بکھرتے معاشرے کی شیرازہ بندی اب بھی ممکن ہے!

قرآنِ حکیم کی سورۃ الحجرات(۴۹) کی آیت کی ترجمانی کچھ اس طرح ہوتی ہے :’’مومنو!سوئے ظن کی روشِ پیہم سے اجتناب کرتے رہو،یقینا سوئے ظن کے بعض( مظاہر) افعالِ عصیاں(گناہ کے دائرے میں آتے)ہیں۔نیز تجسّس(کے ذریعے کسی کی زندگی میں مداخلت) اور غیبت کے ذریعہ ایک دوسرے کے وقار کو(گھٹانے سے )گریز کیا کرو۔(بتاؤ تو سہی کہ)کون ہے تم میں ایسا جسے(خدا نخواستہ) بعد از مرگ خود اپنے ہی برادرِمتوفی کا گوشت مرغوب ہو جائے،(اُف !کہ اِس کے تصور ہی سے) تم خود کیسی کراہت محسوس کرتے ہو۔!(یہی کچھ توغیبت کہلاتی ہے!)۔

بہرصورت خشیتِ ایزدی کو تمہاری زندگی کا شیوہ بن جانا چاہیے( اوریہی شے تمہیں اِس گھناونے فعل سے باز رکھ سکتی ہے اور) اﷲ تعالےٰ بھی اپنی صفتِ رحیمی کے سبب تمہاری توبہ کو شرف ِ قبولیت عطا کرے گا۔‘‘(۱۲)

عموماً ہمارے معاشرے میں اِس نوع کی خطائیں ہر فرد سے باربار سرزد ہوتی رہتی ہیں۔سبب یہ ہے کہ انہیں معمولی شے سمجھا جاتا ہے اور یوں ان کا ارتکاب لاشعور ی طور پرمسلسل ہونے لگتا ہے۔چونکہ ہم ظاہر بیں مخلوق واقع ہوئے ہیں اس لیے ہماری نظر بھی بڑی محدود ہے۔ ہم دور تک نہیں دیکھ پاتے۔ چنانچہ ایسی خطاؤں کے جو اثرات ہمارے معاشرے پر مترتیب ہوتے ہیں وہ اصلاً بڑے دور رس ہوتے ہیں ۔ لیکن ہماری کم نظری کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ہم ان خطاؤں سے بچنے کی طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں کرتے۔لیکن یہ صرف قرآنِ حکیم کا اعجازہے جو انسانوں کو ان چھوٹی چھوٹی خطاؤں کی جانب توجہ مبذول کراتا ہے اور ان کے نتائج کی سنگینی کا ادراک کراتے ہوئے اس حقیقت کا انکشاف کراتا ہے کہ دراصل یہ چھوٹی چھوٹی خطائیں اپنے مضمرات کے اعتبار سے بڑی سنگین ہوتی ہیں۔ان سے بچنے ہی میں ہماری بھلائی ہے۔

