مصنوعی بارش٬ کیوں؟ کیسے؟ اور نقصانات

کراچی میں ماہِ رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی گرمی کی ایک قیامت خیز لہر کا آغاز ہوا اور کراچی جس کا درجہ حرارت 36اور 38 کے درمیان رہتا تھا اچانک اس کا پارہ چڑھ گیا اور 42اور 44 کے درمیان رہنے لگا ہے ، جب کے اس دوران شدید حبس نے لوگوں کو مزید بے حال کردیا ،اس دوران کے الیکٹرک نے بھی لوڈ شیڈنگ کرکے اس گرمی میں اپنا حصہ شامل کیا۔گرمی کی شدت سے پانچ روز کے درمیان صرف کراچی میں ہلاکتیں ایک ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ سندھ بھر سے میں ہونے والی ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں۔

گرمی سے ہونے والی ہلاکتوں کے بعد ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں غور کیا گیا کہ گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیے مصنوعی بارش برسائی جائے۔محکمہ موسمیات کے ماہرین نے اجلاس میں بتایا کہ کراچی میں مصنوعی بارش کرائی جاسکتی ہے، اور اس کے ذریعے موسم کی شدت کو کم کِیا جاسکتا ہے۔ آج ہم کوشش کریں گے کہ مصنوعی بارش کے بارے میں آپ کو مختصراً آگاہ کریں ۔
 

image


مصنوعی بارش کو Cloud seeding یا بادل بیجنا کہا جاتا ہے۔ مصنوعی بارش گرم موسم کی شدت کم کرنے، خشک سالی ختم کرنے اور اس کے علاوہ فضائی آلودگی ، گرد و غبار کم کرنے کے لیے بھی مصنوعی بارش کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے بالخصوص چین کے شہر بجینگ میں جہاں فضائی آلودگی بہت زیادہ ہے وہاں فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے مصنوعی بارش برسائی جاتی ہے۔

مصنوعی بارش کے لیے ہوائی جہاز کے ذریعے 2 سے 4 ہزار فٹ کی بلندی سے بادلوں کے اوپر سوڈیم کلورائیڈ، سلور آئیوڈائیڈ اور دیگر کیمیکل چھڑکے جاتے ہیں جو بادلوں میں برفیلے کرسٹلز بناتے ہیں اور بادلوں کو بھاری کردیتے ہیں، جس کے بعد بارش ہونے لگتی ہے۔

Cloud seeding یا مصنوعی بارش کے لیے جہاز کے ذریعے بادلوں پر کیمیکل چھڑکنے کے علاوہ زمین سے بھی راکٹ فائر کر کے ان پر کیمیکل چھڑکا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ کار زیادہ تر چین میں استعمال کیا جاتا ہے یعنی مطلوبہ کیمیائی مادوں کے راکٹ تیار کر کے انہیں بادلوں پر فائر کیا جاتا ہے اور اس طریقے سے مصنوعی بارش برسائی جاتی ہے۔
 

image

لیکن یہ بات واضح رہے کہ مصنوعی بارش ہر قسم کے بادلوں اور ہر موسم میں نہیں برسائی جاتی بلکہ اس کا لیے خاص ماحول درکار ہوتا ہے۔ماحولیات کے ماہرین کے مطابق دس میں سے تین قسم کے بادلوں میں مصنوعی بارش کا تجربہ کیا جاسکتا ہے۔ ( یعنی ایسے بادل جن کی تہہ سات سے دس ہزار فٹ موٹی ہو اور اتفاق سے کراچی میں اس قسم کے بادل موجود نہیں ہیں) مصنوعی بارش کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہوا میں رطوبت یعنی نمی 70سے 75 فیصد ہو اور ہوا کی رفتار 30 سے 50 کلو میٹر فی گھنٹہ ہو ۔ جب تک یہ سارے عوامل نہ ہوں مصنوعی بارش کا تجربہ مکمل کامیاب نہیں ہوسکتا۔

پاکستان میں مصنوعی بارش کا طریقہ پہلی بار استعمال نہیں کیا جارہا بلکہ آپ کو بتاتے چلیں کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں تھر کے بعض علاقوں میں خشک سالی اور گرمی کم کرنے کے لیے 2000 میں کچھ تجربات کیے گئے تھے اور یہ تجربات جزوی طور پر کامیاب بھی ہوئے ، اسی بنیاد پر حکومت سندھ نے کراچی میں مصنوعی بارش کے امکان پر غور کیا ہے۔ لیکن بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ کراچی میں 1977میں بھی مصنوعی بارش کا تجربہ کیا گیا تھا۔

ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق جون 1977میں کراچی میں شدید گرمی چھائی ہوئی تھی اور بادل موجود تھے لیکن برسنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ ایک صوبائی وزیر عبدالوحید کی ہدایات پر محکمہ زراعت کے دو چھوٹے جہازوں کے ذریعے 28 اور 29 جون کو بادلوں پر کیمیکل چھڑکے گئے۔ اس کے بعد 30جون کی صبح 6 بجے جو بارش برسنا شروع ہوئی تو اس نے تھمنے کا نام ہی نہیں لیا ، صبح و شام برسنے کے بعد کہیں جاکر رات 11 بجے یہ بارش رکی اور اندرون سندھ میں تو یہ بارش اگلے دن جاکر رکی ۔یہ کراچی کی شدید ترین بارشوں میں سے ایک ہے۔ اس بارش کے نتیجے میں ملیر اور لیاری ندی میں طغیانی آگئی اور کراچی کے مرکز کا اپنے ہی مضافاتی علاقوں سے رابطہ ختم ہوگیا تھا۔ جب کہ ان بارشوں کے نتیجے میں 400افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
 

image

مصنوعی بارش بظاہر تو بڑا ہی دل خوش کن اور آسان طریقہ لگتا ہے لیکن اس کے مضر اثرات بھی ہیں۔ پہلی بات تو جو ہم نے اوپر بیان کی یعنی بادلوں کو برسا یا تو جاسکتا ہے لیکن پھر رکیں گے وہ اپنی مرضی سے۔ اسکے علاوہ اس طریقہ کار کو اپنانے سے ماحول پر غیر فطری دباؤ بڑھ جاتا ہے ، شدید حبس اور گرمی بڑھ سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس بارش کے پانی میں کیمیائی مادے شامل ہونے کے باعث یہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے ۔

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس ماہِ مبارک میں اپنی رحمت سے ہمیں نوازے اور مصنوعی بارش کے بجائے اپنی بارانِ رحمت سے ہمیں نوازے ۔ آمین
YOU MAY ALSO LIKE:

Sometimes it does not get cold enough in the cloud for nucleation to occur. But if we want the cloud to rain, we have to create places where nucleation can occur. This is done by a method called cloud seeding. Tiny particles of silver iodide are sprayed on a cloud from an aeroplane. Sometimes, solid carbon dioxide (called dry ice) is used, as it is cheaper.