15 مئی کو عالمی سطح کے اوپر
عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور عورتوں کو ان کے حقوق دینے
کی بات کی جاتی ہے اور عورت پر ہونے والے مظالم کی روک تھام کی بات کی جاتی
ہے اور بلاشبہ کی بھی جانی چاہیے ہے کیوں کہ عورت انسانی معاشرہ کا اہم جزو
جو کہ ہمارے حال کی کامیابی کی ضامن اور ہمارے مستقبل کی محافظ ہے اسی لئے
تو کہتے ہیں ’’ وجود زن سے ہے تصویر کائینات میں رنگ ‘‘ عورت جو کبھی بچی
کبھی بہن کبھی بیٹی کبھی ماں اور کبھی بیوی کے روپ میں ہماری زندگی میں رنگ
بھرنے میں مصروف ہوتی ہے اور بلا شبہ عورت کے نا ہونے سے ہمارا معاشرہ نا
مکمل ہے ۔
موجودہ موجودہ زمانہ میں عورتوں کے حقوق کے حوالہ سے اسلام کو بھی بدنام
کرنے کی سازشیں کی جاتی ہیں حانکہ اسلام سے قبل کے معاشروں میں عورت کو وہ
مقام قطعاً حاصل نہیں تھا جو کہ آج کی عورت کو حاصل ہے ۔ اور پرانی تہذیبوں
میں جو عورت کو حقارت اور ذلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اس کے ثبوت میں
قرآن کریم کی ایک آیت کا حوالہ دیتا ہی کافی سمجھتا ہوں جیسا کہ خدا تعالیٰ
قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔
’’جب تم میں سے کسی کو عورت کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس خبر کو سن پر اس
کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے‘‘
پرانے معاشروں میں عورت کو پاؤں کی جوتی اور اپنی جنسی تسکین کا ایک زریعہ
گردانا جاتا تھا اس کے علاوہ عور ت کی ایک زرہ کی حیثیت نہیں تھی مگر اسلام
نے عورت کو وہ مقام دیا جس کی عورت حق دار تھی۔ اسلام نے جو مقام عورت کو
دیا عالم انسانیت میں آج تک کوئی مذہب و ملت نہ دے سکا ۔ اسلام نے عورت کے
بارے میں صرف سرسری ہدایات نہیں دیں ہیں بلکہ ان کا ذکر تفصیلی طور پر کر
دیا ہے تا کہ عورت کی عزت اور قدر و منزلت میں کسی قسم کا ابہام پیدا نا ہو
جائے ۔ اسلام نے عورت کو معاشرہ کا ایک قابل عزت جزو قرار دیا ہے اور عورت
و مرد کو ایک مقام پر لا کر کھڑا کیا ہے اگر عورت کے فرائض مقرر کئے ہیں تو
عورت کے حقوق بھی متعین کئے ہیں ۔ اور قرآن کی ایک سورۃ کا نام ہی النساء
رکھا گیا ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن کی سورہ التحریم میں خدا تعالیٰ نے
مومنوں کی مثال دو عورتوں (آسیہ زوجہ فرعون اور حضرت مریم )نے دی ہے ۔
ہمارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’ عورتیں مردوں کی ہم جنس و نسل ہیں‘‘
تاکہ ان سے کسی طور پر نسلی امتیاز نا کیا جائے ۔
اسلام نے تو عورت کو شرعی احکام کی روح سے بھی مردوں کی طرح قرار دیا ہے
چنانچہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورہ النساء میں فرمایا ہے ’’ اور جو
نیک کام کرے گا ۔ مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان بھی ہوگا تو ایسے لوگ
جنت میں داخل ہوں گے اور انکی تل برابر بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی‘‘
بچیاں اور بچے عطاء کرنا خدا تعالیٰ کا کام ہے خدا تعالیٰ کسی کو بیٹا عطاء
فرماتا ہے کسی کو بیٹیاں اور کسی کو ملی جلی اولاد عطا فرماتا ہے اور کسی
کو ساری عمر کے لئے بانجھ بنادیتا ہے اسلام سے قبل جس کے گھر میں بیٹی پیدا
ہوتی تھی اس کی کیفیت ماتم کی سی ہوتی تھی اور بچی کو پیدا ہوتے ہی زندہ
درگور کردیا جاتا ہے ایسے ظالمانہ واقعات سے تاریخ کے صفحات اٹے پڑے ہیں
مگر بانی اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا ۔’’ جس کے بچی پیدا ہوئی اور
اس نے اسے زندہ درگور نہیں کیا ، اس کی اہانت و تحقیر نہیں کی اور نہ ہی
لڑکے کو اس پر ترجیح دی اﷲ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا ‘‘
اسلام نے تو عورت کی پیدائش سے لیکر وفات تک عورت کے ہر روپ میں اس کی
