روزہ اور بھوک و پیاس
(Mohammad Rafique, Dera Nawab Sahib)
روزہ اور بھوک و پیاس
محمد رفیق اعتصامی
ارشاد باری تعالیٰ ہے اے ایما ن والو روزے تم پر فرض کئے گئے ہیں جیساکہ تم
سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تک کہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ گنتی
کے چند دن ہیں پس جو کوئی تم میں مریض ہو یا مسافر ہو تو وہ ان دنوں کی قضا
دوسرے ایام میں کر سکتا ہے(القرآن)۔
ماہ رمضان آچکا ہے یہ گرمیوں کے روزے ہیں اور گرمی کی شدّت بھی بہت زیادہ
ہے اور روزے کا دورانیہ بھی پندرہ گھنٹے سے زیادہ ہے۔ اس موسم میں پیاس بہت
لگتی ہے اور وقفے وقفے سے پانی پینا پڑتا ہے تو فطری طور پر یہ بات ذہن میں
آتی ہے کہ پندرہ گھنٹے بغیرپانی پئے کیسے کٹیں گے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے
کہ جو لوگ سالہا سا ل سے روزے رکھتے چلے آرہے ہیں اور عادی ہو چکے ہیں ان
کیلئے یہ کوئی مشکل بات نہیں وہ موسم کی سختی بھی برداشت کر لیتے ہیں اور
صبر بھی کر لیتے ہیں اور ویسے بھی یہ صبر کا مہینہ ہے جس کا بدلہ جنت ہے۔
پیش نظر مضمون میں روزہ کی مناسبت سے اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ حقیقی
طور پر بھوک اور پیاس کو مٹانے والا کون ہے اور ایک مومن مسلمان کا اس بارہ
میں کی یقین ہونا چاہئے؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’حکم تو صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہے‘‘(القرآن)
یعنی کائنات میں جہاں جہاں جو جو کام ہو رہے ہیں ان سب کے پیچھے حقیقی قوت
صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے گردش افلاک، ہواؤں کا چلنا،بارشوں کا برسنا،
زندگی اور موت، مخلوقات کا حرکت کرنا یا ٹھہرنا وغیرہم یہ سب کام حکم الٰہی
کے دائرہ میں محصور ہیں اور کوئی کام اس کے حکم اور ارادے کے بغیرنہیں ہو
سکتا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ جب سب کام اللہ کے حکم سے ہوتے ہیں تو پھر بھوک اور
پیاس کو کون مٹاتا ہے آیا روٹی اور پانی؟ ہر گز نہیں! بلکہ ان میں بھی یہ
تاثیر صرف اور صرف اللہ کے حکم سے ہے اگر حکم نہ ہو تو روٹی بھوک مٹا نہیں
سکتی اور پانی پیاس بجھا نہیں سکتا چاہے کتنا ہی کیوں نہ پی لیا جائے؟ اسی
طرح آگ کا جلانا اور برف کا ٹھنڈا کرنا بھی اللہ کے حکم سے ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو احکم الحاکمین کی طر ف
سے حکم آیا کہ’’ اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی والی بن جاابراہیمؑ پر‘‘!
سوال یہ ہے کہ کیا آگ بجھ گئی تھی ؟ نہیں بلکہ وہ تو زور و شور سے جل رہی
تھی مگر اسے جلانے کا حکم نہیں تھا یہ صفت اس میں سے ختم کر دی گئی تھی۔
تو بات یہ ہے کہ بھوک اور پیاس کا مٹانا اللہ تعالیٰ کا کام ہے روٹی اور
پانی کا نہیں ہاں یہ اسکے ذریعے ضرور ہیں مگر اللہ تعالیٰ یہ کام کسی اور
ذریعے سے بھی کر سکتے ہیں جیسا کہ بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ ذکر الٰہی سے
ان کی بھوک و پیاس ختم ہو جاتی ہے۔
مسائل:
(۱)مسافر اور مریض کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے اور وہ انکی قضا دوسرے دنوں
مثلاً سردیوں کے چھوٹے اور ٹھنڈے دنوں میں کر سکتا ہے۔
(۲) کسی شخص نے روزہ رکھ لیا مگر بھوک یا پیاس کی شدّت اس قدر محسوس ہوئی
کہ جان پر بن گئی تو وہ روزہ توڑ سکتا ہے۔
(۳) حاملہ یا دودھ پلانے والی کو اگر کوئی مستند ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ روزہ
رکھنے سے بچہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔
(۴) روزہ رکھنے کے بعد نہانا، گیلا کپڑا لپیٹنا یا طاقت کا انجکشن لگوانا
جائز ہے۔(ماخوز از فتاوٰی عالمگیری)
احتیاط:
سحری کے وقت اگرکسی اچھی کمپنی کا شربت فولاد دو تین چمچ پی لیا جائے یا
کشتہ فولاد(ٹکیہ) کھالی جائے تو روزہ ٹھنڈارہتا ہے اسی طرح افطار کے وقت
اگر شربت بزوری یا بادام پی لیا جائے تو دل کو سکون بھی ملتا ہے اور پیاس
بھی کافور ہو جاتی ہے۔
بہر حال رمضان المبارک نہایت با برکت مہینہ ہے اور صبر کا مہینہ ہے جسکا
بدلہ جنت ہے اور ایک روزہ دار کیلئے اس سے بڑی نعمت اور کیا ہو سکتی ہے کہ
اسے جنت مل جائے۔
اللہ تبار و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے اور آپ کو صبر اور سکون سے روزے
رکھنے کی توفیق عطا فرمائے خاتمہ ایمان پر فرمائے آمین! |
|