہ کتاب اپنے رفیقDr.J.wansbrough کے تعاون سے لکھی ہے(۳۵) جمع وتدوین پر متفق اعتراضات کے ضمن میں جان برٹن نے نبی ﷺکے عہد میں قرآن مجید تحریری شکل میں موجود ہونے کا انکار کیا ہے اور اس ضمن میں لکھا ہے کہ
" قرآن کی جمع وتدوین کا نام حضورﷺ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ہی شروع کیا گیا" (۳۶)
اسی ذیل میں وہ چند روایات کا سہارا لیتے ہوئے یہ نظریہ اختیار کرتا ہے کہ قرآن کی اسی غیر تکمیلی حالت کی بنا پر اس کا تو اتر بھی متاثر ہوا ہے چنانچہ حضرت زید سے مروی روایات میں ان کے الفاظ فقدت آیۃ یعنی میں نے سورۃ توبہ کی آخری آیات کا نہ پایا ۔کو بنیا دبنا جان کر برٹن نے قرآن کے نامکمل اور محرف ہونے کا دعویٰ کیا ہے(۳۷)
نمبر۸:۔ آرتھر جیفری(Arthur Jeoffery) (۱۸۹۲ء۔۱۹۵۹ء)
آرتھر جیفری آسٹریلوی نژاد امریکی مستشرق ہے جس نے قرآن حکیم کے دیگر پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کی مختلف قرأت کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔آرتھر جیفری کے تحقیقی کاموں میں نمایاں ترین کام کتاب المصاحف کی تحقیق وتخریج اور اس سے ملحقMaterials of the history of the text of the quranمیں مصاحف صحابہ کو مصحف عثمانی کے بالمقابل متوازی قرآنی نسخے قرار دینے کی کوشش کی ہے۔اس نے قرآن حکیم کی تدوین اور اس کی مختلف قرأت کے مضامین پر مشتمل دو مزید مساوات بعنوان مقدمتان فی علوم القرآن بھی مدون کیے(۳۸)
جیفری نے تقریباً چھ ہزار ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جو مصحف قرآنی عثمانی سے مختلف ہیں اس کے قرآت کے یہ سارے اختلاف تفسیر،لغات،ادب اور قرأت کے مضامین پر مشتمل قرأت کی کتابوں میں سے جمع کیے ۔اس کام کے لیے ابن ابی داؤد کی مذکورہ کتاب المصاحف اس کا بنیادی مآخذ رہی(۳۹)
مصحف عثمانی کے مقابلے میں دیگر صحابہ اور تابعین کے مختلف قرأت پر مبنی نسخوں اور روایتوں کو پیش کرتے ہوئے جیفری نے اس تحقیق کو یکسر نظر انداز کیا ہے کہ مصحف عثمانی سے اختلاف کرنے والے مصاحف جن صحابہ سے منسوب ہیں وہ سب حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے تشکیل کردہ مصاحف کی تائید وتوثیق کرنے والے تھے۔اور بعض تو اس کمیٹی کے براہ راست رکن تھے۔مثلا حضرت ابی بن کعب جمع قرآنی میں شریک تھے اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اس عظیم کام کی خوب تائید وتوصیف کی (۴۰)
نمبر۹:۔ جارج سیل کا ترجمہ قرآن (۱۶۹۷ء۔۱۷۳۶ء)
جارج سیل اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ وہ سابق مستشرقین کی نسبت اسلام اور قرآن مجید پر زیادہ مہارت رکھتا ہے۔وہ بڑے جرات مندانہ انداز سے کہتا ہے کہ پروٹسٹنٹ ہی اس لائق ہے کہ وہ قرآن مجید کو شکست د ے گا:
The protestants alone are able to attack the koran with success and for them I trust,providence has reserved the glory of its overthrow. (41)
