دعوت، قولی و فعلی

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

کاشف نے اپنی فیکٹری کا سودا ۴ کڑور میں کیااور اس نے دس فیصد بیعانہ یعنی ۴۰ لاکھ روپئے وصول کر لئے ، مشتری (خریدار) نے بقیہ رقم ۳ ماہ میں دینے کا وعدہ کیا لیکن ۳ ماہ گزرنے کے بعد مشتری رقم کا انتظام نہ کر سکا اور معذرت کر لی ، مارکیٹ کے اصول کے مطابق مشتری نے یہ خیال کر لیا کہ بیعانہ کی رقم واپس نہیں ملے گی ، کاشف نے اس معاملے میں دینی راہ نمائی حاصل کی ، مسئلہ دریافت کیا، علماء کرام نے فرمایا کہ بیعانہ ضبط کرنا جائز نہیں۔ کاشف مشتری کے دفتر گیا اور انہیں اطلاع دی کے وہ بیعانہ کی رقم واپس کرنے آیا ہے ، مشتری کو یقین نہ آیا کہ اتنی بڑی رقم بھی کوئی واپس کر سکتا ہے جب کاشف نے شرعی مسئلہ بتایا تو مشتری جو کہ پہلے دین سے بالکل غافل تھا ،کاشف کے اس عمل نے اسے ایسا متاثر ہواکہ اس کی زندگی تبدیل ہو گئی۔

مولانا طارق جمیل مدظلہم نے اپنے ایک بیان میں فرمایا کہ قولی دعوت سے عملی دعوت زیادہ موثر ہوتی ہے ، پھر فرمایا کہ طالب علمی کے زمانے میں بیرون ملک سے ایک جماعت آئی ،جس نے بیان کیا وہ نیا مسلمان ہوا تھا، اس نے کہا کہ ہماری مثال ایسی ہے کہ ہم آپ سے راستہ پوچھتے ہیں کہ مثلا لاہور کہاں ہے؟ آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کر کہ بتایا کہ لاہور اس طرف ہے اور ہمیں بھی لاہور ہی جانا ہے ، پھر تھوڑی دیر بعد دیکھا تو آپ شمال کی طرف جارہے ہیں ، ہم نے اعتراض کیا کہ آپ نے کہا کہ لاہور مشرق کی جانب ہے اور آپ جارہے ہیں شمال کی جانب، تو ہم آپ کے عمل کے دیکھیں یا آپ کے قول کو؟مولانا نے ایک اور واقعہ بیان فرمایا کہ لاہور سے کراچی ہوائی سفر کے دوران ایک غیر مسلم سے بات ہو رہی تھی وہ بڑا متاثر ہو رہا تھا ، باتوں باتوں میں یہ بات بھی آگئی کہ شراب اسلام میں حرام ہے وہ یہ سن کر یکدم چونک گیا اور اس نے کہا کہ میں کپڑے کا تاجر ہوں کئی ملکوں کے سفر کر چکا ہوں اور میں سب سے اچھی شراب کراچی میں پیتا ہوں ۔ مولانا نے فرمایا کہ میری ساری قولی دعوت کا اثر ایک غلط عمل سے زائل ہو گیا ،

الحمداﷲ واعظ و نصیحت ، بیانات تو بہت ہو رہے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں عملی دعوت کے مناظر بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں ، اور جہاں تھوڑا بہت عمل ہوتا ہے اس کا بھر پور اثر ظاہر ہوتا ہے ، وجہ یہی ہے کہ جس چیز کی طلب ہواور رسد نہ ہو تو اس چیز کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔

عمل کی کمی کی ایک بڑی وجہ علم کا نہ ہونا ہے ، بیانات میں تو لوگوں کی بڑی شرکت ہوتی ہے لیکن عملی زندگی کے لئے مسائل سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ، اکثریت بیان سننے تک محدود ہوتی ہے مسائل بہت کم لوگ پوچھتے ہیں،اور ان میں بھی اکثر نماز، روزہ، طلاق وغیرہ تک محدود ہوتے ہیں ، مدارس کے دارافتاء میں پوچھے گئے سوالات ہی سی اندازہ ہو جاتا ہے کہ معاشرے کی عملی زندگی رخ کسی طرف ہے ، مولانا تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ نماز ، روزہ کے مسائل تو علماء سے پوچھتے ہیں لیکن شادی بیاہ کے مسائل اپنی عورتوں سے پوچھتے ہیں، اسی کا ردعمل آج نظر آرہا ہے ، اچھے خاصے بظاہر دین دار لوگ اس معاملے میں عورتوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔

کاروباری معاملات میں ہماری معلومات بس اس حد تک ہیں کہ سود حرام ہے، عام بنکوں میں ملازمت ٹھیک نہیں ، ملاوٹ کرنا جرم ہے وغیرہ اس کے آگے کے مسائل کا علم ہی نہیں نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ، نماز کے فرائض ، واجبات ، سنت وغیرہ کو سمجھتے ہیں ، لیکن بیع باطل کیسے کہتے ہیں، بیع فاسد کیا ہے ؟ اس کے الفاظ سے بھی آج کا مسلمان تاجر ناواقف ہے ، بعض اوقات ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے کہ جو عام بنکوں کی ملازمت کرنے والوں کی دعوت میں نہیں جاتے ان کے یہاں رشتہ نہیں کرتے ، انکا کوئی ہدیہ قبول نہیں کرتے لیکن دوسری طرف خود بیع باطل کا معاملہ کر کے حرام کماتے ہیں اور انہیں احساس تک نہیں ہوتانہ ہی سیکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ، ہمارے یہاں کاروباری علاقے میں لین دین کے مسائل پر مشتمل کورس شروع ہوا لیکن لوگوں کی عدم دلچسپی کی باعث پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا اس کے برعکس اگر کسی معارف مقرر کا بیان ہو جائے تو تل دھرنے کی جگہ نہ ملے۔
بعض لوگ خود عمل نہیں کرتے تو کسی سے کہتے بھی نہیں ، علماء فرماتے ہیں کہ یہ تو دوھرا جرم ہے، کہنا بھی ہے اور خود عمل بھی کرنا ہے-

قول و فعل جب ایک ہو گا تو بات بنے گی ، لوگ جس کا بیان شوق سے سننے گے لامحالہ اس کی ایک ایک ادا کو بھی دیکھیں گے، ایک عام آدمی کے برعکس داعی اگر اﷲ کی نافرمانی کرے گا تو اس کا نقصان زیادہ ہو گا ، اسی کی طرف مولانا طارق جمیل صاحب مدظلہم نے اشارہ فرمایا کہ قولی دعوت سے عملی دعوت زیادہ موثر ہوتی ہے ۔

مالک بن دینار ؒ کا ارشاد ہے کہ بے عمل کی نصیحت دلوں پر وہی اثر کرتی ہے جو بارش سنگلاخ چٹان پر۔اس لئے اپنی دعوت میں جان پیدا کرنے کے لئے عملی زندگی کی فکر کر کے معاملات، معاشرت، اخلاقیات،سیاست کا علم حاصل کرکے اس جانب پہلا قدم رکھیں۔
Ilyas Katchi
About the Author: Ilyas Katchi Read More Articles by Ilyas Katchi: 40 Articles with 35373 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.