ٹیٹرھی پسلی

کسی نے کیا خوب کہاہے کہ عورت مرد کی ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے ۔ اس لیے وہ سیدھی بات کا مطلب بھی اپنی مرضی کے مطابق ٹیڑھا ہی لیتی ہے ۔اس سے کبھی اظہار محبت کیا جائے تو وہ اس کا الٹ مطلب لیتی ہے اور اگر اس کی بات سے اختلاف کیاجائے تو یہ سمجھ لیتی ہے کہ کوئی اور عورت بھی زندگی میں آچکی ہے جس کی چاہت نے شوہر کی توجہ اور رائے بدل کے رکھ دی ہے ۔عورتیں تو زندگی میں بے شمار ملتی ہیں لیکن ساری عمر شاید ایک ہی بیوی پر گزارا کرنا پڑتا ہے ۔ وہ جیسی بھی ہے جو کرتی ہے اور جو نہیں کرتی اسے ہی ہر حال میں اس لیے قبول کرنا پڑتا ہے کہ اس کی ہتھیلی پر پورا گھر ہوتا ہے ۔وہ جب چاہے گھر میں طوفان اٹھا دے وہ جب چاہے آسمان گرا دے ۔ اسے اپنے ہر فیصلے پر یقین سے زیادہ عمل کرنے کا اختیار ہوتا ہے ۔ بچوں کی زیادہ توجہ بھی اس لیے ماں کی جانب ہی ہوتی ہے کہ اولاد تصورکرکے بچوں کی ہر خامی کو وہ خوبی تصور کرکے ان کے عیب اور خامیوں اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے ۔اس کا صلہ بچے کچھ اس طرح دیتے ہیں کہ باپ کی بات کو سنی ان سنی کرکے اپنی تمام تر وفائیں اور محبتیں ماں کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں اور باپ بھری دنیا میں اپنی تمام تر قربانیوں کے باوجود خود تنہا کھڑا محسوس کرتا ہے ۔

اس کے باوجود کہ مذہب ہمیں چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے لیکن جہاں ایک نہیں سنبھالی جاتی وہاں چار کو اکٹھاکرنا خود کشی کے مترادف قرار دیا جاتا ہے ۔ایک شخص بہت پرانے ٗ بوسیدہ پھٹے ہوئے کپڑے پہن کر بیس پچیس سال پہلے رسالے بانٹنے دفتر آیا کرتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں بہت میلا کچیلا تھیلا ہوتا جس میں اس نے تقسیم کرنے کے لیے رسالے رکھے ہوتے ۔ اس کے بال اور داڑھی گرد آلود ہوتی ۔چہرے پر غربت کے آثار واضح دکھائی دیتے لیکن جب بھی وہ بات کرتا تو مسکراہٹ اس کے لبوں پر دوڑنے لگتی۔میں نے کبھی اس کی اس کیفیت پر غور نہیں کیا تھا ۔ ایک دن مجھے قریب ہی بیٹھے ہوئے یوسف صاحب نے بتایا کہ اس شخص نے تین شادیاں کررکھی ہیں اور تینوں بیویاں حیات اور حاضر سروس ہیں ۔ یوسف صاحب کی بات سن کر میں ششدر رہ گیا اور اس گرد آلود شخص کو حیرت کی نگاہ سے دیکھنے لگا۔پھر مجھے خیال آیا کہ شاید یہ بات مذاق کے انداز میں کہی گئی ہو کیونکہ مہنگائی کے دور میں تو ایک بیوی کے ناز نخرے نہیں اٹھائے جاتے تو یہ شخص جو ڈھنگ کے صاف ستھرے کپڑے بھی نہیں پہن سکتا وہ تین تین بیویوں کے فرمائشیں اور مطالبات کیسے پورا کرتا ہوگا ۔میں نے دوبارہ پوچھا کہ آپ مذاق کررہے ہیں ۔ یوسف صاحب نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا آپ خود اس شخص سے بات کرلیں ۔یہ اپنی زبان سے آپ کو اپنی زندگی کی کہانی سنا ئے گا ۔

میں نہایت ادب کے ساتھ اس شخص مخاطب ہوا کیونکہ عمر میں بھی وہ مجھ سے کچھ بڑا تھا پھر اسلامی طرز زندگی نے اسے مجھ پر برتری دلا رکھی تھی۔ میں ایک عام سا مسلمان ہوں اور اپنی شکل وجاہت کے ساتھ زیادہ مذہبی دکھائی نہیں دیتا لیکن اﷲ سے ڈرنے والوں اور نبی کریم ﷺ سے محبت کرنے والوں میں شمار ضرور ہوتا ہے ۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اس شخص سے پوچھ ہی لیا کہ حضرت میں نے سنا ہے آپ کی تین بیویاں ہیں ۔ میرے الفاظ ابھی زبان سے پوری طرح ادا بھی نہیں ہوئے تھے کہ وہ شخص بول پڑا ۔ ہاں اﷲ کا کرم ہے میری تین ہی بیویاں ہیں ۔ میں نے اگلا سوال پوچھا کہ بیوی تو ایک ہی کافی ہوتی ہے پھر آپ نے مہنگائی کے اس دور میں اتنا اہتمام کیسے کر رکھاہے ۔کیا وہ آپس میں لڑتی نہیں ہیں کیا وہ اپنے مالی مطالبات منوانے کے لیے آپ پر دباؤ نہیں ڈالتیں ۔ آپ کتنی تنخواہ لیتے ہیں او ران کے اخراجات کیسے پورے کرتے ہیں ۔ اس نیک بخت شخص نے بتایاکہ میں صرف ایک ہزار روپے تنخواہ لیتا ہوں تین تین سو روپے ہر بیوی کی ہتھیلی پر رکھ کر ایک سو روپے اپنی جیب میں ڈال لیتا ہوں ۔یہ پیسے لے کر بیویاں مہینے بھر مجھ سے دوبارہ پیسوں کا تقاضا نہیں کرتیں ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میری جزوقتی ملازمت تین گھنٹے کا معاوضہ بھی تین سو روپے ہی ہوا کرتا تھا۔میں نے پوچھا کہ وہ تین سوروپے میں کیسے گزار ا کرتی ہوں گی ۔ اس نے بتایا کہ میں آلوؤں کی بوری منڈی سے خرید لاتا ہوں جو مجھے چالیس پچاس روپے کی مل جاتی ہے پھر اسی طرح کچھ دالیں کلو کے حساب سے خرید کر انہیں الگ الگ دے دیتا ہوں جب ان کا دل چاہتا ہے وہ آلوؤں کی بھجیا پکا لیتی ہیں اور جب چاہتی ہیں دال پکا کر مزے مزے سے کھانے لگتی ہیں گوشت مہینے میں ایک یا دو بار ہی پکتا ہے جب تنخواہ ملتی ہے ۔ میں تینوں کامہمان ہوتا ہے جہاں مجھے اچھا لگتا ہے میں وہاں کھاتا ہوں ۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ میں ان تینوں میں سے کسی کو بھی کم یا زیادہ محبت کا احساس نہیں ہونے دیتا ۔ ان میں سے ہر ایک یہی سمجھتی ہے کہ اس کے حصے کی محبت کسی دوسری کو حاصل نہیں ہے ۔ میں نے پوچھا کیا وہ آپس میں لڑتی نہیں ہیں ۔ یا کبھی انہوں نے کسی بات پر آپ پر غصہ بھی نہیں کیا ۔میری بات پر وہ مسکرائے اور کہاکہ کبھی کبھار تو برتن بھی آپس میں ٹکرا جاتے ہیں ۔ لیکن ان میں سے جب کوئی غصے میں ہوتی ہے اوراس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر میں اس کے بہن بھائیوں کی تعریف کرنا شروع کردیتا ہوں ۔ اپنے میکے کی تعریفیں سن کر پہلے تو وہ تلملاتی ہیں لیکن کچھ ہی دیر بعد نارمل ہوجاتی ہیں ۔ یہ ایسا مجرب نسخہ ہے جو میں اپنی تمام بیویوں پر آزما چکا ہوں اور بہت کامیاب جارہاہے ۔میں نے مزید پوچھا کہ آپ کی زندگی قابل رشک نہیں ہے آپ ایک سیدھے سادھے سے شریف النفس انسان ہیں نہ آپ نے کبھی کوٹ پتلون پہنی نہ آپ کی ملازمت ہی دوسروں سے برتر دکھائی دیتی ہے پھر آپ کے پاس سائیکل کے سواکوئی سواری بھی نہیں ہے ۔پھر یہ تین عورتیں یکے بعد دیگر کس طرح آپ پر فریفتہ ہوگئیں ۔میری بات سن کے وہ مسکرائے اور بولے میں اسی عورت کو شادی کی دعوت دیتا ہوں جس کا کوئی نہ کوئی پرزہ خراب ہوتا ہے اور وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں بھی اجنبیت محسوس کرتی ہے ۔اس کے لیے رشتے کا ملنا محال ہوتا ہے ۔ وہ والدین کی دہلیز پر بیٹھے بیٹھے بال سفید کرلیتی ہیں لیکن سرخ جوڑا پہننے کا شوق حقیقت کا روپ کبھی دھارتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ میں ایسے مواقعوں کی تلاش میں رہتا ہوں۔ مجھے جہاں بھی پتہ چلتا ہے کہ اس گھر میں ایک عورت کسی جسمانی نقص کی وجہ سے شادی کی منتظر بیٹھی ہے میں وہاں پہنچ کر اس کے والدین سے شادی کی درخواست کرتا ہوں والدین پہلے ہی ایسے پیغام کے منتظر ہوتے ہیں چنانچہ وہ میری مالی حالت کو صرف نظر کرتے ہوئے فورا ہاں کردیتے ہیں اس طرح میرا کام بن جاتاہے ۔میری پہلی بیوی کی ایک آنکھ خراب ہے تو دوسری بیوی کے کان بند ہیں اسے کچھ سنائی نہیں دیتا ۔ تیسری بیوی گونگی ہے۔ اس لیے میں ان کو جس حالت میں بھی رکھتا ہوں وہ صبر شکر کرکے خاموشی سے رہتی ہیں اور میرے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر آسانیاں پیدا کرتی ہیں ۔وہ آپس میں بھی بہنوں کی طرح رہتی ہیں اور اگر کبھی کوئی اختلافی مقام آ بھی جاتاہے تو وہ اس ڈر سے درگزر کرتی ہیں کہ میں جھگڑا کرنے پر انہیں والدین کے گھر نہ چھوڑ آؤں جہاں وہ اپنے ہی بہن بھائیوں کے طعنوں کی زد میں ہوتی ہیں ۔ اس نے ایک بات اور کہی کہ چاہے تنکوں کا گھر ہو نیک سیرت عورت اسی گھر کو اپنا شیش محل تصور کرلیتی ہے لیکن ماں باپ کا گھر چونکہ پرایا ہوجاتا ہے اس لیے دانش مند عورتیں والدین کے گھر کی جانب بہت کم دیکھتی ہیں اور جو دیکھتی ہیں وہ اپنے شوہر کے گھر کو جنت نہیں بنا سکتیں ۔

اس حیرت انگیز شخص کی باتیں ابھی ذہن میں گردش کرہی رہی تھیں کہ مجھے ایک کام کے سلسلے میں لاہور کی مشہور شاہراہ "سرکلر روڈ " کے نصرت پریس جانا پڑا۔ وہاں پہنچا تویہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ نشست پر ایک بڑی عمر کے سرخ و سفید رنگ کے انسان بیٹھے تھے جو ہر دس پندرہ منٹ بعد فون اٹھاتے اورکسی سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ میں اس وقت اپنے دفتر میں ہوں اور خیریت سے ہوں ۔ فون بند کرکے تو وہ دوبارہ کام میں مصروف ہوجاتے ۔ میں نے دو تین مرتبہ انہیں ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو حیران ہوا کہ وہ آخرکس کو فون کرتے ہیں اور ان کو کیوں وضاحت دینی پڑتی ہے ۔میں نے پریس میں کام کرنے والے لڑکے سے پوچھا کہ منیجر بار بار کسے فون کرکے پریس میں اپنی موجودگی کی اطلاع دیتے ہیں ۔ لڑکے نے بتایا جناب آپ کونہیں پتہ انہوں نے دو شادیاں کررکھی ہیں اگر یہ فون نہ کریں تو ایک بیوی سمجھتی ہے کہ یہ دوسری بیوی کے پاس جا پہنچے ہیں اور اگر دوسری کو فون نہ کریں تو وہ سمجھ لیتی ہے کہ یہ پہلی بیوی کے گھر میں ہیں ۔ اس لیے دن میں درجنوں بار انہیں یہ وضاحت کرنی پڑتی ہے کہ وہ کسی کے پاس نہیں پریس میں کام کررہے ہیں ۔ ان صاحب کا نام نازش کاشمیری تھا ۔وہ بہت اچھے شاعر تھے بلکہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہوں نے پنجابی زبان میں کئی جنگی ترانے بھی لکھے تھے وہ بہت بارعب شخصیت کے مالک تھے لیکن بیویوں سے بہت ڈرتے تھے ۔

