عصر حاضر میں تحقیقاتی لیبارٹری میں سب سے زیادہ تجربات
تعلیم پر ہورہے ہیں۔ آئے روز نت نئی پالیسیاں اور پھر ان میں ترمیم اور
بالاآخر اس پالیسی کی جگہ نئی پالیسی ۔ تعلیم پرائیویٹائزیشن سے کمر
شلائزیشن کا سفر طے کر رہی ہے۔ ہر ادارہ بہتر معیار اور مستقبل کے سہانے
خواب کا دعویدار ہے۔ میرٹ کا گھوڑا بے لگام ہوتا جا رہا ہے۔ ان نازک حالات
میں کالجز اور یونیورسٹیاں دورِ جدید سے ہم آہنگ پروگرام متعارف کروارہی
ہیں۔ سرکاری یونیورسٹیاں نجی تعلیمی اداروں کواپنے دائرہ کار میں لاکر
ڈورسٹیپ پر معیاری تعلیم کے لیے کوشاں ہیں۔ اس تناظر میں حالیہ چند برسوں
میں یونیورسٹی آف سرگودھا نے جس قدر اپنے دائرہ کار کو پنجاب کے تمام اضلاع
تک بڑھایا ہے اور اس میں مزید اضافہ بھی ہورہاہے۔ یہ مذکورہ یونیورسٹی کی
مقبولیت اور علاقائی یونیورسٹیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ پنجاب کی دیگر
یونیورسٹیوں کی نجی اداروں کو الحاق دینے کی سخت بلکہ بے جا سخت پالیسی نے
یونیورسٹی آف سرگودھا کو مناسب جگہ فراہم کی ہے۔
یہاں پر قابل ذکرامر یہ ہے کہ اب نجی اداروں کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں
گورنمنٹ ادارے بھی یونیورسٹی آف سرگودھا کے ساتھ الحاق حاصل کر چکے ہیں۔ یہ
بھی یاد رہے کہ یونیورسٹی آف سرگودھا نے اپنے تعلیمی معیار میں کہیں بھی
کوئی لچک نہیں دکھائی بلکہ مختلف پروگراموں میں بروقت امتحانات اور بروقت
نتائج نے اسے ایچ ای سی کی رینکنگ میں بہتر پوزیشن دلوادی ہے۔ بالخصوص
یونیورسٹی کی طرف سے کمپوزٹ ایم۔ اے کی سہولت اور پھر دوسرے سالانہ امتحان
میں بطور فریش امید وار کے طور پر امتحان دینے کی اجازت نے طلباء و طالبات
میں کشش پید ا کی ہے۔ 160 سے زائد پروگراموں میں 450 سے زائد الحاق شدہ
اداروں کے طلباء و طالبات مستفید ہورہے ہیں۔ علاقائی یونیورسٹیوں کے
امتحانی نظام کے نقائص اور سالہاسال تک نتائج کا اعلان نہ کرنے سے ان کی
مقبولیت میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ ہزاروں طلباء سلپ نہ ملنے سے امتحان میں
شریک نہیں ہوسکتے اور اگر کچھ خوش نصیب امتحان دے بھی دیں تو انہیں رزلٹ کے
لیے بہت لمبے عرصہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہزاروں طلباء و طالبات کا
مستقبل خطرے میں پڑچکا ہے۔
بڑی تعداد میں طلباء وطالبات کے یونیورسٹی آف سرگودھا میں داخلہ لینے کے
رجحان کو دیکھتے ہوئے علاقائی اور مقامی یونیورسٹیوں نے این او سی کی فیس
میں تین گنا اضافہ کردیاہے۔ اگر یونیورسٹی آف سرگودھا اپنی این او سی کی
پالیسی میں تھوڑی سی لچک پیدا کردے تومجھے امید ہے پنجاب بھر سے طلباء
وطالبات کا مختلف شعبوں میں داخلہ کیلئے ایک سمند ر امنڈ پڑے ۔ یونیورسٹی
کی اس بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیچھے یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر
محمد اکرم چوہدری صاحب کا ایک اہم کردار ہے۔ انہوں نے انتھک محنت اور خلوص
کے ساتھ چند سالوں میں یونیورسٹی کو پاکستان کی اعلیٰ ترین جامعیات کی
فہرست میں لاکھڑا کردیاہے۔ یونیورسٹی کے موثر امتحانی نظام کا سہرہ کنٹرولر
امتحانات پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری صاحب ، ڈپٹی کنٹرولر امتحانات
وقار احمد صاحب اور اسسٹنٹ کنٹرولر ضیغم عباس قریشی کے سر ہے۔ رجسٹریشن
برانچ میں انتہائی ایماندار اور محنتی سٹاف دن رات کوشاں ہے۔ یہاں پر
رجسٹرار یونیورسٹی آف سرگودھا برگیڈئیر ریٹائرڈ راؤ جمیل اصغر صاحب کی
خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے ساتھ ساتھ ڈپٹی رجسٹرار
مدثر کامران صاحب ، اسسٹنٹ رجسٹرار عمر حیات صاحب اور ایڈمن آفیسر غلام
محمد صاحب نے بھی یونیورسٹی کے معیار کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیاہے۔
چئیر مین الحاق کمیٹی جناب شمس البصرصاحب اور ڈاکٹر محمد علی صاحب دن رات
پورے پنجاب کے طول وعرض میں سفر کی مشکلات کو برداشت کرکے یونیورسٹی کے
دائرہ کار کو بڑھانے میں سرکردہ ہیں۔ یہ ٹیم ورک کا نتیجہ ہے کہ یونیورسٹی
کے گراف میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے اور پنجاب کی دیگر جامعیات کیلئے یہ
لمحہ تشویش ہے کہ ان کی حدود میں موجود ادارے ان کو چھوڑ کر یونیورسٹی آف
سرگودھا کے ساتھ الحاق کروانے کی کوشش کررہے ہیں۔
زیر بحث موضوع کی طوالت کو ان الفاظوں کے ساتھ سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں کہ
آج کا دور بے روزگاری اور غربت کا دور ہے۔ آبادی کی بڑھوتری اور ناانصافی
نے طلباء و طالبات میں مایوسی بڑھادی ہے۔ ان حالات میں کوئی جامعہ جو بروقت
امتحان لے ، منصفانہ طریقے سے مارکنگ کروائے اور بروقت نتائج کا اعلان کرے
وہی جامعہ طلباء و طالبات کیلئے امید کی ایک کرن ہوتی ہے۔ چاہے فاصلے جتنے
ہی کیوں نہ دور ہوں لیکن اگر سہولیات ذہنی سکون کا باعث ہوں تو پھر وہ
فاصلے فاصلے نہیں لگتے اور یہی وجہ ہے کہ طلباء وطالبات نزدیکی جامعیات کو
چھوڑکر دور کی کامیاب جامعیات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ |