اسلام اور مغرب کے اصول تحقیق کا موازنہ
(Hafiz Irfan Ullah Warsi, Bahawalpur)
اسلام سے مراد:
اسلام کے لغوی معنی ہیں گردن جھکانا،اِطاعت کرنا یا مسلمانوں کا دین۔(1)
اس سے مراد ہے دین اسلام ۔ یعنی دین اسلام کے وہ ایسے قواعدوضوابط جن کی
مدد سے دین اسلام میں کسی بھی مسلے پر تحقیق کی جائے۔
مغرب سے مراد:
عام طورپر اس سے مراد ہوتی ہے سمت ۔ یعنی وہ سمت جس میں سورج غروب ہوتا
ہے۔لیکن یہاں اس سے مراد سمت نہیں بلکہ یورپ ہے۔(2)
دیار ِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ زر اب کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پر بنے گا آشیانہ ناپا ئیدار ہوگا(3)
اصول سے مراد:
اصول کے لغوی معنی ہیں قاعدہ،طورطریقہ،بنیادیں یا جڑیں وغیرہ۔ اور یہ جمع
ہے اصل کی ۔ (4)
تحقیق سے مراد:
اس کے لغوی معنی ہیں اصلیت کو معلوم کرنا، کھوج لگانا،تفتیش کرنایا حقیقت
کو ثابت کرنا۔ (4)اصلاح میں تحقیق کے معنی ہیں کسی تعلیمی موضوع کے بارے
میں ایسے طریقے سے کھوج لگانا کہ اس کی اصلی شکل خواہ معلوم ہو یاغیرمعلوم
اس طرح نمایاں ہوجائے کہ کسی قسم کا ابہام نہ رہے ۔ ایسے عمل کو تحقیق کے
نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ (5)
اسلام میں تحقیق کے اہم بنیادی ماخذ:
دین اسلام میں تحقیق کا سلسلہ روزِاول سے ہی شروع ہے۔ اور کوئی بھی مسلمان
محقیق اپنی تحقیق کا آغازان دو ماخذ سے ہی کرتا ہے ۔ دین اسلام میں اصولِ
تحقیق کا دارومدارمندرجہ ذیل نکات پر رکھا گیا ہے ۔
تحقیق کےبنیادی ماخذ
قرآن پاک حدیث نبویﷺ
دین اسلام میں اصولِ تحقیق قرآن پاک کی رو سے:
اس میں شک نہیں کہ دین اسلام ہی ايک تحقیقی دین ہے اور اس نے تحقیق کا حکم
دیا ہے اﷲتبارک تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں۔
کَذٰلِکَ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبْلُ فَمَنَّ اللہُ عَلَیۡکُمْ فَتَبَیَّنُوۡا ؕ
اِنَّ اللہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا ﴿۹۴﴾
تو تم پر تحقیق کرنا لازم ہے ،بے شک اللہ (تعالیٰ عزوجل)کو تمہارے کاموں کی
خبر ہے۔(6)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی کی پانچ آیتیں
اس ضمن میں انتہائی اہم ہیں:
اِقْرَاۡ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾ خَلَقَ الْاِنۡسٰنَ مِنْ
عَلَقٍ ۚ﴿۲﴾ اِقْرَاۡ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ ۙ﴿۳﴾ الَّذِیۡ عَلَّمَ
بِالْقَلَمِ ۙ﴿۴﴾ عَلَّمَ الْاِنۡسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ؕ﴿۵﴾
پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ۔
پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ۔جس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔آدمی کو
سکھایا جو نہ جانتا تھا ۔(7)
یہاں پہلی آیت میں ’ اِقراء ‘ یعنی پڑھو کہہ کرعالم طبیعی سے متعلق علم کی
بات کائنات اور انسان کے خالق کے حوالے سے کی گئی ہے۔ دوسری آیت میں خون
(علق) کا ذکرزندگی کے تعلق سے ہے۔تیسری آیت قاری کو خدا کی مرکزیت کے
تصور(توحید) کی جانب واپس لاتی ہے۔ چوتھی آیت میں’ قلم‘ ٹیکنالوجی کے علم
کی علامت ہے۔اور پانچویں آیت علم کے تمام دائروں کے خدا سے مربوط ہونے کے
تصور کا اعادہ کرتی ہے۔(8)
معلوم ہوا کہ دین و دنیا میں سارے فسادات کی بنیاد عدم تحقیق ہے ، اگر دنیا
میں بے تحقیق باتوں پر عمل کروگے تو دنیا کا نقصان ہوگا، اگر دین میں
بےتحقیق باتوں پر عمل کیا تو دین برباد ہو گا۔
قرآنی تحقیق کا مفہوم:
اسلامی ادبیات میں تحقیق کے مفہوم کوسمجھنے کے لیےسب سے نمایاں مثال جمع
وتدوین قرآن کی ہے۔ قرآن کریم کےمتن کی ترتیب وتدوین ادبی دنیا کا عظیم