ان لوگوں کی باتیں اور حرکتیں دیکھ کر واقعی احساس ہوتا ہے کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے بنی ہے کیونکہ جب یہ کچھ کرنے پر آتی ہے تو کائنات کی کوئی چیز ان کے راستے کی دیوار نہیں بنتی ۔وہ طوفانوں سے ٹکرا سکتی ہے وہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریامیں کچے گڑھے پر کود سکتی ہے وہ تپتے ہوئے صحرا میں محبوب کوملنے کے لیے ننگے پاؤں دوڑ سکتی ہے لیکن معمولی سی بات پر وہ اس قدر خفا ہوتی ہے کہ دوبارہ صحیح حالت میں آنے میں مدت لگا دیتی ہے ۔ بے شک اﷲ تعالی نے عورت کو مرد کے دل کا سکون قرار دیاہے لیکن یہ سکون اسی وقت تک سکون رہتا ہے جب تک وہ خود چاہتی ہے جب وہ بگڑنے لگتی ہے تو زمین کو آسمان پر ملا دیتی ہے اور آسما ن کو زمین پر گرا دیتی ہے۔ شوہر کی ہر اچھی بات کو بھول کر اس کی تمام تر خامیوں کاانسائیکلوپیڈیا بنا کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دیتی ہے۔ اس لمحے شوہر کی حالت واقعی دیدنی ہوتی ہے کیونکہ جو باتیں اس نے پیار بھرے ماحول میں مزید رنگ بھرنے کے لیے بتائی ہوتی ہیں وہی باتیں عمر کے آخری حصے میں طعنے بن کر تعاقب کرنے لگتی ہیں بلکہ یوم حساب ثابت ہوتی ہیں ۔

بزرگوں نے کیا خوب کہاہے کہ انسان کو اپنے دل کی بات بیوی کونہیں بتانی چاہیئے ۔گھر میں بیری کا درخت نہیں لگانا چاہیئے اور پولیس والے سے دوستی بھی نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ ان تینوں چیزوں پر اعتبار نہیں کیاجاسکتا ۔ ایک شخص نے بزرگوں کی اس بات کو جانچنے کی جستجو کی ۔ اس نے اپنے گھر میں بیری کا درخت لگایا۔ پولیس والے سے گہری دوستی کرلی ۔ ایک دن بہت رازداری کے انداز میں اپنی بیوی کو بتایا کہ میں نے ایک شخص کو قتل کردیا ہے اور اس کا سر کپڑ ے میں لپیٹ کر اپنے گھر کے کونے میں چھپا دیا ہے کسی کو اس بات کی خبر نہیں ہونی چاہیئے۔ بیوی نے راز داری رکھنے کی حامی تو بھر لی لیکن اس کے پیٹ میں وہ بات ہضم نہ ہوسکی ۔ ایک دن جب اس کے گھر میں محلے کی دوسری عورتیں آئی ہوئی تھیں تو اس نے خوفزدہ لہجے میں بتایا کہ میرا شوہر تو کسی کا قتل کرآیا ہے اور اس نے گھر کے ایک کونے میں مقتول کا سر چھپا رکھا ہے۔سننے والی عورتوں نے یہ بات اپنے اپنے مردوں کو بتا دی ۔مردوں نے اس بات کی خبر تھانے میں کردی ۔ پھر وہی پولیس والا جو اس شخص کا جگری دوست تھا اور صبح وشام گھر میں بھائیوں کی طرح آتا جاتا ۔ ہتھکڑی لیے دروازے پر دستک دے رہا تھا ۔دوست نے آواز دے کر اسے اندر آنے کے لیے کہا ۔ پولیس والے نے رعب دار آواز میں جواب دیتے ہوئے کہا میں تمہارا دوست نہیں ہوں میں پولیس والا ہوں اور اپنا فرض نبھانے اور تمہیں قتل کیس میں گرفتار کرنے آیا ہوں ۔تم باہر آؤ تاکہ میں تمہیں گرفتار کرسکوں ۔ وہ شخص عجلت میں اٹھا کر دروازے کی طرف چلا تو سر پر رکھی ہوئی دستار ( پگڑی) بیری کے درخت میں الجھ گئی اور وہ ننگے سر باہر نکلا ۔ سامنے اس کا جگری دوست پولیس مین ہاتھ میں ہتھکڑی لیے کھڑا اسے گھور رہا تھا ۔اس نے کہا تم میرے جگری دوست ہو سارے محلے کے سامنے ہتھکڑی نہ لگاؤ۔ میں تمہارے ساتھ تھانے چلتا ہوں لیکن دوست کی بات کا پولیس والے کوئی اثر نہیں ہوا اس نے ہتھکڑی لگالی اور گھسٹتا ہوا تھانے لے آیا ۔ تھانیدار نے رعب دار آواز میں پوچھا کیا تم نے قتل کیا ہے ۔اس نے جناب میں نے کوئی قتل نہیں کیا ۔ میں بزرگوں کی اس بات کی حقیقت جاننا چاہتاتھا ۔جو انہوں نے کہی تھی کہ بیوی کودل کی بات نہیں بتانی چاہیئے گھر میں بیری کادرخت نہیں لگانا چاہیئے اور پولیس والے سے دوستی نہیں کرنی چاہیئے ۔

