جانوروں کے حقوق

اسلام ایک مکمل دین ہے، اسلام نے انسانوں کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا، اسلام ہی نے انسان کو حقوق بتائے کہ اگر وہ مرد ہے تو اس کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے؟ اس پر اس کی اولاد کے کیا حقوق ہیں؟ اسی طرح اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے صنفِ نازک کو اس کا اصل حق عطا کیا، اسلام ایک جامع وکامل مذہب ہے، حتی کہ اسلام نے جانوروں کے حقوق بھی متعین کیے ہیں، شریعت محمدیہ نے چو پاؤں، مویشیوں، پرندوں غرض ہر قسم کے جانوروں کے حقوق کا بیان کیا ہے، ان سطور میں ان تمام حقوق کا احاطہ تو ممکن نہیں، بلکہ اسلام کی تعلیمات نے جانوروں کے کیا حقوق بیان کیے ان کی وضاحت مطلوب ہے۔

جانوروں کوکھلانے پلانے کی فضیلت
عن انس رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ما من مسلم یغرس غرسا او یذرع زرعا، فیاکل منہ انسان او طیر او بھیمة الا کانت لہ صدقة․

حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جوبھی مسلمان کھیتی لگائے یا پودا لگائے، پھر کوئی انسان یا پرندہ یا چوپایہ اس میں سے کھا لیوے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا۔

اس سے جان دار چیز کو کھلانے پلانے کا اجر معلوم ہواکہ کوئی بندہ کھیتی بوئے اور اس کھیتی میں سے کوئی جان دار کھا لیتا ہے اور اس کھیتی کے مالک کو پتہ بھی نہیں کہ اس کی کھیتی سے چوپائے پرندے وغیرہ جو کھارہے ہیں اس کے نامہٴ اعمال میں صدقے کا اجر لکھا جارہا ہے، اب اگر کسی نے کسی جان دار کو پال رکھا ہو اور پھر اسے چارہ ودانہ وغیرہ دیتا ہو تو اس پر کتنا اجر ہو گا؟! اسی طرح کسی جانور کو تکلیف دینا، انہیں بھوکا رکھنا سخت ترین گناہ ہے ۔صحیح مسلم کی روایت ہے۔

وعنہ وعن ابن عمر رضی الله عنہ قالا: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: عذبت امرأة فی ھرة امسکتھا حتی ماتت من الجوع، فلم تکن تطعمھا ولا ترسلھا، فتاکل من خشاش الارض․
ترجمہ: حضرت ابن عمر وابوہریرہ رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ رسول الله نے فرمایا کہ ایک عورت کو ایک بلی کے سبب عذاب ہوا تھا کہ اس نے اس کو پکڑ رکھا تھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی ،سو نہ تو اس کو کچھ کھانے کو دیتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ حشرات الارض، یعنی زمین کے کیڑے مکوڑوں سے اپنی غذا حاصل کر لے۔

کتنی سخت وعید ہے کہ ایک بلی کو تکلیف دینے کی وجہ سے اس عورت کو جہنم کا عذاب ہو رہا تھا، ایک اور روایت میں امام ترمذی ذکر کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے دوزخ میں ایک عورت کو دیکھا، جس کو ایک بلی کے معاملے میں اس طرح عذاب ہو رہا تھا کہ وہ بلی اس کو نوچتی تھی جب کہ وہ عورت سامنے آتی تھی او رجب وہ ہشت کرتی تھی تو وہ بلی اس کے سرین کو نوچتی تھی۔ ( باب صلوٰة الکسوف)

