سول ایوی ایشن اتھارٹی میں بدعنوانیوں کی نئی داستان

زندگی بھر کی محنت کا صلہ نہ ملنا جمہوری دور میں روا رکھے گئے ظلم کی نادر مثال ہے، اگر یہ ظلم جاگتی آنکھوں کے سامنے موت کا انتظار کرتے ہوئے فرد کو کرنا پڑے تو اسے گزارنا اور بھی دشوار ہوتا ہے،1998ء میں سول ایوی ایشن اتھارٹی سے ریٹائر ہونے کے باوجود پنشن و واجبات سے محروم طفیل احمد اور ان جیسے کئی ملازمین اس ظلم پر نوحہ خواں ہیں۔ مذکورہ کیس میں سول ایوی ایشن اتھارٹی نے سپریم کورٹ کے احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے سابقہ ائیر پورٹ ڈویلپمنٹ ایجنسی (اے ڈی اے)کے ملازمین کو پنشن اور دیگر واجبات کی ادائیگی تاحال نہیں کی۔اپنی عمر کے آخری دنوں میں موت کا انتظار کرنے والے طفیل احمد اور ان جیسے دیگر ملازمین محکمے کی زیادتی کے باعث پیدا شدہ خراب معاشی حالات کی وجہ سے فاقوں کا شکار ہیں۔

1986ء میں اے ڈی اے کو سول ایوی ایشن اتھارٹی میں ضم کر دیا گیا تھا، اس ادارے میں1965ءاور اس سے بھی پہلے کے بھرتی شدہ ملازمین اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھیں۔ مذکورہ ملازمین کو نئے سیٹ اپ کے تحت جانبداری کا نشانہ بننا پڑا تو انہوں نے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا، 1998ء میں ڈپٹی مینیجر (سول)کے طور پر ریٹائر ہونے والے طفیل احمد اور دیگر ملازمین کے کیس میں عدالت عالیہ نے 14ستمبر2000ء کو فیصلہ سناتے ہوئے ان کی سابق حیثیت بحال رکھتے ہوئے مستقل ملازم شمار کرنے کا حکم دیا تھا،3جنوری 2003ء کو فیڈرل سروسز ٹربیونل نے بھی سابقہ ملازمین کی جانب سے دائر درخواست کے فیصلہ میں مذکورہ ملازم کی سابقہ سروس کی روشنی میں ان کی سینارٹی بحال رکھنے سمیت مدت ملازمت کے اختتام پر پنشن کا حقدار قرار دیا تھا۔

اعلیٰ عدلیہ کے مذکورہ فیصلوں کے باوجود سول ایوی ایشن اتھارٹی نے سابقہ اے ڈی اے ملازمین کو ان کی پنشن اور دیگر واجبات تاحال ادا نہیں کئے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی عدالتی فیصلوں کے ساتھ آئین پاکستان کی دفعہ23 کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ زندگی بھر کی محنت سے محروم ہونے والے طفیل احمد اور ان کے ساتھی ملازمین نے متعلقہ حکام سے بارہا کی جانے والی ملاقاتوں کے علاوہ صدر و وزیر اعظم کو عرضداشتیں بھی پیش کیں، لیکن ان کی کسی بھی کوشش کا نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ متاثرہ ملازمین نے صدر، وزیر اعظم اورچیف جسٹس آف پاکستان سے مسئلہ کا نوٹس لینے اور ان کی مشکل حل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

معاملہ یہیں پر بس نہیں ہوا بلکہ سول ایوی ایشن اتھارٹی میں جاری بدانتظامی کی کہانی اس سے بھی آگے بڑھ کر متعدد رخ اختیار کر چکی ہے۔ادارے کی تاریخ میں پہلی بار نچلے گریڈ کے ملازمین کی تنخواہیں گروپ 8 اور 9 کے افسران سے بھی بڑھ گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے اپنی مدت ملازمت مکمل کرنے والے افسران نے نچلے گریڈ میں ریٹائر ہونے کے لئے درخواستیں جمع کرا دی۔

انتظامیہ نے سی بی اے یونین کے چارٹر آف ڈیمانڈ کو منظور کرتے ہوئے گروپ 1سے 6تک کی بنیادی تنخواہوں میں 30فیصد اضافہ کردیا تھا جس کے بعد ان ملازمین کے الاﺅنسز اور بونسز میں بھی اضافہ ہوگیا تھا۔ لیکن یہ اقدام کرنے والی انتظامیہ کی جانب سے افسران کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا تھا جس سے افسران اور ملازمین کی تنخواہوں میں واضح فرق پیدا ہوگیا ہے اور ملازمین کی تنخواہوں افسران کی تنخواہوں سے زیادہ ہوگئی ہیں۔ مذکورہ اضافے کے بعد گروپ 6کے ملازمین کی تنخواہیں 55ہزار تک پہنچ گئی ہیں جبکہ الاﺅنسز میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوگیا ہے جبکہ گروپ 8اور 9کے افسران کی تنخواہیں 45ہزار روپے ہیں۔ اس واضح فرق کے باعث افسران میں تشویش پائی جاتی ہے۔

سول ایوی ایشن کی تاریخ میں پہلی بار افسران اور ملازمین کی تنخواہوں میں پیدا ہونے والے اس فرق کے بعد مدت ملازمت مکمل کرکے ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچنے والے افسران نے نچلے گروپ کے ملازمین کے گروپ میں ریٹائر کئے جانے کے لئے درخواست دی ہے جوسی اے اے کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی آفیسرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری فیض اختر نے کہا ہے کہ انتظامیہ کو اس معاملے کو فوری طور پر حل کرنا چاہیے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان معاملات میں بگاڑ کی ذمہ داری چیف فنانس آفیسر خورشید احمد پر عائد ہوتی ہے۔

ان معاملات کی موجودگی میں جمہوری روایات کی پاسداری اور اداروں کو مستحکم رکھنے کے حکومتی اعلانات پر کیسے اور کون یقین کرے گا۔ یہ بات اپنی جگہ جواب طلب ہے۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی میں جاری بدانتظامی اور ایڈہاک ازم پر کئے جانے والے فیصلوں کی کہانی کوئی پہلا واقعہ نہیں، لیکن اگر حکمران اور ارباب اختیار چاہیں تو اسے آخری ضرور بنایا جا سکتا ہے۔ ایسا ہونا ممکن ہے یا یہ بھی ایک خواب رہے گا، ہم بھی دیکھتے ہیں، آپ بھی دیکھیں، لیکن تبدیلی کی کوشش شرط ہے۔
Shahid Abbasi
About the Author: Shahid Abbasi Read More Articles by Shahid Abbasi: 31 Articles with 29073 views I am a journalist , working in urdu news paper as a Health, cuurent affair, political and other related isssues' reporter. I have my own blog on wordp.. View More