جارج سیل کا یہ دعوی کہ اس نے قرآن مجید کا ترجمہ غیر جانبدارانہ انداز سے کیا ہے غلط ہے وہ اسلام اور قرآن مجید پر مکمل مہارت بھی نہیں رکھتا تھا۔(۴۲) چونکہ اس کا ترجمہمر اسی کے ترجمہ قرآن کی نقل ہے۔(۴۳) لہٰذا اس کا یہ دعوی بھی ، کہ اس نے براہ راست قرآن مجید سے ترجمہ کیا ہے ،باطل ہو جاتا ہے۔(۴۴)جارج سیل کے ہم عصر جن لوگوں نے یہ کہا کہ جارج سیل نے ترجمہ کی تکمیل کے بعد اپنی زندگی کے پچیس سال عرب میں گزارے ۔جہاں اس نے عربی لغت پر عبور حاصل کیا۔جبکہ آر اے ڈیون پورٹ(R.A .Davenport) نے یہ نقطہ اٹھایا کہ جارج سیل کی تاریخ پیدائش ۱۶۹۷ء تا ۱۷۳۶ء ہے ۔ وہ اپنے ترجمہ کے شائع ہونے کے دو سال بعد وفات پا گیا تھا۔اس سے یہ بات غلط ثابت ہوئی کہ اس نے پچیس سال عرب میں گزارے۔(۴۴)جارج سیل کے ترجمہ میں سے ایک مثال پیش کی جاتی ہے
الْحَمْدُلِلَّہِ(۴۵)جارج سیل نے اس آیت کا ترجمہ یہ کیا ہےPraise be to Godجبکہ اصل ترجمہ یہ ہے All the praise or all praise belonge to Allah۴۶) جے۔ایم راڈویل جارج سیل کے ترجمہ پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس کا ترجمہ اس کی زندگی میں چھپا اور یہ ترجمہ سب پچھلے تراجم سے زیادہ صحیح تھا۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے تمام اہل تحقیق اور اہل علم میں معتبر اورمشہور تھا ۔مگر اس میں جو نقص رہ گیا ہے وہ یہ ہے کہ مترجم نے آیات کے لیے جو علامات لکھی جاتی ہیں اس کو حذف کر دیا ہے اور تمام کتاب کو ایک مسلسل پیرایہ میں لکھ دیا ہے۔اور یہ ایک بہت بڑا نقص تھا جس کی اہل علم نے بڑی شکایت کی ۔ایک اور امر کی شکایت جے۔ایم۔راڈویل نے کی ہے کہ جارج سیل نے ترجمہ قرآن میں مراسی کے تتبع میں تفسیری فقرے بھی متن میں لکھے ہیں۔
جارج سیل نے اپنے ترجمہ کو تیار کرنے کے لیے دوسروں سے معاونت لی ہے۔حافظ غلام سرور کے نزدیک جارج سیل عربی لغت جانتا تھا۔اگر یہ عربی لغت نہ جانتا ہوتا تو ترجمہ کے لیے بد ترین الفاظ کا انتخاب نہ کرتا۔جیسا کہ اس نے بات سے مقامات پر کیا۔اس کا غلط ترجمہ لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ اس کے مفہوم کو مشکوک بنا سکے۔لہٰذا اس کی بغض وعناد سے بھر پور طبیعت نے اس کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ قرآن مجید کی حیثیت کو متاثر کریں(۴۷) مثلا ً جارج سیل نے ایک آیت کے بارے میں یہ ترجمہ کیا
sale makes Mary say,I am not harlot(47)
حضرت مریم علیہ السلام فرماتی ہیں کہ میں فاحشہ نہیں ہوں (نعوذ باﷲ)۔جبکہ پورے قرآن مجید میں اس طرح کا کوئی ایک لفظ بھی استعمال نہیں کیا گیا۔لہٰذا قرآن مجید کا اس انداز سے ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا(۴۸) حافظ غلام سرور کے مطابق جارج سیل عربی لغت سے بخوبی واقف تھا مگر وہ عربی محاوروں سے ناواقف تھا۔جس کی بنا پر اس سے بہت سی جگہوں پر انجانے میں غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔(۴۹) جارج سیل قرآن مجید میں موجود جنت ودوزخ کے ذکر کا بھی انکار کرتا ہے