ترین شاہکار ہے ۔ تحقیق کے مقاصداور اغراض کیا ہوں اس کے بارے میں بھی
قرآن مجید میں واضع طور پررہنمائی ملتی ہے۔ تحقیق کے اصولوں اورطریقہ کار
کا اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اخلاقیات سے بنیادی تعلق ہے ، اور اس کی
مثال قدم ،قدم پر پائی جاتی ہے۔
کلام ربی میں تحقیق کے مقاصد کو اجاگر کرنے کی خاطر مختلف منہاج
اپنائےگئےہیں ایک طرف تحقیقی تقاضوں کوپورا کرنے کے لیے تحقیقی انداز
فکراختیار کرنے کا حکم ہے تو دوسری طرف مختلف طریقوں سے اس کی ترغیب دلائی
گئی ہے۔اور اسکے ساتھ ساتھ تحقیقی منہاج پر استقامت کے ساتھ قائم رہنے کی
دعائیں سکھلائی گئی ہیں تو دوسری طرف ایسے عملی اقدامات ، انفرادی منصوبے
اور اجتماعی پراجیکٹس کی نشان دہی کی گئی ہے جن کی بدولت تحقیقی نقطہ نظر
فروغ پاتا ہے۔
تحقیق علم ویقین کی منزل کے حصوں کانام ہے اس میں وہم وگمان کاکوئی عمل دخل
نہیں ہوتا بلکہ یہ حق وصداقت اورحقیقت واصلیت کااظہار ہوتا ہے۔ چنانچہ
قرآن حکیم نے تحقیق کے اسی مفہوم کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے جن کی
تفصیل درج ذیل ہے۔
1. علم کی دریافت
2. وہم وگمان سے اجتناب
3. حقیقت بیانی
4. دل ونگاہ کی یکسانیت
5. انصاف وامانت
6. جھوٹ کی وکالت
7. حقیقت شناسی
8. یقین کا حصول
9. خبر کی تصدیق
10. ایمان کا امتحان (9)
1۔ علم کی دریافت:
پروردگار عالم رشدوہدایت کا منبع اور علم ومعرفت کا سرچشمہ ہے تمام انسانیت
حصول علم کے لیے اسی کی مرہون منت ہے۔ جیساکہ قرآن پاک میں ارشاد باری
تعالیٰ ہے:
وَاللہُ یَعْلَمُ وَ اَنۡتُمْ لَا تَعْلَمُوۡنَ﴿۲۱۶﴾٪
کہ اللہ صاحب علم ہے اور تم (حقیقی)علم سے محروم ہو۔ (10)
ایک اور آیات مبارکہ میں ایسی علم کو علم ومعرفت اور حق وصداقت کا نام
دیتے ہوئے ایسے عطیہ خداوندی قرار دیا گیا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد
ربی ہے:
اَلْحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیۡنَ﴿۱۴۷﴾٪
(اے سننے والے) یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے (یا حق وہی ہے جو تیرے رب کی
طرف سے ہو) تو خبردار توشک نہ کرنا (11)
گویا کہ اس آیات مبارکہ سے ثابت ہوا کہ صداقت اللہ تعالیٰ عزوجل کی طرف سے
نازل ہوتی ہے اور وہ صداقت ہی کے طور پر پہچانی جاتی ہے خواہ کوئی بھی
انسان اسے چھپانے کی کوشش کریں یا اس میں شک پیدا کریں۔
2۔ ظن وگمان سے اجتناب:
علم کی بنیادیں علمی وفکری اور تحقیقی کارناموں سے استوار ہوتی ہیں وہم
وگمان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اور نہ ہی انسانی خواہشات اور دلی
تمناوں کوکوئی اہمیت دی جاتی ہے ۔ قرآن کریم نے اہل کتاب میں سے
یہودونصاریٰ کی اسی لیے مذمت کی ہے کہ انہوں نے اپنی ذاتی خواہشات کو وحی
الہٰی کادرجہ دے کر علم کی حیثیت دے ڈالی۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
وَمِنْہُمْ اُمِّیُّوۡنَ لَا یَعْلَمُوۡنَ الْکِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ
اِنْ ہُمْ اِلَّا یَظُنُّوۡنَ﴿۷۸﴾
اور ان میں کچھ اَن پڑھ ہیں کہ جو کتاب کو نہیں جانتے مگر زبانی پڑھ لینا
یا کچھ اپنی من گھڑت اور وہ نرے گمان میں ہیں (12)
ایک اور جگہ قرآن پاک میں یہودونصاریٰ کی خواہشات کا کچھ یوں ذکر ہے:
وَقَالُوۡا لَنۡ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنۡ کَانَ ہُوۡدًا اَوْ
نَصٰرٰیؕ تِلْکَ اَمَانِیُّہُمْؕ قُلْ ہَاتُوۡا بُرْہٰنَکُمْ اِنۡ کُنۡتُمْ
صٰدِقِیۡنَ﴿۱۱۱﴾
اور اہل کتاب بولے ہرگز جنت میں نہ جائے گا مگر وہ جو یہودی یا نصرانی ہو
یہ ان کی خیال بندیاں ہیں تم فرماؤ لاؤ اپنی دلیل اگر سچے ہو (13)