جانوروں کو لعن طعن کرنے کی ممانعت
اسلام نے جانوروں پر بھی لعن طعن کرنے سے منع کیا ہے وعن ابی جری جابر بن سلیم رضی الله عنہ فی حدیث طویل قال: قلت: یا رسول الله اعہد الی، قال النبی علیہ السلام: لا تسبن احداً، قال: فما سبت بعدہ حرا، ولا عبدا، ولا بعیرا، ولا شاة․(رواہ ابوداؤد)
ترجمہ: ابو جری جابر بن سلیم سے ایک طویل حدیث روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ کچھ وصیت فرمائیں، حضور علیہ السلام نے فرمایا کسی کو بُرا مت کہنا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے بعد کسی کو بُرا نہیں کہا ،نہ آزاد کو، ناغلام کو، نہ اونٹ کو اور نہ بکری کو۔ اسی طرح ایک اور روایت میں وارد ہے:”وعن عمران بن حصین رضی الله تعالیٰ عنہ ان النبی صلی الله علیہ وسلم، کان فی سفر، فسمع لعنة، فقال: ما ھذہ قالو: ھذہ فلانة لعنت راحلتھا․ فقال علیہ السلام: ضعوا عنھا، فانھا ملعونة․(رواہ ابوداؤد)

حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام سفر میں تھے، پس آپ علیہ السلام نے لعنت کی آواز سنی، آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول الله! فلاں عورت نے اپنی سواری پر لعنت کی ہے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا اس سواری کو چھوڑ دو، اس پر لعنت کی گئی ہے۔

ان حادیث سے معلوم ہوا کہ جانوروں پر لعنت کرنا، انہیں گالی دینا، جیسا کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے، شریعت کی نظر میں انتہائی شنیع فعل ہے۔

جانوروں کو بے جا تکالیف دینے پر وعید
جانوروں کو بے جا تکالیف دینے کے حوالے سے بہت کثرت سے احادیث وارد ہوئی ہیں، جن میں جانوروں کو تکلیف دینے پر وعید آئی ہے اور آپ علیہ السلام نے ایسے شخص سے جو جانوروں کو بے جا تکلیف دیتا ہو غصے کا اظہار فرمایا ہے اور بعض جگہ ایسے شخص پر آپ علیہ السلام نے لعنت بھی فرمائی ہے ۔

عن ابن عمر رضی الله عنہ ان النبی صلی الله علیہ وسلم لعن من اتخدشیئاً فیہ الروح غرضا․ (متفق علیہ)

حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جوایسی چیز کو نشانہ بناوے جس میں روح ہو۔

بعض لوگ محض نشانہ بازی کی مشق کے لیے یا شغل کے لیے جانوروں کو باندھ کے کھڑا کرتے ہیں اور اس پر تیر وغیرہ سے نشانہ بازی کرتے ہیں، اس سے حضور علیہ السلام نے منع کیا اور ایسے شخص پر لعنت کی۔ اسی طرح آپ علیہ السلام نے فرمایا :”عن جابر رضی الله عنہ نھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم عن الضرب فی الوجہ، وعن الوسم فی الوجہ․(رواہ مسلم)

حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے چہرہ پر مارنے اور چہرے پر داغنے سے منع فرمایا۔ یعنی کسی جانور کے چہرے پر مارنے کو بھی آپ علیہ السلام نے منع فرمایا ہے اور ایک حدیث میں وارد ہے کہ حضور علیہ السلام کے سامنے سے ایک گدھا گزرا اور اس کے چہرے پر نشان لگاہوا تھا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا الله تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جس نے اس کے چہرے کو داغا ۔جانوروں کی آپس میں لڑائی کروانا یہ بھی جانوروں کو تکلیف دینا ہے بعض جگہ اونٹوں کو لڑایا جاتا ہے، کسی جگہ مرغوں کو آپس میں لڑایا جاتا ہے ،جو کہ سخت ناپسندیدہ عمل ہے اور بے زبان جانوروں پر ظلم ہے۔

وعن ابن عباس رضی الله عنھما قال نھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم من التحریش بین البھائم․(رواہ الترمذی)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جانوروں میں لڑائی کروانے سے منع فرمایا ہے۔ مرغ بازی اور بیٹر بازی اور مینڈھے لڑانا اسی طرح کسی اور جانور کو لڑانا سب اسی ممانعت میں داخل ہے اور یہ سب حرام ہے۔