George sale thus definitely denies that the description of heaven in the Holy quran(50)
جبکہ پالمر کا خیال ہے کہ جارج سیل کا ترجمہ قرآن مجید کی درست ترجمانی کرتا ہے
sales translation can scarcely be regarded as a fair representation of the quran(51)
چونکہ جارج سیل نے سابقہ تراجم کی نسبت اپنے ترجمہ میں بہت زیادہ اسلام اور قران مجید کو بد نام ورسوا کرنے کی مذموم جسارت کی ہے یہی وجہ ہے کہ یورپ میں اسی ترجمہ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے اور یہ ترجمہ مختلف یورپی زبانوں میں کئی بار شائع ہو ا ہے۔
نمبر۱۰:۔ جے۔ایم۔راڈویل کا ترجمہ قرآن(۱۸۰۸ء۔۱۹۰۰ء)
مستشرقین میں جے۔ایم،راڈویل ایک بڑا عالم تھا۔ وہ اسلام کا اتنا ہی بڑا مخالف تھا جتنے کہ دوسرے تھے۔اس نے اپنے ترجمہ کو ترتیب نزولی کے اعتبار سے تھیوڈر نولڈیکے اور ولیم میور کی تقلید کرتے ہوئے لکھا۔اس کا مقصد قرآن مجید میں تشکیک پیدا کرنا ،اور یہ ظاہر کرنا تھا کہ قرآن مجید توریت وانجیل کے مختلف اجزاء سے مرتب کیا گیا ہے اور اس کتاب کے مصنف نبی کریمﷺ ہیں۔اگرچہ کہ اس نے ایک محنت طلب کام کیا مگر کامیاب نہ ہو سکا کیونکہ علماء کرام سورتوں کی ترتیب نزولی پر متفق نہیں ہے۔
There is no agreement amongst scholars as to the chronological order of the suras(52)
سورتوں کو ترتیب نزولی کے مطابق مرتب کرنا ایک دقیق اور مشکل امر ہے۔مگر جب علمائے کرام میں ترتیب نزولی کے بارے میں مفاہمت نہیں پائی جاتی تو اس طرح یہ ترتیب نزولی قرآن مجید میں تشکیک اور الجھن پیدا کرتی ہے کہ جس سے قاری بھی تذبذب اور تردد کا شکار ہوتا ہے۔لہٰذا یہ ایک غیر مفید کام ہے(۵۳) وہ خود بھی اس کام کو کرنے میں تردد اور پیچیدگی میں مبتلا ہو ہے۔جس کی وجہ سے اس کی کی کوشش کارگر ثابت نہیں ہوئی۔
نمبر۱۱:۔ ای۔ایچ۔پالمر کا ترجمہ قرآن(۱۸۴۰ء۔۱۸۸۲ء)
ای۔ایچ پالمر قرآن مجید کی زبا ن کو نعوذ باﷲ غیر مہذب سمجھتا تھا۔
Rude and rugged,not elegant in the sense of literary refinement(54)
وہ یہ کہتا ہے کہ اس نے قرآن مجید کا ترجمہ ایک عمدہ،مناسب اور اعلیٰ لغت میں کیا ہے۔جو کہ عربی لغت سے زیادہ بہتر ہے۔
ای۔ایچ پالمر اپنی طرف سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس نے قرآن مجید کا ترجمہ من وعن وہی کیا ہے جو کہ عربی لغت سے ظاہر ہوتا ہے۔اس کے خیال میں اس کا ترجمہ مخاطب کو حیرانگی اورتعجب میں ڈال دے گا۔(۵۵) جبکہ یہ انداز تحریر صرف اور صرف قرآن مجید کے مطالب کو بگاڑ نے کی ایک کوشش ہے۔ کیونکہ موصوف قرآن مجید کے مفہوم اور اس کو روح کو سمجھنے میں یکسرنا کام ہو چکا ہے ۔مثال کے طور پر:
للفقراء والذین احصروا فی سبیل اﷲ لایستطیعون ضربا فی الارض(۵۶)
اس آیت کاترجمہ ای۔ایچ پالمر نے یہ کیا ہے
The poor who are straitened in Gods way and cannot knock about the eath(57)
وہ عربی محاوروں سے ناواقفیت کی وجہ سے عربی لغت کو غیر مہذب قرار دیتا ہے
I must remind the reader that the language of the quran is really rude and rugged(58)