3 ۔ حقیقت بیانی:
اسلامی تعلیمات میں مشاہدے ، تجربے اور تحقیق کی بنیاد پر حاصل کردہ حقائق
اور معلومات کو اساسی حیثیت دی گئی ہے اللہ کریم نے جن قوتوں سے بنی آدم
کو نوازہ ہے انکوصحیح اور مکمل استعمال کرنے کی تلقین کی گئی ہے، انسان
کوچاہیے کہ عقل وشعور اور فکروسوچ پر تالے نہ لگائے۔
حقیقت ایک ہے ہرشی کی خاکی ہو کہ نوری ہو
لہوخورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں(14)
4۔ دل ونگاہ کی یکسانیت:
تحقیقی کام کرنے کے لیے دل ونگاہ کی یکسانیت کا ہونا ضروری ہوتا ہےورنہ
محقق کی توجہ بٹ جاتی ہے اور وہ مطلوبہ مقاصد کے حصول میں ناکام رہتا ہے۔
ایسی لیے قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ محقق اپنے قول و فعل اورعمل سے
ناپھیرئے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفْعَلُوۡنَ
﴿۲﴾
کَبُرَ مَقْتًا عِنۡدَ اللہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفْعَلُوۡنَ ﴿۳﴾
اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے ۔کیسی سخت ناپسند ہے اللّٰہ کو
وہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو۔(15)
5۔ انصاف اور امانت:
جس طرح ہماری معاشرتی زندگی میں دوسروں کا مال غضب کیا جاتا ہے انکی
پراپرٹی کو ناجائز ہڑپ کیا جاتا ہے انکی چیزوں کو چوری کیا جاتا ہے اور ان
کے حقوق پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں اِسی طرح علمی دنیا اور تحقیقی میدان میں
بھی دن دیہاڑے ڈاکے پڑتے ہیں۔ علماء ومحقق بننے کے شوق میں اور امیر ہونے
کے لالچ میں دوسرے محققین حضرات اور مُفکرین عظام کے کارناموں کو اپنی طرف
منسوب کرلیا جاتا ہے ۔ایسے لوگ بھی واقعتاً ڈاکواور چور کہلانے کے مستحق
ہیں ۔ قرآن پاک میں ایسے لوگوں کی مذمت کی گئی ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ
انصاف اور امانت کو احسن طریقے سے ادا کرو ۔ جیسا کہ کلام ربی میں موجود
ہےکہ:
اِنَّ اللہَ یَاۡمُرُکُمْ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ
وَ اِذَا حَکَمْتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحْکُمُوۡا بِالْعَدْلِ ؕ اِنَّ
اللہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ بِہٖ ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا
﴿۵۸﴾
بے شک اللّٰہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو ،اور
یہ کہ جب تم لوگوںمیں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو ،بے شک اللّٰہ
تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے بے شک اللّٰہ سنتا دیکھتا ہے (16)
6۔ جھوٹ کی وکالت:
فن تحقیق نہایت ہی صاف شفاف اور مقدس کام ہے یہ حقیقتوں کامظہر،صداقتوں اور
علم ومعرفت کا سرچشمہ ہے ۔ فن تحقیق کو جھوٹی اور من گھڑت باتوں سے کوئی
سروکار نہیں ہے۔
قرآن کریم نے یہودونصاریٰ کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ انہوں نے
حضرت عُزیرعلیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کو اللہ کے بیٹے قرار
دیا جس کے لئے ان کے پاس کوئی واضع دلیل نہیں تھی۔ (17) ایک اورجگہ جھوٹ کی
مذمت کرتے ہوءے اللہ تعالیٰ عزوجل نے ارشاد فرمایاکہ:
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ کَذِبًا اَوْکَذَّبَ
بِاٰیٰتِہٖ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوۡنَ ﴿۱۷﴾
تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللّٰہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتیں جھٹلائے
بیشک مجرموں کا بھلا نہ ہوگا (18)
جھوٹ کی وکالت کرنے والوں میں نمایاں ترین کردار منافقین کا ہے ۔ قرآن
