چند یوم پیشتر میڈیا پر ملزمان
پر پولیس کے تشدد کی فوٹیج نشر ہونے کے بعد جیسے میڈیا پر ایک مقابلہ شروع
ہوچکا ہے کہ کونسا چینل معصوم اور فرشتہ سیرت قاتلوں، ڈکیتوں، عزتوں کو تار
تار کرنے والوں، معصوم بچوں کو اغوا کرنے والوں، چوروں اور لٹیروں پر ہونے
والی ”پولیس گردی“ کا احوال بتاتا ہے اور کس طرح اپنے مذموم مقاصد کے لئے
میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے پولیس پر کیچڑ اچھالنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کو
اپنی بے اعتدالی کے سبب ذہنی خلجان، کوفت اور ڈپریشن میں مبتلا کرتا ہے۔
کبھی وکلاء کے مقابلہ پر پولیس والوں کو معصوم اور پاکباز بنا کر پیش کیا
جاتا ہے، کبھی پولیس کو مجرموں کی پشت پناہ قرار دیا جاتا ہے، کبھی پولیس
اہلکاروں کی اس طرح کوریج کی جاتی ہے کہ ان سے بڑا شیطان صفت اور ظالم اس
دنیا میں ہو ہی نہیں سکتا اور کبھی پولیس والوں کی بہادری کو سلام پیش کئے
جاتے ہیں۔ اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پولیس والے بھی انسان ہونے کے
ساتھ اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور جس طرح میڈیا سے وابستہ لوگ اپنے آپ کو ہر
قاعدے اور قانون سے مبرا سمجھتے ہیں پولیس کا بھی حال کچھ ایسا ہی ہے۔
پولیس کے اکثر اہلکاروں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کرپٹ، رشوت خور،
بھتہ وصول کرنے والے، ظالم اور سفاک ہوتے ہیں۔ پولیس اہلکار اپنے اعلیٰ
افسران کے حکامات کی وجہ سے یا ذاتی اغراض و مقاصد کے لئے بہت سے ایسے گھناﺅنے
کام بھی کر جاتے ہیں جن کا انہیں کوئی حق حاصل نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود
ایک بات حقیقت ہے کہ پولیس والے انتہائی نامساعد حالات میں، تربیت اور
ذرائع کی کمی کے باوجود اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر اپنی ڈیوٹی سرانجام
دیتے ہیں۔ کسی بھی جرم کے وقوع پذیر ہونے کے بعد پولیس جب ملزمان کو گرفتار
نہیں کر پاتی تو انہیں طعن و تشنیع کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، افسران کی
دھمکیاںبھی سننا پڑتی ہیں، عدالتوں کی جھڑکیاں بھی برداشت کرنا پڑتی ہیں،
عوامی ردعمل بھی ہمیشہ ان کے خلاف ہوتا ہے، اگر کوئی ملزم پکڑا بھی جائے تو
اعلیٰ افسران کے احکامات پر چھوڑنا پڑتا ہے یا عدالتی نظام کی وجہ سے وہ
باعزت بری ہوجاتا ہے۔
چنیوٹ کے پولیس سٹیشن ”بھوآنہ“ میں پولیس کی چھترول کے شکار ملزمان ایک
چاولوں سے بھرے ہوئے ٹرک پر ڈکیتی کے الزام میں موقع پر ڈکیتی کرتے ہوئے
گرفتار ہوئے تھے۔ ان کے خلاف درجنوں ڈکیتی اور قتل کے مقدمات پہلے بھی
موجود ہیں۔ اگر پولیس کو ان کے دیگر ساتھیوں کے نام معلوم کرنے ہوں تو کیا
وہ انہیں پھول پیش کرتی، اچھا سا کھانا کھلاتی، چائے و دیگر لوازمات سے ان
کی تواضع کی جاتی؟ اور پھر ان سے ان کے ساتھیوں کا پوچھا جاتا؟ میں پولیس
کی چھترول کی قطعاً حمایت نہیں کررہا لیکن پولیس کیا طریق کار استعمال کر
کے ان کے دیگر ساتھیوں کے بارے میں تفتیش کرتی جو ڈکیتی اور قتل کے جرائم
میں ملوث تھے؟ جب کبھی ڈکیتی، قتل ، اغواءبرائے تاوان اور آبرو ریزی جیسا
قبیح جرم ہوتا ہے تو کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس جرم کے شکار ہونے والے
پر کیا گذرتی ہے؟ جس کا کوئی عزیز ڈکیتی کے دوران قتل کردیا جائے، جس کا
بچہ تاوان کے لئے اغوا ہوجائے، جس کی کسی عزیزہ کو آبرو ریزی کا نشانہ بنا