اس نے اس مثال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن مجید کی زبان غیر مہذب ہے۔اسی طرح اس نے پورے ترجمہ میں بے شمار غلطیاں کی ہیں۔لہٰذا اس کا پورا ترجمہ غلط ہے(۵۹) حافظ غلام سرور اس ترجمہ کے بارے میں اپنا موقف ظاہر کرتے ہیں
Palmers translation is undoubtebly the worst.... The way palmer leaves out the articles a,an , and the in his translation damages not only the meaning of the original,but makes his english also read like a collection of words rather than reasoned sentences(60)
ای۔ایچ پالمر کا ترجمہ بلا شک وشبہ بد ترین ترجمہ ہے۔اس نے ترجمہ لکھنے کے دوران a,an,the الفاظ کا ترجمہ نہیں کیا۔اس نے یہ صرف قرآن مجید کے اصل معانی کو بگاڑ نے کی کوشش کی بلکہ اس کا اپنا ترجمہ پڑھنے میں ایسا لگتا ہے جیسے الفاظ کو جمع کر دیا ہو نہ کہ ان کو معقول جملوں میں شکل دی جاتی
نمبر۱۲:۔ رچرڈبل کا ترجمہ قرآن(۱۹۵۲ء۔۱۸۷۶ء)
رچرڈ بل نے سورتوں کو ترتیب نزولی سے مرتب کیا ہے۔اس نے جے ۔ایم روڈ ویل کی تقلید میں قرآن مجید میں بگاڑ پیدا کر کے اس کی غلط تشریح کی ہے تا کہ قرآن مجید کے بارے میں ایک ناپسندیدہ تصور اجاگر کیا جائے۔(۶۱)
نمبر۱۳:۔ اے۔جے۔آربری کا ترجمہ قرآن (۱۹۰۵ء۔۱۹۶۹ء)
اے۔جے۔آربری کے خیال میں قرآن مجید نہ تو نثر ہے نہ شاعری بلکہ ان دونوں کا امتزاج ہے
The Koran is neither prose nor poetry,but a unique fusion of both(62)
ا س نے ای ۔ایچ ۔پالمر کی تقلید کرتے ہوئے قرآن مجید کو ایک نئے ترنم کے ساتھ آیات کو گروپ میں تقسیم کر کے ترجمہ کیا ہے۔
Like palmer,however,he attempts to give a leteral translation and to produce the rhythm in it. He says: I have striven to devise rhythmic patterns and sequence groupings in correspondence with what the arabic presents,paragraphing the grouped sequence as they seem to form original units of revelation(63)
جبکہ موصوف کا یہ انداز تحریر قاری کے لیے مشکل پیدا کرتا ہے۔کیونکہ قاری کے لیے یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کس آیت کا کون سا ترجمہ ہے او ر موصوف نے آیا ت کے نمبر بھی درج نہیں کیے۔دوسرے مستشرقین کی طرح اس ترجمہ میں بھی بے شمار غلطیاں موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے سابقہ تراجم کی نقل کی ہے خاص طور پر پالمر کی۔اس لحاظ سے یہ ترجمہ بھی غلطیوں سے مبرانہیں ہے لہٰذا ناقابل قبول ہے(۶۴)



حوالہ جات وحواشی
۱۔لسان العرب ابن منظور الافریقی،محمد بن مکرم،دار صادر بروت174/10
۲۔مشرق شناسی،ایڈورڈسوید،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ص ۱۴
3.Hans wehr,dectionary of modern written arabic(Ed.J.M cowan,new york 1961)
۴۔ عبد الحق، سٹینڈرڈ اردو ڈکشنری(انجمن اردو پریس،دکن، ۱۹۳۷ء) ص ۷۹۶
5.The oxford dictionary of English,The Biological society vii,p 200.
۶۔المنجد،مفتی محمد شفیع(دارالاشاعت کراچی)۱۳۷۹ء
۷۔الاستشراق،ڈاکٹر مازن بن صلاح مطبقانی،انٹر نیٹ ایڈیشن ص ۲
۸۔ استثناء ۸۱:۱۹
۹۔الصف ۶:۶۱
۱۰۔ یوحنا ۱۴:۱۶
۱۱۔ البقرہ ۱۴۶:۲
۱۲۔ البقرہ ۸۹:۲
۱۳۔ البقرہ ۹۷:۲
۱۴۔ الاستشراق ،ڈاکٹر مازن بن صلاح مطبقانی،قسم الاستشراق کلیہ الدعوہ مدینہ س،ن،ص ۳
۱۵۔ضیا ء النبی(بحوالہ،الاضواء علی الاستشراق والمستشرقین،ص ۱۵) ضیاء القرآن پبلیکیشنر لاہور ۱۴۱۸ھ،۱۲۶/۶
۱۶۔ الاستشراق ،مازن بن صلاح مطبقانی، قسم الاستشراق کلیہ الدعوہ مدینہ ص ۴
۱۷۔ضیاء النبی،پیر کرم شاہ ،ضیا ء القرآن پبلیکیشنز لاہور، ۱۶۱۸ھ، ۶/ ۱۵۶
۱۸۔نقوش ،رسول نمبر ۱۱/ ۵۶۷
۱۹۔ نفس المصدر ص ۸۸
۲۰۔زنجانی عبد اﷲ تاریخ القرآن مکتبہ الصدر طبران شارع ناصر خسرو ص21/4
۲۱۔مجیب الحقیقی ۔المستشرقون ۳۱۶/۱
۲۲۔ مرجع سابق
۲۳۔زرکلی،خیر الدین،الاعلام، ۸۴/۱
۲۴۔ کولڈزیہر،مذاہب التفسیر الاسلامی شارع شریف باث الکبیر القاہرہ مکتبہ انجانجی بمصر مکتبہ المثنی بغداد
۲۵۔ نفس المصدر ص ۱۵
۲۶۔نفس المصدر ص ۴
۲۷۔ نفس المصدر ص ۸
۲۸۔نفس المصدر ص ۱۶
۲۹۔ علی الصغیر، المستشرقون والدراسات القرانیہ ص ۸۲
30.Watt montgomery,Muhammad the prophet and statesman, p 17
۳۱۔ نفس المصدر ص ۱۳
32. watt montgomery,muhammad the prophet and statesman,p,41
۳۳۔تقی عثمانی،علوم القرآن ،انسائیکلو پیڈیا ریلجن اینڈ ایتھکسvol,10, p 543
۳۴۔ علوم القرآن ،تقی عثمانی(مکتبہ دار الاسلام کراچی ۱۴۳۱ھ،۲۰۱۰ھ) س،ن، ص220
35. john burton the collection of the quran
۳۶۔ نفس المصدر p 126
۳۷۔ نفس المصدر p 127
38. M.A chaudhary orientalism on variant Readings of the quran the case of arthur jeffery p 170
۳۹۔ نفس المصدر p 171
۴۰۔ ابن ابی داؤد ،صالح بن عبد العزیز بن محمد بن ابراہیم مکتبہ دارالسلام ط۲ الریاض ۱۴۹۹ھ
41. lbid,p:iv
42. Mohar ali,Dr,the quran and the orientalists p:331
43.Rodwell.j.M the koran(preface(J.M new york London 1953 p 17 aurthur jeffery.The koran selected suras translated heritage press.new york 1958 p:19 mohar ali the quran p:332
44. Mohar ali .Dr, the quran and the orientalists p:331
45. sweetman,J,Islam and christian theology,lutterworth london 1945 vol,p :5 mohammad khalifa,the sublime quran and orientalism p:65
۴۶۔ الفاتحہ ۱:۱
۴۷۔جارج سیل کے ترجمہ میں موجود اغلاط کی نشاندہی کے حوالے سے ملاحظہ ہو

Mohar ,Ali ,Dr, the quran and the orientalists p:332.335 Ghulam sarwar Al.haj Hafiz translation of the Holy quran national book foundation,2nd edition, Lahore 1973,p:x.xxi
48.Ghulam sarwar,Al.Haj Hafiz translation of the Holy quran p:xxiii
49. lbid P:xxiii
50. Mohar ali ,Dr, the quran and the orientalists p:341
51. OP.cit
۵۲:۔ البقرہ ۲: ۲۷۳
53. palmer ,E,H the koran ,p:39
54.Op cit
55. Mohar ali ,Dr, the quran and the orientalists p:341
56. Ghulam sarwar al.haj Hafiz translation of the Holy quran p:xxxiii
57. Mohar ali,Dr, the quran and the orientalists p:343.344
58. lbid ,pp :ix.x arberry ,A.J, the koran interpreted oxford university press.london,1964,p:x
59. Arberry,A.J the koran interpreted,p:x
60. Mohar Ali.Dr, the quran and the orientalists p:345
Muhammad Imran
About the Author: Muhammad Imran Read More Articles by Muhammad Imran: 2 Articles with 23432 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.