انکی صحیح ترجمانی کی ہے کہ ان کے دوغلےپن اور جھوٹی گواہیاں اورمن گھڑت
باتوں کا پول لوگوں کے سامنے کھول دیاہے۔
7۔ حقیقت شناسی:
قرآن پاک کی مندرجہ ذیل آیات مبارکہ حقیقتوں پر مشتمل مکمل دستاویزاور
مفیددستور حیات ہیں یہ ہر قسم کے شکوک وشبہات سے پاک ہیں جس کی شہادت اس
طرح دی گئی ہے۔
الٓـمّٓۚ﴿۱﴾ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی
لِّلْمُتَّقِیۡنَۙ﴿۲﴾
الف لامیم ،وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں اس میں ہدایت ہے
ڈر والوں کو (19)
تحقیق حقیقت شناسی کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ایک لحاظ سے تحقیق علم کو آگے
بڑھانے کا مواقع فراہم کرتی ہے۔ جس کے احداف ومقاصد انسان کی
خدادادصلاحیتوں کے مرہون منت ہوتے ہیں اس سلسلے میں امام بخاری رحمتہ اللہ
تعالی علیہ کا تحقیقی کارنامہ شاندار ماڈل کے طور پرپیش کیا جاسکتا ہے ۔
آپؒ نے حضور اکرم ﷺ کے تین سوسال بعد ،دسویں صدی عیسوی میں احادیث کی
ترتیب وتدوین کا عظیم ترین تحقیقی کارنامہ سرانجام دیا۔ امت مسلمہ نے آپ ؒ
کی مدون کتاب الصحیح البخاری کو قرآن پاک کے بعد صحیح ترین کتاب قرار
دیا۔(20)
8۔ یقین کاحصول:
سائنسدانوںکی کاوشیں عبادات کا درجہ رکھتیں ہیں ۔ بشرط کہ تحقیق سے قلب کی
تربیت ہورہی ہو۔ یہ ہی تحقیق بنیِ آدم کے دلوں کی تربیت کچھ اس انداز میں
کرتی ہے کہ آخر کار اس کے اندر معرفت الہٰی پیدا ہوجاتی ہے ۔ مگر یہ سب
کچھ صرف اور صرف اس وقت ہوتا ہے جب تحقیق کو اسلامی اصولوں کے مطابق کیا
جائے(21)
یقیں پیدا کر اے ناداں! یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی ، کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری(22)
9۔ خبر کی تصدیق:
تحقیق کی روح اور جان تو یہی ہے کہ حقائق کی تلاش کیجائےاور اچھی طرح جانچ
پڑتال اور چھان بین کی جائے۔ تاہم حقائق کی تلاش کی خود اپنی اہمیت ہے ۔
تحقیق قدیم ہو یاجدید ایک انداز فکر سے پروان چڑھتی ہے۔ جو ہمیں کسی شی کی
حقیقت اور حکمت جاننے کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ (23)
واقعات کی صحت معلوم کرنے کا اصول خود قرآن کریم نے یہ کہہ کرقائم کردیا
ہے کہ:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ
فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوْمًۢا بِجَہٰلَۃٍ فَتُصْبِحُوۡا عَلٰی
مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیۡنَ ﴿۶﴾
اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ
کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچتاتے رہ جاؤ
(24)
اس آیت مبارکہ میں تحقیق کرنا ،بات کوجانچنا، سچائی تک رسائی حاصل کرنا ،
پرکھنا، جاننا اور سمجھنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
10۔ ایمان کا امتحان:
تحقیق مکمل طور پر منطقی طریق کار ہے ۔ اس میں اندازے اور گمان کوئی حیثیت
حاصل نہیں۔ میدان تحقیق میں محنت ومشقت، طلب وتفتیش اور جانچ پڑتال بنیادی
عوامل قرار پاتے ہیں۔ یقیناً یہ حقیقتیں علم ویقین کی روشنیاں ہیں جو
انسانی منزل کا پتہ دیتی ہیں لیکن اس کے بعد جانچ پڑتال جائزہ وتحصیل اور
امتحان و آزمائش کامقام ہے قرآنی اصطلاح میں اسی چیز کو ایمان کے امتحان
کا نام دیا گیاہے۔ (25)حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایمان کا امتحان اللہ
تعالیٰ عزوجل نے لیا جس کے تحت وہ تمام آزمائشوں میں پورا اترے۔ جس کا ذکر
قرآن پاک میں مختلف مقامات پر کیا گیا ہے۔
آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا(26)
اصولِ تحقیق حدیثِ نبوی ﷺ کی رو سے:
احادیث نبوی ﷺمیں تحقیق کی ضرورت واہمیت پر زور دیتے ہوئےمختلف اسلوب
اختیار کیے گئےہیں ایک طرف تحقیق کے اصول کی اہمیت کے پیش نظرتحقیقی انداز
فکر اپنانے کا حکم دیا گیا ہے اور مختلف انداز سے اسکی تلقین کی گئی ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ عزوجل سے تحقیقی منہاج پر استقامت کے ساتھ
قائم رہنے کی دعائیں سکھلائی گئی ہیں ۔ تو دوسری طرف ایسے عملی اقدامات کیے
گئےہیں جن کی بدولت تحقیقی طریقہ کار کو فروغ دیا گیا ہے۔
حدیث نبوی ﷺمیں تحقیق کی اہمیت کے حوالے سے مندرجہ ذیل احکامات کا ذکر عام
ملتا ہے ۔ اور کسی بھی مسلم محقیق کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
1. تحقیق کا حکم
2. ترغیب وتلقین
3. دُعا ئیں
4. عملی اقدام
5. مصدر اولین تک رسائی
6. کذب بیانی سے اجتناب
7. غیبت سے اجتناب
8. خریدوفروخت میں تحقیقی اصول (27)
تحقیق کا حکم:
تحقیق ایک مخصوص انداز فکر کے اثر سے پروان چڑھتی ہے جو ہمیں شے کی حقیقت
کی طرف متوجہ کرتی ہے ۔ اوربیانات یا معاملات کا کھوج لگانے پر آمادہ کرتی
ہے۔ احادیث نبویﷺمیں اس اندازفکر کو اپنانے کی تلقین کی گئی ہے ۔ چنانچہ
زیادہ بات چیت ،کثرت کلام اور بلاتحقیق بات کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت
امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ :
کان النبی ینھٰی عن قیل وقال(28)
آنحضرت ﷺ نے کیا گیا ہے اور اس نے کہا ہے سے منع فرماتے تھے۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث نبوی ﷺ میں چھان بین کے بغیر روایت کرنے والے
روایان احادیث سے اخذ نہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ حضور ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
سیاتون فی اخرامتی اناس یحدثونکم مالم تسمعوا انتم ولا ایاوکم فایاکم
وایاھم
میری امت کے آخری دور میں ایسے لوگ ہوں گے کوتمہیں ایسی روایات بیان کریں
گے جو نہ تم نے اور نہ تمہارے آباؤاجداد نے سنی ہوں گی پس تم اس سے بچنا۔
(29)
ترغیب وتلقین:
احادیث مصطفٰویﷺ میں محض تحقیق کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اسے دوسروں
کو اپنانے کی ترغیب وتلقین کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺنے
بلا تحقیق روایات بیان کرنے سے باز رکھنے کے لیے جھوٹی روایات کو بد ترین
قرار دیا ۔ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
ان اصدق القول قول اللہ وان احسن الھدی ھدی محمد وان شرالروایا روایا الکذب
وشرالامور لمحدثاتھا۔
یقیناً اللہ کا کلام تمام اقوال سے سچا ہے۔ اور یقیناً بہترین ہدایت حضرت
محمدﷺوالی ہدایت ہے اور یقیناً بدترین روایات وہ ہوتی ہے جو جھوٹ پر مبنی
ہوں اور خود تراشی ہوئی باتیں بدترین ہوتی ہیں(30)
دُعا ئیں:
احادیث میں جہاں مسلمانوں کو تحقیقی انداز فکر اپنانے کی تلقین کی گئی ہے
وہاں انہیں پروردگار عالم سے تحقیق کی ہدایت اور توفیق طلب کرنے کے لیے
مسنون دعائیں بھی موجود ہیں آنحضرت ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو
یہ دعا سکھائی تھی:
اللھم اھدنی وسددنی واذکر باھدی ھدایتک الطریق والسداد سدادا السھم
اے اللہ !مجھے ہدایت دے اور راہِ راست پر قائم رکھ۔ اپنے راستے پر ہدایت کے
ساتھ چلنے اور تیر کی طرح سیدھا رہنے کی توفیق عطا فرما۔ (31)
ایک دوسری حدیث میں مزید واضح انداز میں تحقیقی رویے کی استدعا کی ہے فرمان
رسالت مآب ﷺہے:
اللھم ارنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ۔ اللھم ارنا الباطل باطلاً ووارزقنا
اجتنابہ۔ اللھم ارنا الاشیاء کما ھی
اے اللہ! تو ہمیں حق کو حق دکھا اور اس پیروی کی توفیق دے۔ اے اللہ! توہمیں
باطل کو باطل دکھااور ہمیں اس سے محفوظ رکھ۔ اے اللہ ! تو ہمیں اشیاء کی