دیا جائے تو وہ تو پوری دنیا کو آگ لگانے کو تیار ہوجاتا ہے؟ کیا میڈیا پر
اس طرح کی باتیں اچھال کر میڈیا کے کرتا دھرتا یہ چاہتے ہیں کہ اگر عوام
کوئی ایسا ملزم خود پکڑ لیں تو اسے خود ہی آگ لگا دیں جیسا کہ آجکل رواج
پکڑتا جا رہا ہے؟ اگر پولیس ملزمان کے ساتھ پولیس آرڈر اور دیگر قوانین اور
آئین کے مطابق سلوک کرے تو بھی میڈیا اس کی ”کلاس“ لے کہ پولیس والے ملزمان
کے ساتھ مل گئے ہیں اور اگر وہ مدعیان کی تسلی کے لئے، دیگر مجرموں کو
پکڑنے کے لئے ”سکہ بند“ مجرمان کے ساتھ ذرا سختی برتے تو بھی میڈیا ایک
طوفان کھڑا کردے....! آخر میڈیا مالکان اور ان کے کرتا دھرتا چاہتے کیا ہیں؟
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جہلم کے ایک گھر میں ڈکیتی کے دوران وہاں سے
تقریباً ایک کروڑ کا سامان، نقدی، طلائی زیورات وغیرہ لوٹ لئے گئے اور
ملزمان واپسی پر ایک چھ سالہ بچے کو بھی بھاری تاوان کے لئے اغوا کر کے
اپنے ساتھ لے گئے۔ کوئی اس غمزدہ خاندان کے دکھ اور تکلیف کا تصور کرسکتا
ہے؟ چلیں روپے پیسے کی تو کوئی بات نہیں لیکن چھ سالہ بچے کی وجہ سے کیا ہر
لمحہ ان پر صدیوں سے بھاری نہیں ہوگا؟ کیا ہر ہر پل ان کے لئے جان لیوا
اذیت ساتھ نہیں لاتا ہوگا؟ کیا اس خاندان کے افراد ایک بھی منٹ کے لئے سکھ
محسوس کرسکیں گے جب تک کہ ان کا لخت جگر ان کے پاس واپس نہیں پہنچ جاتا؟ آپ
ایک منٹ کے لئے ذرا تصور کیجئے اگر ایسا واقعہ آپ کے ساتھ ہو تو کیا آپ
نہیں چاہیں گے کہ ان ملزمان کو اتنی اذیتیں دی جائیں کہ وہ موت کو ترسیں؟
کیا آپ نہیں چاہیں گے ان ملزمان کے جسموں کے ٹکڑے کر کے چیل اور کوؤں کو
کھلا دئیے جائیں؟ کیا آپ یہ نہیں چاہیں گے کہ کوئی کیس چلائے بغیر، وقت
ضائع کئے بغیر ان ظالموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے جنہوں نے ایسا گھناﺅنا
جرم کیا ہو؟ کیا آپ کسی قانونی اور عدالتی موشگافیوں کی وجہ سے ان ڈکیتوں
اور اغواء کرنے والوں کو باعزت بری ہوتا دیکھ سکیں گے؟
یقیناً پولیس والے بھی کوئی فرشتے نہیں ہیں، نہ میں ان کی وکالت ہی کررہا
ہوں لیکن ہمارے میڈیا کو بھی کچھ ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ وہ مجرمان اور
ملزمان کو اس طرح پیش نہ کریں کہ وہ ہیرو بن جائیں۔ دیگر تمام محکموں کی
طرح پولیس کی اوور ہالنگ اور تطہیر بھی از حد ضروری ہے بلکہ شائد باقی
محکموں کی نسبت قدرے زیادہ! لیکن میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ اب موقع
آگیا ہے کہ ہم انگریزوں کے دئے ہوئے فرسودہ نظام سے نجات حاصل کرکے اللہ
اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دئے ہوئے نظام کو اپنے اوپر لاگو
کریں اور اس عدل و انصاف کو رائج کریں جس کا درس ہمیں رسول عربی صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے دیا ہے تاکہ ایک مجرم کو فوری طور پر قرار واقعی سزا ملے
اور معاشرے کے لئے درس عبرت بھی ہو، اگر لوگوں کو یقین ہو کہ ان کے ساتھ
ہونے والی زیادتی کا ازالہ ہوگا، مجرموں کو فوری سزا ملے گی، حق دار کو اس
کا حق ملے گا تو نہ تو پولیس کو چھترول کی ضرورت پیش آئے گی نہ لوگ قانون
کو اپنے ہاتھ میں لے کر سر عام ڈاکوﺅں کو زندہ جلانے کی کوشش کریں گے۔ جب
انصاف ہوگا اور ہوتا ہوا نظر آئے گا تو فتنہ و فساد نہیں رہے گا! ہمارے
ارباب اختیار کو بھی سوچنا چاہئے اور ہمیں بھی، خصوصاً چیف جسٹس صاحب کو! |