جانوروں کو بھوکا رکھنا اور ان کے کھانے پینے کا خیال نہ رکھنا بھی ظلم ہے، جو موجب عذاب ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے روایت ذکر کی ،اسی طرح ان پر مشقت سے زیادہ بوجھ ڈالنا بھی گناہ ہے، اس کی ممانعت آئی ہے۔

حضرت یعلی بن مرہ ثقفی رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے تین واقعے عجیب رسول الله سے دیکھے ( ان میں سے ایک یہ ہے کہ) ہم آپ علیہ السلام کے ہم راہ چلے جارہے تھے کہ اچانک ہمارا گذر ایک اونٹ پر ہوا، جس پر ( آب پاشی کے لیے) آب کشی کی جارہی تھی، جب اونٹ نے آپ علیہ السلام کو دیکھا تو بلبلانے لگا اور اپنی گردن کا اگلاحصہ جھکا لیا، آپ علیہ السلام اس کے پاس کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کہاں ہے؟ وہ حاضر ہوا ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے ہاتھ اس کو بیچ دو۔ اس نے عرض کیا کہ یا رسول الله نہیں بلکہ ہم یہ آپ کو ہبہ کرتے ہیں اور یہ ایسے گھرانے کا ہے کہ بجز اس کے ان کے پاس کوئی ذریعہ معیشت نہیں، آپ علیہ السلام نے فرمایا اس اونٹ نے کام زیادہ لینے کی اور خوراک کم دینے کی شکایت کی ہے، سواس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ ( شرح السنہ)

آج کل اس معاملے میں بہت کوتاہی برتی جارہی ہے، جانوروں سے بے انتہا کام لیا جانا معمول کی بات بن گئی ہے اور ان کی خوراک کا خیال نہیں رکھا جاتا، ہل چلانے والے ،گدھا گاڑی چلانے والے وغیرہ حضرات ان تعلیمات کو غور سے پڑھیں اور اپنے عمل کا جائزہ لیں ۔ درمحتار میں بیل اور گدھے سے کام لینے میں یہ شرط لگائی ہے کہ ان سے بغیر مشقت اور مار کے کام لیا جائے ۔ ردالمحتار میں ہے کہ ان جانوروں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ر کھے اور ان کے سر اور منھ پر نہ مارے۔

جانوروں پر سواری کے حقوق
الله تعالیٰ نے بڑے بڑے جانوروں کو انسان کے لیے مسخر کیا، انسان ان جانوروں سے مختلف فائدے اٹھاتا ہے ،ان میں سے ایک ان پر سواری کا فائدہ بھی ہے، شریعت نے اس کے بھی اصول مقرر کیے ہیں۔

وعن سھیل بن الحنظلیة رضی الله تعالی عنہ قال: مر رسول الله ببعیر قد لحق ظھرہ ببطنہ، فقال: اتقوا الله فی ھذہ البھائم المعجمة، فارکبوھا صالحة، واترکوھا صالحة․ (رواہ ابوداؤد)
ترجمہ: حضرت سُہیل بن حنظلیہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله کا ایک اونٹ پر گزر ہوا، جس کی کمر (بھوک کی وجہ سے ) پیٹ سے ملی ہوئی تھی، آپ علیہ السلام نے اس کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا: ان بے زبان جانوروں کے بارے میں الله سے ڈرو۔ لہٰذا مناسب طریقے پر ان پر سواری کرو اور ان کی بھوک پیاس کا خیال رکھو ) اور مناسب طریقے پر ان کو چھوڑ دو (یعنی تھکنے سے پہلے سواری ختم کر دو ۔(ابوداؤد)