حقیقتیں دکھا جیسی کہ وہ ہیں ۔(32)
عملی اقدامات:
احادیث نبویﷺ میں صرف تحقیق کو اپنانے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اس پر قائم
رہنے کے لیے ترغیب وتلقین کی گئی اور اللہ تعالیٰ عزوجل سے توفیق طلب کی
گئی ہے۔ ایسے عملی اقدامات کیے گئیےہیں جن کے ذریعے سے مسلم معاشرے میں
تحقیقی رحجان پیدا ہوتا ہے اور عظیم تحقیقی روایات جنم لیتی ہیں ۔ عملی
اقدامات میں مصدر کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے اور تمام اسلامی احکام و
مسائل کوقرآن وسنت اور دیگر مصادر شریعت پر جانچنے اور پرکھنے کی تلقین کی
گئی ہے۔(33)
مصدر اولین تک رسائی:
شریعت محمدیﷺ میں مصدر کو معیار ،فرقان کو کسوٹی کے طور پر تسلیم کیا گیا
ہے۔ اور قرآن وسنت کو حقیقت کا اولین مصدر تسلیم کیا گیا ہے۔
کذب بیانی سے اجتناب:
احادیث مبارکہ میں کذب بیانی صرف جھوٹ بولنے کو نہیں کہا بلکہ کسی بات کو
بلاتحقیق بیان کرنے کو بھی کہا گیا ہے۔ من گھڑت باتوں اور بے بنیاد امور سے
دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ اور ہر سنی سنائی بات پر یقین کرکے ایسے
دوسروں تک پہنچانے سے منع کیا گیا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کفٰی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ماسمع
انسان کے لیے اتنا جھوٹ کافی ہے کہ وہ جو کچھ سُنے اسے بلا تحقیق روایت
کرڈالے۔ (34)
غیبت سے اجتناب:
غیبت اور چغل خوری کوبھی اسی لیے منع قرار دیا گیا ہے کہ وہ انسان کی غیر
حاضری میں اس کے خلاف بات کی جاتی ہے جس سے تحقیقی طریق کار مجروح ہوتا ہے
۔ کیونکہ اس میں فریق ثانی کو ردِعمل میں جواب مہیا کرنے کا موقع نہیں ملتا
اس لیے شریعت محمدی ﷺ نے حکم دیا ہے کہ ہرانسان کے سامنے اس کے متعلق بات
کی جائے۔آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
لایدخل الجنہ قتات
کوئی چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (35)
قرآن پاک اور حدیث نبویﷺ کی رو سے تحقیق کا موازنہ:
قرآن پاک اور حدیث نبوی ﷺ ہی دین اسلام کا بنیادی مآخذ ہیں ۔ ان دونوں
مآخذ کے بغیر دینِ اسلام کی تحقیق ناممکن ہے ۔ گویا کہ ہم کہ سکتے ہیں کہ
دینِ اسلام کی تشریح کے لیے ان دونوں مآخذ کا علم ہونا ضروری ہے۔ ان دونوں
مآخذ میں تحقیق کے حوالے سے چند باتیں مشترکہ ہیں جو کہ مندرجہ ذیل یہ
ہیں:
1. ہدایت کاحصول
2. علم کی دریافت
3. نوربصیرت
4. اہل علم کے اعلیٰ درجات
5. علم کی کرشمہ سازیاں
6. تحقیق کے مثبت اثرات
7. فلاح وکامرانی
8. امن وسلامتی کا قیام
9. خبر کی تصدیق
10. ایمان کا امتحان
11. وہم وگمان سے اجتناب
12. جھوٹ کی وکالت نا کرنے کی ہدایت
13. دل ونگاہ کی یکسانیت
14. یقین کا حصول
15. معاشرتی ترقی کا راز(36)
مغرب کے اصول تحقیق کاجائزہ:
مسلمانوں کے اصولِ تحقیق اوپر بیان ہو چکے ہیں قریب ،قریب یہی اصول اب مغرب
کی کتابوں میں بھی بیان ہونے لگے ہیں۔ ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان صاحب نے مغربی
محقیقین کے تحقیقی اصولوں کا جائزہ لیتے ہوئے انکو یوں بیان فرمایا ہے۔
خارجی اور داخلی شہادتوں کی ضرورت:
مغربی محقیقین کے مطابق کسی بھی واقعے کو پرکھنے کے لیے اس واقعے کی داخلی
اور خارجی شہادتوں کا مطالعہ کیا جائے۔
مواد کہاں سے حاصل ہوا:
مغربی محقیقین کے مطابق اس بات کی تسلی کی جاتی ہے کہ تحقیق کا مواد کہاں
سے حاصل کیا گیاہے۔
راوی کون تھا؟:
مغربی محقیقین اپنی تحقیق میں اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ روای کون
تھا؟
راوی کے حالات زندگی:
مغربی محقیقین روای کے حالات زندگی کی نوعیت کا بھی مطالعہ کرتے ہیں ۔
