پاکستان سمیت پوری دنیا میں رمضان کا مہینہ شروع ہو
چکاہے۔ اس بابرکت مہینے میں کروڑں مسلمان اﷲ تعالیٰ کے حکم پر سحری سے لے
کر افطاری تک بھوکے پیاسے رہتے ہیں۔جب ہم نے رمضان کے روزے رکھنا شروع کیے
تو ہم بھی یہ سوچتے تھے کہ سحری سے لے کر افطاری تک بھوکے پیاسے رہنے سے اﷲ
میاں کوکیا فائدہ پہنچتا ہے حالاں کہ اﷲ میاں تو بہت غفور و رحیم ذات ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہم پر بھی یہ واضح ہو گیا کہ سارا دن بھوکے پیاسے رہنے سے
اﷲ میاں کا نہیں بلکہ ہمارا اپنا فائدہ ہو تا ہے جو جسمانی اور روحانی کے
علاوہ بھی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے انسانی فلاح کے لیے روزے کو فرض کیا ہوا ہے
تاکہ ہم سارا دن بھوکا پیاسا رہ کر ان مجبوروں، بے کسوں ،غریبوں کا دکھ درد
کا اندازہ لگا سکیں جہاں دنیا بھر میں خصوصاًاور پاکستان میں عموماً کروڑں
کی تعداد میں لوگوں کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی اور جہاں چندہ روپوں
کی خاطر انسان پر حیوانیت غالب آجاتی ہے۔ لمحوں میں قتل عام شرو ع ہو جاتا
ہے۔ پورے عالم کے لیے آنے والے دین اسلام نے ہمیں اس لیے پورے انسانیت کا
درس دیا تاکہ ہمیں ناصرف مسلمانوں کے دکھ درد کا احساس ہوبلکہ غیر مسلمانوں
کے دکھ درد کا بھی احساس ہو جائے کیوں کہ اﷲ تعالیٰ صرف مسلمانوں کا رب
نہیں بلکہ وہ پورے چھ ارب انسانوں کارب ہے جس میں چار ارب سے زائد غیر مسلم
ہیں۔ جب ہم اس فلسفے کو سمجھے کہ ہمارا اﷲ رب المسلمون نہیں بلکہ رب
العلمین ہیں تو ہمارے پچاس فی صد سے زیادہ کے مسائل اور اختلافات خود بخود
ختم ہو جائیں گے ۔ جہاں پر ہم آئے روز دوسروں کو اچھا مسلمان بنانے کے لیے
قتل و غارت کرتے ہیں ، خود کش حملے اور بم دھماکے کر تے ہیں۔ پوری دنیا پر
اﷲ کا پیغام نہیں بلکہ اپنا قبضہ جمانے اور فوائد کے لیے جہاد جیسے مقدس
پیغام کو استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور بحیثیت مسلمان ہم اپنے سو
روپے کے فائدے کے لیے دوسروں کو لا کھوں کا نقصان منٹوں میں دینے سے گر یز
نہیں کرتے۔ پورے پاکستان اور خیبر پختونخوا میں جس کو ہم مسلم معاشر ہ کہتے
ہیں میں گوشت کے نام پر گدھوں اور کتوں کا گوشت بکنا اب معمول بن چکاہے۔
دودھ میں جو ملاٹ ہو تی ہے وہ اپ جان کر دودھ کا نام لینا بھی گناہ سمجھیں
گے، وہ غلاظت اور کیمیکل دودھ بنانے میں استعمال کی جاتی ہے جس کا ہم سوچ
بھی نہیں سکتے ۔آج پورے پا کستان میں دودھ پیدا نہیں کیا جا تا بلکہ بنایا
جاتا ہے ۔ پشاور ، مردان ، صوابی اور نو شہرہ سمیت پورے پا کستان میں شہروں
کے علاوہ دیہات میں بھی اپ کو خالص دودھ نہیں مل سکتا ۔ دیہات میں تو
گجرحضرات کہتے ہیں کہ خالص دودھ تو صرف بھینس کابچہ پی سکتا ہے ۔ پچپن میں