انسانی دماغ کا یہ خاصہ ہے کہ وہ کبھی خاموش نہیں رہ سکتا ۔انسان اگر نیند کی آغوش میں نہ ہو توپھر کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جبکہ اُس کا دماغ کسی نہ کسی موضوع پر سوچنے میں مصروف نہ ہوتا ہو۔ضروری نہیں کہ وہ کسی تعمیری موضوع پرہی سوچے۔بہت ممکن ہے کہ اگر اسے کوئی تعمیری موضوع نہ دیا جائے تووہ طرح طرح کے وسوسوں کا شکار ہوجائے گا۔خود کو منفی و تخریبی خیالات کی آماجگاہ بنالے گا۔ مختلف النوع گمان،وسوسے، سوچ کی لہریں اور طرح طرح کے نظریات کو خلط ملط کرلے گا۔ کسی کے بارے سوچتے سوچتے ذہن کے پردے پر اُس کی ایک ایسی تصویر بنا لیگا جو فی الواقع اُس کی نہ ہو، اور اسی تصویر کو اپنے ذہن میں پختہ بنا لے گا۔یہی وہ مقام ہوتا ہے جب وہ لا شعوری طور پر گناہ کی سرحد میں داخل ہو جاتا ہے۔مالکِ یومِ الدین کی عدالت عالیہ میں ہر انسان کو لازماً کھڑے ہونا ہے۔اگر ایسی کسی منفی سوچ کا خدا نخواستہ ایک شدید ردّ عمل سامنے آ جائے اور ہمارا کوئی گمان، جسے ہم دنیا میں معمولی سمجھ کر انجام دیتے رہے تھے، ایک پہاڑ جیسا گناہ بن کر قابلِ گرفت بن جائے تو ظاہر ہے یہ سودا تو ہمارے لیے بڑا مہنگا سودا ثابت ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ انسانی دماغ کے کسی کونے میں کسی کے بارے میں کوئی منفی سوچ کی لہر اٹھتی ہے تو پھر وہ طرح طرح کے خیالاتِ خام اور وسوسوں پر ہی منتج ہو کر دم لیتی ہے۔وہ طرح طرح کے گمان کرنے لگتا ہے۔ متعلقہ شخص کے بارے میں برے جذبات اس کے دل میں گھر کر لیتے ہیں۔بغیر تحقیق اور جانچ پڑتال کے ایک ایسی تصویر ذہن کے پردے پر اُبھر آتی ہے کہ پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گمان کرنے والا شخص اپنی شخصیت کو مشتبہ بنا لیتا ہے اور یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں اس کی شخصیت کی تعمیر کا کام ٹھٹر کر رہ جاتا ہے۔ اس کا دائرہ اثراور لوگوں سے اُس کا تال میل روبہ تنزل ہونے لگتا ہے۔ اس کی دنیا محدود ہوجاتی ہے۔ اس کی کارکردگی متاثر ہوجاتی ہے۔ اس طرح ابتدا ء میں سرزد ہونے والی اُس چھوٹی سی منفی عادت کے منفی اثرات دور تک پھیلنے لگتے ہیں۔ اس دنیا میں کون ایسا شخص ہے جس میں کوئی کمی نہ ہو۔ہر انسان میں بہر حال کچھ نہ کچھ خامیاں اورکمیاں توضرور موجود ہوتی ہیں۔بقول شاعر ؂
نسیاں اور خطا کا پُتلا کیسے کہوں انساں ہے کامل (عزیز ؔ بلگامی)

لیکن کمیوں اور خامیوں کے ساتھ ساتھ ہر انسان میں خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔خامیوں کو نظر انداز کرکے،انسان کی اچھائیوں پر غور کیا جائے تو ایک خوشگوار اور صحت مندمعاشرہ وجود میں آ سکتا ہے،جہاں باہمی اعتماد کی فضا ہوگی،جہاں انسان ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں رسمی شرکت کے بجائے حقیقی شرکت کے قابل بن جائیں گے، ایک دوسرے کے ساتھ جذب و انجذاب کا معاملہ کریں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ جب بارش برستی ہے توزمین پر سوکھی مٹی کیچڑ میں بدل جاتی ہے اور آنکھوں کو بڑی بُری معلوم ہونے لگتی ہے لیکن ٹھیک اس وقت جب آسمان سے پھوار برس رہی ہو اور دفعتاً سورج بھی بادلوں میں سے کہیں سے جھانک لیتا ہے تو دلفریب رنگوں کی ایک خوب صورت کمان آسمان پر اُبھرآتی ہے جسے عرفِ عام میں قوسِ قزح یاRain bow کہتے ہیں۔یہ نظارہ بڑا دلربا ہوتا ہے۔زمین پر کیچڑ اور آسمان پر دلفریب منظر۔اب یہ نظارہ کرنے والے کی مرضی(یا اُس کے ظرف )کی بات ہے کہ وہ کس چیز کا نظارہ کرتا ہے، کیچڑ کا یا قوسِ قزح کا!

بہر کیف کیچڑ کے ساتھ قوسِ قزح، پھولوں کے ساتھ کانٹے، اچھائی کے ساتھ برائی، خیر کے ساتھ شر،یہ سب اُس نظام کا حصہ ہیں جسے خود ربّ کائنات نے تخلیق فرمایا ہے۔ دنیا میں دونوں چیزیں لازماً رہیں گی اور ساتھ ساتھ چلیں گی۔اسی صورتحال میں انسانی مزاج کی تربیت مقصود ہے اور تربیت یہ ہے کہ مثبت و منفی پہلوؤں میں سے صرف مثبت کا انتخاب کیا جائے۔کانٹوں سے دامن بچایا جائے اورپھولوں سے خوشبو حاصل کی جائے۔