راوی کے گفتار اور کردارکامطالعہ:
مغربی محقیقین اپنی تحقیق میں راوی کی گفتار اورکردار کا مطالعہ بھی کرتے
ہیں کہ کہیں یہ روای جھوٹ اور بدکردار تونہیں۔
راوی کا واقعے سے تعلق:
مغربی محقیقین اپنی تحقیق میں اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ راوی کا اس
واقعے سے کیا تعلق ہے ۔ کہیں وہ کسی مجبوری کی بناپر تو یہ واقعہ من گھڑت
انداز میں بیان تو نہیں کررہا۔
واقعے کی نوعیت:
مغربی محقیقین اس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ واقعے کی نوعیت کیا ہے۔
واقعہ کتنے عرصے کے بعد پیش ہوا:
مغربی محقیقین اس بات کا خیال بھی رکھتے ہیں کہ یہ واقعہ جو راوی پیش کررہا
ہے یہ کتنے عرصے کے بعد پیش کر رہا ہے ۔ اور اس کے اب پیش کرنے کی اصل وجہ
کیا ہے؟۔
راوی کا حافظہ:
مغربی محقیقین اپنی تحقیق میں راوی کے حافظے کا مطالعہ بھی کرتے ہیں کہ اس
کا حافظہ قوی ہے یا کمزور ہے۔
واقعے کی تصدیق:
مغربی محقیقین اپنی تحقیق میں واقعے کی تصدیق کا بھی خاص خیال رکھتے ہیں کہ
راوی نے اس واقعے کی تصدیق بھی کی ہے کہ نہیں۔
واقعے کو بیان کرنے میں اضافہ یاکمی:
مغربی محقیقین اپنی تحقیق میں اس بات کا بھی خاص خیال رکھتے ہیں کہ اصل
واقعہ کتنا تھا اور راوی نے اس کو بیان کرتے ہوئےاس میں کتنا اضافہ کیا ہے۔
خوشگوار زندگی کا حصول:
مغربی محقیقین اپنی تحقیق سے خوشگوار زندگی کوبسر کرنے کے اصول دریافت کرتے
ہیں۔
معاشرتی ترقی کا حصول:
مغربی محقیقین اپنی تحقیق میں معاشرتی ترقی کو مدِنظر رکھتے ہیں ۔ کہ اس
تحقیق کی بدولت معاشرے میں کیا ترقی ہو گی۔ (37)
اسلام اور مغرب کے اصولِ تحقیق کا موازنہ:
مسلمان اہل علم و دانش اور سائنسدان دعویٰ کرتے ہیں کہ تحقیق کے اسلامی
نظریوں کے وِرثے کا بھاری ذخیرہ اُن کے پاس ہے جس نے صدیوں مسلم دنیا میں
علم اور سائنس کی رہنمائی کی ہے۔ اس سیاق میں اس مقالے میں جن سوالوں کا
جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، وہ یہ ہیں: کیا اسلامی اورمغربی تحقیق
کا وجودیاتی فریم ورک اتنا جامع اور ہمہ گیر ہے کہ اس سماجی پیچیدگی کا
احاطہ کرسکے جس کا مشاہدہ ایک تحقیق کار اپنی تحقیق کے دوران کرتا ہے ؟کیا
تحقیق کے اسلامی فلسفے، مغربی فلسفوں کا متبادل فراہم کرنے کے لائق ہیں؟کیا
عصرحاضر کے تناظر میں متبادل اسلامی زاویہ نگاہ پر مبنی اطلاقی تحقیق کے
نظریات کا پروان چڑھایا جانا ممکن ہے؟کیا اسلام اور مغرب کے اصول تحقیق ایک
جیسے ہیں ؟ تو ہم یہ بات ماننے پر مجبورہو گئےکہ مسلمانوں کے بنائے
گئےتحقیق کے اصولوں کو مغربی دنیا نے اپنایا ہے۔ جس کی بدولت انہوں نے
زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں ۔ مسلمانوں اورمغربی دنیا
میں تحقیق کے ملتے جلتے اصول درجہ ذیل یہ ہیں۔
علم کا ارتقاء
عینی مشاہدہ
صداقت شعاری
ثقہ معلومات
سائنسی طرز کا استدلال
صحیح اور واضح ریکارڈ تک رسائی
عقل وشعور کا استعمال
حریت فکراور آزادی رائے
معاشرتی فلاح وکامرانی
حقیقت بیانی
وہم وگمان سے اجتناب
خبر کی تصدیق
دل ونگاہ کی یکسانیت
علم کی کرشمہ سازیاں
عینی مشاہدہ
نگران کے اوصاف اور ذمہ داریاں
ترقی کاراز
جھوٹ کی وکالت کا خاتمہ(38)
اسلامی اور مغربی تحقیق کے اغراضِ ومقاصد:
اسلامی اور مغربی تحقیق کے اغراضِ ومقاصد کا اگرجائزہ لیں تو وہ بھی کافی
حدتک ایک دوسرے سے ملتے جلتے معلوم ہوتے ہیں۔ ان اغراضِ ومقاصد کے چند اہم
نکات حسب ذیل یہ ہیں۔
1. علمی ترقی کا حصول
2. اقتصادی ترقی کا حصول
3. امن وسلامتی کاقیام
4. معاشرتی برائیوں کا خاتمہ
5. عقل وشعور کا استعمال
6. نئی ایجادات کاحصول
7. معاشرتی ترقی حصول
8. معاشی مسائل کاحل
9. موضی بیماریوں کا خاتمہ
10. روح کی تسکین
11. مذہبی تعلیمات کا فروغ
12. جہالت کا خاتمہ
13. انسانی حقوق کا تحفظ
14. حق وباطل کا موازنہ
15. ثقافت کی منتقیلی(39)
خلاصہ بحث:
گویا کہ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ مغربی محقیقین اپنی تحقیق میں اسلام کے
بیان شدہ اصولِ تحقیق سے مدد حاصل کرتے ہیں ۔ تاکہ ان کی تحقیق میں کسی چیز
کی کوئی کمی باقی نہ رہےاور یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی تحقیقات مقبول عام ہوتی
جارہی ہیں۔
اسلامی اورمغربی محقیقین کی تحقیقات کا مقصد زندگی کے مسائل کا حل اور صحیح
راہنمائی حاصل کرنا ہے۔ علمی ترقی اور خبر کی پختگی وتصدیق کرنا مُحقق کا
اصل کام ہے ۔ محقق علم کے نور وبصیرت سے وہ صلاحیت وقابلیت حاصل کرتا ہے جو
عمل تحقیق کو پروان چڑھتا ہے۔ اہل علم ومعرفت کو تمام دیگرشعبہ جات زندگی
پر برتری اور فضیلت حاصل ہے۔
حقیقی علم اور اصل معرفت راہ حیات کی گتھیوں کو سمجھاتی ہے،کیونکہ ایسی سے
نجات کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ تحقیق اگرچہ وقت طلب کام ہے لیکن اس کے اثرات
ونقوش دیر پا ثابت ہوتے ہیں ۔ تحقیق کا اہم ترین کام جہالت کا خاتمہ اور
معاشرے میں امن وسلامتی کا قیام ہے۔
حوالہ جات وحواشی
1. فیروز اللغات اردوجامع،ص۹۷،طباعت فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹڈلاہور۔
2. فیروز اللغات اردوجامع،ص۱۳۲۸،طباعت فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹڈلاہور۔
3. علامہ اقبال اور مغربی تہذیب، ویکیپیڈیا۔
4. فیروز اللغات اردوجامع،ص۱۰۲،طباعت فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹڈلاہور۔
5. فیروز اللغات اردوجامع،ص۳۷۴،طباعت فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹڈلاہور۔
6. اصول تحقیق ، ص۸۹،طباعت نیشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد۔
7. سورت النسآء، آیت نمبر ۹۴، پارہ نمبر ۵۔
8. سورت العلق،آیات نمبر۵۔۴۔۳۔۲۔۱،پارہ نمر۳۰۔
9. تحقیق کے بنیادی عوامل،ص۳۶تا۹،طباعت مکتبہ الرحمانیہ لاہور۔
10. سورت البقرہ، آیات نمبر ۲۱۶۔
11. سورت البقرہ،آیات نمبر۴۷۔
12. سورت البقرہ،آیات نمبر ۷۸۔
13. سورت البقرہ، آیات نمبر۱۱۱۔
14. علامہ اقبال ، ویکیپیڈیا۔
15. سورت الصف، آیات نمبر۱،۲۔
16. سورت النساء:۵۸۔
17. سورتالتوبہ،آیات نمبر۳۰۔
18. سورت یونس،آیات نمبر۱۷۔
19. سورت البقرہ، آیات نمبر۱،۲۔
20. تعلیمی تحقیق اور اس کے اصول ومبادی ،ص۱۴۰۔
21. میگزین لوگی،شمارہ نومبرودسمبر۹۸،منصورہ ماڈل ڈگری کالج اداریہ،لاہور۔
22. علامہ اقبال ، ویکیپیڈیا۔
23. تحقیق کے روایتی اسلوب ، مقالہ ڈاکٹر نجم اسلام، ص۱۴۷۔
24. سورت الحجرات،آیات نمبر۶۔
25. الکتاب ،ترجمہ قرآن ترتیب وتہذیب، فاونڈیشن لاہور۔
26. علامہ اقبال ، ویکیپیڈیا۔
27. تحقیق کے اصول وضوابط احادیث نبویہ کی روشنی میں، طباعت مکتبہ
الرحمانیہ لاہور۔
28. صحیح مسلم، کتاب الرقاق، جلد۳،ص۵۱۹۔
29. صحیح مسلم، کتاب الرقاق، جلد۱،ص۷۸۔
30. السنن الدارمی،جلد۱، ص۴۱۔
31. صحیح مسلم، باب الادعیہ،ص۴۳۔
32. ترمذی ، کتاب الادعیہ،ص۴۵۶۔
33. تحقیق کے اصول وضوابط احادیث نبویہ کی روشنی میں،ص۱۹، طباعت مکتبہ
الرحمانیہ لاہور۔
34. صحیح مسلم، جلد۱،ص۷۳۔
35. صحیح مسلم، جلد۴،ص۴۱۹۔
36. تحقیق کے اصول وضوابط احادیث نبویہ کی روشنی میں،ص۲۰، طباعت مکتبہ
الرحمانیہ لاہور۔
37. تحقیق کے اصول وضوابط احادیث نبویہ کی روشنی میں،ص۲۵، طباعت مکتبہ
الرحمانیہ لاہور۔
38. تحقیق کے بنیادی عوامل،ص ۵۴تا۱۹،طباعت مکتبہ الرحمانیہ لاہور۔
39. تحقیق کے بنیادی عوامل،ص۱۳۶تا۳۵،طباعت مکتبہ الرحمانیہ لاہور۔ |
|