او رایک روایت میں وارد ہے کہ جب تم چٹیل میدان خشک زمین پر سفر کرو تو وہاں جلدی سفر کرو ( یعنی آرام سے سفر میں جانور کو تکلیف ہو گی، کیوں کہ خشک زمین پر اس کے لیے چارہ نہیں ہو گا ) اور جب سبزہ زار زمین پر سفر کرو تو جانور کو اس کا حق دو ( یعنی تھوڑا انہیں چارہ کھانے کے لیے چھوڑ دو)۔ (ابوداؤد) اور اسی روایت میں ہے کہ ” لا تتخدوا ظھور دوابکم المنابر․“
ترجمہ: تم اپنی سواری کی پشتوں کو منبر مت بناؤ۔ یعنی دوران سفر کسی جگہ پڑاؤڈالا ہو یا کسی سے بات چیت کی غرض سے روکنا پڑے تو جانوروں کی پیٹھ سے اترنے کا حکم ہے، کیوں کہ اس طرح انہیں تکلیف ہو گی۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جب ہم کسی منزل پر پڑاؤ ڈالتے تو اس وقت تک نماز نہ پڑھتے جب تک کہ ہم سواریوں سے کجاوے کو کھول نہ دیتے۔ ( ابوداؤد)

جانوروں کے ذبح وشکار کے حقوق
الله تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:﴿واحل لکم الطیبات﴾کہ ہم نے تم پر پاک چیزوں کو حلال کیا، الله رب العزت نے انسان پر بہت سے جانوروں کا گوشت حلال کیا، انسان ضرورت کے تحت ان جانوروں کو ذبح کرکے کھا سکتا ہے، لیکن اس کے بھی الله رب العزت نے کچھ احکامات دیے ہیں اور ذبح کرتے وقت اسلام کا حکم ہے کہ جانور کو کم سے کم تکلیف دی جائے۔

وعن شداد بن اوس رضی الله تعالی عنہ عن رسول الله قال: ان الله تبارک وتعالی کتب الاحسان علی کل شیء، فاذا قتلتم فاحسنوا القتلة، واذا ذبحتم فاحسنوا الذبح، ولیحد احدکم شفرتہ، ولیرح ذبیحتہ․ (رواہ مسلم)

حضرت شداد بن مسلم فرماتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ احسان کرنے کو ضروری فرمایا ہے، سو جب تم ( کسی مجرم) کو قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کیا کر واور جب تم ( کسی جانور کو) ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کیا کرو اور اس اچھے طریقے میں یہ بھی شامل ہے کہ تم میں سے جو شخص بھی اس کام کو کرنے والا ہو وہ اپنے چاقو کو تیز کر لیا کرے اور ذبیحہ کو راحت دے۔ اور جانور کو کسی دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرنے سے بھی شریعت نے منع کیا اور جانور کے سامنے چھری تیز کرنے کو بھی ناپسند کیا ہے، شریعت نے کسی جانور کو بلا ضرورت ذبح کرنا، یعنی اس کا گوشت کھانا جب مقصد نہ ہو یہ بھی مذموم قرار دیا۔ حضرت عبدالله بن عمرو سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کسی چڑیا کو یااس سے بڑے جانور کو اس کے حق کے خلاف قتل کرے تو الله تعالیٰ اس کے قتل کے متعلق باز پرس فرمائیں گے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول الله! اور اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا یہ کہ اس کو کھانے کے لیے ذبح کرے اور اس کا سر جدا کرکے پھینک نہ دے ۔( رواہ احمد)

مطلب یہ کہ بلاضرورت اور بے کار کسی جانور کو قتل نہ کرے، بلکہ جس جانور کا گوشت کھایا جاتا ہو اور اس کا کھانا مقصود ہو تو باقاعدہ ذبح کرے۔ یہ جانوروں کے حقوق سے متعلق اجمالی نظر ہے، ورنہ اس موضوع پر اگر احکام کو جمع کیا جائے تو ایک کتاب ترتیب دی جاسکتی ہے۔
 
مولوی سید وجاہت وجھی
About the Author: مولوی سید وجاہت وجھی Read More Articles by مولوی سید وجاہت وجھی: 8 Articles with 8122 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.