میں اس کی سچائی اور گہرائی تک پہنچ گیا ہوں میرے ساتھ چلیے اور اپنی آنکھوں سے وہ جگہ دیکھ لیں جہاں میں نے مقتول کا سر چھپا رکھا ہے ۔ تھانیدار جب گھر پہنچا تو دیکھ کے حیران رہ گیا کہ وہاں انسان کے سر کی بجائے بکرے کا سرکپڑے میں لپٹا ہوا پڑا تھا ۔ اس نے کہا جناب میں نے یہ سارا ڈرامہ بزرگوں کی نصیحت کی تہہ میں اترنے کے لیے رچایا ہے ۔اس نے کہا بزرگوں نے بالکل صحیح کہا تھا کہ بیوی کو دل کی بات کبھی نہیں بتانی چاہیئے کیونکہ راز کی کوئی بات اس کے پیٹ میں ہضم نہیں ہوتی وہ جب تک کسی اورنہ بتا دے اس کے پیٹ میں کھلبلی مچی رہتی ہے ۔پولیس والے کو جتنا چاہے دوست بنا لیا جائے جب بھی آزمائش پڑتی ہے وہ اپنا روپ بھی بدل لیتا ہے اور انسان کو اس سے کبھی وفا کی توقع نہیں رکھنی چاہیئے ۔ جبکہ بیری کے درخت پر سال میں ایک بار بیر تو لگتے ہیں لیکن سارا سال کانٹوں سے ہی واسطہ رہتا ہے پھر مشکل کی گھڑی میں سر سے دستار اتار نا بھی بیری کے درخت کاہی کام ہوتا ہے ۔

بہرکیف اﷲ تعالی عورت کومرد کی ٹیڑھی پسلی سے پیدا کرکے اس میں ہمیشہ کے لیے ٹیڑھا پن پیدا کردیاہے ۔وہ ہزار سال بھی سیدھی چلتی رہے تو اپنے ٹیڑھے پن کو نہیں بھولتی اور جب وہ ٹیڑھی ہوتی ہے تو اسے کتے کی دم کی طرح کو سیدھا نہیں رکھا جاسکتا ۔گھر وں میں امن اسی صورت قائم رہ سکتا ہے جب تک عورت چاہے اور بات بگڑنے پر آتی ہے تو ایک منٹ میں بگڑی جاتی ہے ۔ اﷲ تعالی نے علیحدگی کا اختیار مرد کو دے کر بہت بڑا احسان کیا ہے ۔اگر عورت کو یہ اختیار ملا ہوتا تووہ دن میں کتنے شوہر بدلتی اور کتنے شوہروں کو ناکوں چنے چبواتی ۔اگر عورت اپنے جذبہ ایثار سے گھر بناتی ہے تو جذبہ انتقام سے تباہ بھی وہی کرتی ہے ۔اور یہ کام اس کا ٹیڑھا پن کرتا ہے جو اس کی شخصیت کا مستقل حصہ ہے -

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784455 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.