حفاظت فرمائی ہے
٭عورت بطور بچی ۔
اگر عورت بطور بچی ہے تو بانی اسلام حضرت محمد ﷺ نے یہ فرما کر اس کے حقوق
کی حفاظت کی ہے ’’ جس نے دوبچیوں کی پرورش کی یہاں تک کے وہ بلوغت کو پہنچ
جائیں(نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں کو جوڑ کر فرمایا) وہ قیامت
کے دن جنت میں یوں میرے ساتھ ہو گا ۔
اور مزید فرمایا۔’’ جس کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کے معاملہ میں صبر کرے
اور اپنی کمائی سے انہیں کپڑا پہنائے اور کھلائے پلائے وہ اس کے لئے جہنم
کی راہ میں دیوار بن جائیں گی ۔
٭عورت بطور ماں۔
عور کے بطور ماں مقام کو بانی اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ نے یہ فرما کر بیان
کیا ہے آپ فرماتے ہیں
ماں کے قدموں تلے جنت ہے
جب نبی کریم ﷺ سے کسی سوال کرنے والے نے دریافت کیا حضور میرے حسن سلوک کا
سب سے ذیادہ حق دار کون ہے آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں سوال کرنے والے نے
پھر پوچھا اس کے بعد آپ نے پھر فرمایا تیری ماں سوال کرنے والے نے پھر
پوچھا حضور اس کے بعد پھر آپ ﷺ نے فرمایا تیرا باپ۔
٭عورت بطور بیوی۔
معاشرہ میں عورت کا ایک روپ بیوی کے طور پر بھی ہے نبی کریم ﷺ نے عورت کے
بطور بیوی حقوق کی حفاظت کے بارے میں فرمایا ’’ خبردار عورتوں سے حسن سلوک
اور اچھا برتاؤں کرو وہ اﷲ کی طرف سے تمہارے زیر دست ہیں اور تمہاری کنیزیں
ہیں۔ آپ ﷺ نے مزید فرمایا ۔ زیادہ کامل الایمان وہ ہے جو سب سے زیادہ حس
اخلاق والا ہے اور تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر کی عورتوں کے
لئے اچھا ہے
٭عورت بطور بہن۔
معاشرہ میں عورت کا ایک روپ بطور بہن بھی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ اگر
کسی کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہیں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا
ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا ۔
٭عورت کی معاشرتی حیثیت۔
معاشرتی لحاظ سے بھی اسلام نے عور کے حقوق کی بھر پور طرق پر حفاظت کی ہے۔
ان کے حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے انہیں نکاح،خلع میں آزادی دی ہے اور
کسی قسم کی زبردستی کی سختی سے ممانعت کی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ عورت کو
ایک قابل اعتماد شخصیت قرار دیا ہے خود نبی کریم ﷺ بہت سے معاملات میں اپنی
ازواج سے مشاورت فرمایا کرتے تھے ۔
٭اقتصادی تحفظ۔
اسلام نے عورت کا اقتصادی تحفظ بھی کیا ہے اور یہ وہ تحفظ ہے جس کی مثال
ہمیں اسلام سے قبل کسی بھی مذہب و ملت میں نہیں ملتی ہے اسلام نے اس کو
جائیداد میں حق دیا ہے اور بطور ماں، بیوی، بیٹی، بہن،اس کے نان و نفقہ کی
ذمہ داری بھی لی ہے ۔
الغرض اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے عورت کا ہر روپ میں ساتھ دیا ہے
اسے ہمشہ عزت کا مقام دیا ہے مگر پھر بھی آج کے اس دور میں دشمنان اسلام
،اسلام کو عورتوں کے حقوق کو نہ دینے والا گردانتے ہیں تو اسلام کے اوپر اس
الزام کے لگنے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔
٭مغربی معاشرہ اسلام سے بغض رکھتا ہے اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش
کررہا ہے۔
٭ہم نے خود اسلام کی روح کے مطابق عورت کو مقام نہیں دیا ہے جس کی وہ حق
دور تھی ۔
اگر ہم بچیوں کو تعلیم سے خود روک رہے ہوں اگر ہماری والدہ اپنے ہی گھر میں
نوکرانیوں کی سی صورتِ حال میں ہو یا ہم نے اپنی والدہ کو اولڈ ہاؤس میں
پہنچا دیا ہو یا اگر ہم اپنی بیوی پر تشدد کررہے ہوں اور اپنی بہن کو
جائیداد میں سے اس کا حصہ نہیں دے رہے ہیں تو کیا ہمارا طرزِ عمل اسلام کے
مطابق ہے۔؟ |