ہم اپنے کتابوں میں پڑھتے تھے کہ دود ھ میں پانی ملانا گناہ ہے ۔آج تو
کتابوں سے وہ باتیں نکل گئی ہے کیوں کہ اب دودھ میں پانی ملانا گناہ نہیں
بلکہ یہ غنیمت ہے کہ اگر کسی نے گائے اور بھینس کے دودھ میں پانی ملایا
بلکہ آج تو دودھ کو مصنوعی طریقوں سے بنایا جاتا ہے جس کا استعمال انسانی
صحت کے لیے بہت نقصان دے ہیں۔
ناپ تول میں کمی غیر مسلمان نہیں کرتے بلکہ ہم خود کرتے ہیں ۔ دن رات اسلام
کانام لے کر اور استعمال کرکے کیاکچھ نہیں کرتے ۔ دوسروں کی زمینیوں پر
قبضہ جمانے کے لیے ہم معصوم بچوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔آج
یہاں پر کیا کچھ نہیں ہوتا وہ کام بھی ہوتے ہیں جس کا بیس پچیس سال پہلے
تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ سود جس کو اسلام نے منع کیا ہے آج ہم نے ان کو
دوسرے نام دیکر اپنے معاشرے میں رائج کردیا ہے ۔عام لو گوں سے کیا گلہ
شگواہ کروں آج تو معذرت کے ساتھ دین کا لبادہ اڑھنے والے بھی وہ کام کرتے
ہیں جس کو دیکھ کر اور سن کر مسلمان نہیں انسانیت شرما جاتی ہے۔
بات کہاں سے شروع کی تھی اور کہاں پہنچی لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم اپنے آپ
کو تو مسلمان کہتے ہیں لیکن رمضان شروع ہوتے ہی ملاوٹوں ، دونمبری نہیں
بلکہ دس نمبری کابازار گرم ہو جاتا ہے ۔ دنیا بھر میں جب غیر مسلموں کا
کوئی تہوار شروع ہو جاتا ہے تو بازاروں اور دکانوں میں ریٹ کم ہوجاتے ہیں
لیکن ہمارے معاشرے میں الٹا گنگا بہتی ہے ۔یہاں تورمضان اور عید شروع ہوتی
ہی مہنگائی کا نیا طوفان بھی شروع ہو جاتا ہے ۔ ہر بازار اور دکان میں خود
ساخت ریٹ چلتے ہیں ۔ لوٹ کھسوٹ کے اس بازار میں عوام برابر کے شر یک ہے۔
رمضان کا بنیادی فلسفہ کہ دوسروں کے ساتھ مد د اور ہمدردی کرو۔ بھوکا پیاسا
رہ کر احساس پیدا ہو جائے کہ ہم اگر ساری عمر کے لیے ایسے ہو جائے تو کیا
ہوگا۔ہمیں کم از کم آج رمضان کے مقدس مہینے سے اسلام کے بنیادی تعلیمات پر
عمل کر نا چاہیے ۔ رمضان کاجودرس ہے اس پر عمل کرنا چاہیے جو اہمیں پورے
انسانیت کے لیے دیا گیا ہے۔ ہمیں آج خود سے آغاز کر نا ہو گا کہ ظلم و
زیادتی ، بد دیانتی،لوٹ کھسوٹ کا بازار خود ہی ختم کرنا ہو گا،تب ہم رمضان
کے بنیادی درس کا فائدہ ہمیں اور معاشرے کو حاصل ہو سکتا ہے ۔ حد یث شر یف
کا مفہوم ہے کہ رمضان میں بہت سے لوگوں کو بھوکے پیاسا رہنے کے سوا کوئی
اجر نہیں ملتا ، حالاں کہ اﷲ تعالیٰ نے تو رمضان میں مسلمان کے ہر کام کو
عبادت سے زیادہ کا درجہ دیا ہے ۔ رمضان میں نیکویوں کا ثواب ڈبل سے بھی
زیادہ کا ہو جاتاہے۔ آج رمضان کے اس بابرکت مہینے میں ہم نے خود سے آغاز کر
نا ہے کہ ہم ایک اچھے شہری اور انسان بننے گے خود بھی غلط کام نہیں کر یں
گے اور دوسروں کو بھی منع کر یں گے۔تب بحیثیت مسلمان اﷲ ہم سے راضی ہو گا۔ |