کوئی واقعہ ہو، کوئی مظاہرہ ہو،نظر شر پر نہیں خیر پر مرتکز ہوجائے۔یہاں تک کہ شر میں سے خیر ہی کو بر آمد کرنے کی کوشش کی جائے۔صرف منفیات کو ہی نہ دیکھا جائے،صرف خامیوں پرہی نظرنہ ہو۔یہ صحت مند سوچ نہیں کہ ہم تخریب کی جانب متوجہ ہو جائیں۔منفیات کے مقابلے میں مثبت کو، خامیوں کے مقابلے میں خوبیوں کو اور تخریب کے مقابلے میں تعمیر کو منتخب کرنے کا ایک عملِ مسلسل جاری ہو جائے۔اس طرح دنیا میں تعمیری کام کی امید کی جاسکتی ہے۔کتاب اﷲ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ کس طرح یہ انسانیت کے لیے ہدایت کے سامان فراہم کرتی ہے اور کس طرح وہ گمراہی سے بچا کر ہدایت کے راستے پر ڈال دیتی ہے۔ایک صحت مند سوچ کی اورتعمیرِ شخصیت کی بس یہیں سے سبیل ممکن ہے۔اکتالیسویں سورۃ کی چوتیسویں آیت میں ارشاد فرمایا گیا:’’نیکی اور بدی، خیرا ور شر،اچھائی اوربرائی،مثبتPositive اور منفیNegative میں کوئی مماثلت اور مناسبت ہوسکتی ہے۔! ہر برائی، ہر منفی اور ہر Negativeرجحان کا علاج اور اس کا سدِّباب صرف اور صرف احسن طریقے ہی سے ممکن ہے۔‘‘

اسی نوع کی بات پینتیسویں سورۃ کی بارھویں آیت میں بھی ارشاد فرمائی گئی :’’۔۔اور کیامماثلت ہوسکتی ہے سمندروں کے اُن دو رواں آبجوؤں کے مابین جو (بظاہرایک دوسرے کے) پہلو بہ پہلو بہتی ہیں، تاہم ان میں سے ایک آبِ شیریں ہے جو تشنگی کو بجھادیتی ہے اور دوسری وہ ہے جو اپنے موجِ تلخ سے منہ کا مزہ بگاڑ دیتی ہے،(یہ الگ بات کہ)دونوں ہی پانیوں سے گوشت(جیسی لذیذ غذا کی فراہمی کاسلسلہ)جاری رہتا ہے،(یہاں تک کہ اِن ہی پانیوں سے)تم اپنی زیب و زینت کے لیے گوہرِ گراں مایہ بھی ڈھونڈ نکالتے ہو۔‘‘

کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنا،اس کی کمیوں، کمزوریوں اور برائیوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرنا،اس کے پوشیدہ رازوں کو جاننے کی کوشش کرنا،پھراس نوع کی معلومات کے حصول کے بعد دوسروں کے سامنے انہیں ظاہر کرنا، یہ اوراس طرح کی تمام حرکتیں اپنے آپ میں گھناونی تو ہیں ہی ، لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے رب نے انہیں سخت ناپسند فرمایا ہے اور اخلاق سے گری ہوئی ان حرکتوں کے ارتکاب سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔جس قدر ممکن ہو سکے ہمیں ان سے بچنے کی کوشش کرنا چاہیے۔نیز ان سے اجتناب کی تاکید ہمیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے بھی فرمائی ہے۔بخاری شریف کی جلد د وم کتاب الادب کی ایک حدیث کا ترجمہ ہے:’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا!بدگمانی سے بچتے رہو،بدگمانی سخت جھوٹ ہے اور کسی کی ٹوہ میں نہ پڑواور جاسوسی نہ کرواور کسی کا عیب نہ ٹٹولو،حسد نہ کرو، بغض اور دشمنی چھوڑدو، ایک دوسرے سے ملنا جلنا بند نہ کرو، اﷲ کے بندے بن کر بھائی بھائی کی طرح میل ملاپ اور محبت سے رہو۔‘‘

ہم اپنی عادتوں کے ان منفی پہلوؤں کومثبت رُخ دے سکتے ہیں اور اسی راہ سے ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ ہم اپنی ذات کو انسانوں کے لئے نفع بخش اورفائدہ مندبنا سکیں گے۔چنانچہ ضروری ہے کہ اپنی سوچ پر ہم ضروری چیک Check لگائیں تاکہ عظیم مقاصد کا حصول ممکن ہو سکے۔ وقتی اور عارضی لذتوں اور نجی فائدوں کو تج دینااس چیک کی علامت ہے جو بالآخر فوزِ عظیم کے لئے شاہ کلیدثابت ہوسکتی ہے۔ یہ وہ نکات ہیں جن پر عمل آوری ہمیں بے ضرر بنا سکتی ہے۔ہمارے اطراف کے لئے ہم بے ضرربن جائیں اورہمارا معاشرہ ہمارے وجود کو باعثِ سعادت سمجھنے لگے تو اس سے زیادہ ہمارے لیے وجہِ سعادت امر اور کیا ہوگا۔ خصوصاً وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا،جس کی ترجمانی ان الفاظ میں زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے:’’اور غیبت(کے ذریعہ کسی کے وقار کوملیامیٹ کرنے سے)گریز کیا کرو۔‘‘کسی شخص کی غیر موجودگی میں،اس کی کوئی برائی بیان کی جائے،یافقرے کسے جائیں تو یہ کتاب اﷲ کی رُو سے اس قدر سنگین و شدید گناہ ہے کہ اس کا اندازہ کرنے کے لیے وہ تمثیل کافی ہے جس کو زبان سے ادا کرنے سے بھی گھِن آتی ہے۔یعنی کہا گیا کہ یہ عمل اپنے مردار بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ایک صحت مند سوچ کے حامل انسان کے لیے یہ تمثیل غیبت اور پیٹھ پیچھے برائی کی کراہیت کو محسوس کرانے کے لیے حد درجہ کافی ہے۔ حدیث شریف کی مشہور کتاب’ ’مؤطا امام مالک‘‘میں غیبت کے تعلق سے ہمیں ایک حدیث ملتی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:’’ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم سے پوچھا،غیبت کیا ہے؟آپؐنے اِرشاد فرمایا:’تم کسی شخص کا ذکر اس طرح کروکہ وہ سنے تو اسے ناگوار ہو ۔ اس پر اُس نے پھر پوچھا:’یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم!اگرچہ میری بات سچ ہی کیوں نہ ہو؟آپؐنے جواب میں ارشاد فرمایا!’ہاں،تیری بات سچ ہی کیوں نہ ہو! اور(جس عیب کو تواُس سے منسوب کر رہا ہے)اگر اس شخص میں یہ عیب نہ ہو تو پھرتویہ اس سے بھی بڑا گناہ ۔ بلکہ صریح بہتان بن جائے گا!‘‘

کتاب اﷲ کے ان احکامات اور فرمانِ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم سے واقف ہونے کے بعد ،ایک ایماندارمعاشرے کے لئے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس معاشرے کا ہر شخص اپنے اندر سے بظاہر ان چھوٹی عادتوں کو معمولی تصور نہ کرتے ہوئے انہیں بھی دور کرنے کی کوشش میں لگ جائے۔ اپنی کمزوریوں پر مسلسل نظر رکھے۔ حق تو یہ ہے کہ ہمیں توبہ اور استغفار کی مستقل ضرورت ہے۔کیوں کہ سچی توبہ ماضی کے گناہوں کو دھو دیتی ہے۔آدمی اپنی کمیوں کی پہچان اور جستجو میں مصروف ہو جائے تولازماًدوسروں کی کمیاں دیکھنے کا اُس کے پاس وقت ہی نہیں رہے گا۔چوتھی سورۃ کی اکتیسویں آیت میں رب تعالےٰ کا ہم سے وعدہ ہے :’’اگر تم منع شدہ بڑے گناہوں سے اجتناب کروگے توہم تمہاری لغزشوں کو معاف کرتے ہوئے بیتِ کریم میں تمہارے داخلے کو ہم یقینی بنا دیں گے۔‘‘

آج ہی بلکہ اسی لمحہ ہم فیصلہ کریں کہ ہمیں اپنی ذات کامحاسبہ کرنا ہے۔اس تیز رفتار زندگی میں چند سیکنڈ رک کرسوچنے کی ضرورت ہے۔اپنے مالک، اپنے پالنہار سے آج ہی معافی مانگ لیں،تَوْبَۃً نَّصُوْحاًکے تحت اسے دہرانے کی کوشش نہ ہو۔ اپنی شخصیت کو کتاب اﷲ کی آیات کا نور بخشیں اورکرنے اور نہ کرنے کے کاموں Do's or Don'ts کی فہرست کے بارے میں باشعور بن جائیں اور مستقلاً اپنی عادات کونظر میں رکھتے ہوئے اپنی ذات کے اُفق سے اپنے کردار کا ایک ایسا سورج طلوع کروائیں کہ جس کی روشنی چہار دانگِ عالم پھیل کر انسانوں کو ضلالت و گمراہی کے اندھیروں سے باہر نکال لائے۔

کہاں ہیں ایسے با کردار خوش بخت لوگ، جنہیں فی الواقع اپنی ’عادتوں‘ کو بدلنے فکر لاحق ہے۔؟
Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 83258 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.