روزہ کا فائدہ اور اس کا مقصد
(Shamim Iqbal Khan, India)
رمضان شریف کے روزے ہر مسلمان
عاقل ، بالغ مرد و عورت پر فرض ہیں۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے ایمان والو!
تم پر روزے فرض کیے گئے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ و پرہیزگاری پیدا ہو۔یہ
پورا مہینہ عبادت کا ہوتا ہے لہذا ہمیں پورے مہینے کا ایک ایک لمحہ حقوق اﷲ
اور حقوق العباد میں ہی گزارنا چاہئے۔ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جس طرح جمعہ
کا دِن مسلمان گزارتا ہے اُسی طرح اگلا پورا ہفتہ گزرے گا۔اور جس طرح سے
مسلمان روزے کا مہینہ گزارتا ہے اگلا پورا سال بھی اُسی طرح سے گزارے گا۔اس
طرح سے پورے سال کی قدر و قیمت رمضان کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے۔ظہر میں بارہ
رکعاتیں اور عشاء میں ستّرہ رکعاتیں پڑھی جاتی ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوں گے
جو عام دنوں میں پوری رکعاتیں پڑھتے ہوں(یعنی تمام سنّتوں اور نوافل کے
ساتھ) زیادہ تر لوگ رکعاتیں چھوڑنے والے ملیں گے لیکن یہی لوگ رمضان شریف
میں پوری رکعاتیں پڑھیں گے اور قضائے عمری بھی ادا کریں گے۔
دراصل رمضان کا نظام ایسا بنایا گیا ہے کہ اس میں صرف عبادت کی جائے۔اور
درس و تدریس یا وعظ و نصیحت کے ذریعہ قوم کے عام مسلمانوں کی دینی تربیت کا
نظام بنایا جائے جیسا کہ عموماًبزرگان دین کے یہاں رمضان کا نظام پایا جاتا
ہے۔رمضان قطعی طور پر اس لیے نہیں ہے کہ اس میں عید کی تیاری کی جائے۔ یہ
کام تو رمضان سے پہلے کا ہے۔جیسے عام نمازوں کے اوقات کے درمیان کی مصلحتیں
ہیں کہ فجر اور ظہر کے دوران طویل وقفہ ہے کہ اس میں محنت کی جائے، روزی
روٹی تلاش کی جائے یہ وقفہ تقریباً آٹھ گھنٹوں کا ہوتا ہے( اور فطری طور پر
ایک انسان اس سے زیادہ محنت بھی نہیں کرپاتا) پھر ظہر کے بعد کا کھانا اور
قیلولح اور عصر ، مغرب اور عشا میں وقفہ بہت مختصر ہے کہ اب اﷲ کو یاد کیا
جائے۔بالکل یہی ترتیب رمضان کی بھی ہے۔
روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا بدلہ اﷲ تعالیٰ خود اپنے ہاتھوں سے دیتا
ہے۔کیونکہ روزہ دار کا تعلق سیدھا اﷲ رب العزت سے رہتا ہے۔روزہ رکھنے والا
خود جانتا ہے کہ وہ روزے سے ہے یا پھر اﷲ جانتا ہے کہ وہ روزے سے ہے، تیسرا
کوئی شخص نہیں جان سکتا ۔ یہ ایک مخفی عبادت ہے اس لیے اﷲ نے اس کا ثوا ب
بھی مخفی رکھا ہے’’میں خود اس کا بدلہ دوں گا‘‘۔ روزہ کے علاوہ تمام
عبادتوں کی ظاہری شکلیں ہیں لیکن رزہ کی کوئی ظاہری شکل نہیں ہے۔یہ اﷲ
تعالیٰ کا ڈر ہی ہوتا ہے کہ روزہ دار شدید گرمی میں ٹھنڈے پانی سے وضوء
کرتا ہے، کیا مجا ل ہے کہ پانی کی تری حلق کے نیچے اُتر جائے۔اگر کوئی
مسلمان شراب پیتا ہے اور کسی دِن اس نے روزہ کے اہتمام کر لیاتو کسی طرح کی
لالچ اس کا روزہ نہیں ختم کرا سکتی ہے۔اسی کو تقوی کہتے ہیں یعنی اﷲ کے خوف
سے نفس کو اور نفسانی خواہشات کو کابو میں رکھا جائے کیونکہ نفس شیطان کا
نمائندہ ہوتا ہے۔ اس نفس کو قابو میں کرنے کی مشق رمضان میں کرائی جاتی ہے
تاکہ یہ’ نفس امّارہ ‘ (انسان کی وہ خواہش جو برائی کہ طرف مائل کرے)سے
’نفس مطمئنہ‘ (حکم الٰہی پر چلنے والا نفس) میں تبدیل ہو جائے اور جیسا کہ
تمام لوگ واقف ہیں کہ آدم کو شیطان نے بہکایا تھا لیکن اہم سوال یہ ہے کہ
شیطان کو کس نے بہکایا تھا؟شیطان کو بہکانے والا کوئی اور نہیں تھا بلکہ اس
کا نفس ہی تھا۔
رمضان کے سلسلہ میں جو لوگ غفلت برتتے ہیں ان کو چاہئے کہ اس سے توبہ کریں
اور ہر لمحہ عبادت میں گزرے، چاہے وہ حقوق اﷲ کی ادائیگی والی عبادت ہو یا
حقوق العباد کی ادائگی ہو تبھی ہم جبریلؑ کی اُس بد دعا سے بچ سکتے ہیں جس
میں انھوں نے کہا تھا ’’لعنت ہے اُن پر جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنی
مغفرت نہ کرا سکا اور اس بد دعا پر حضور اقدس ؐ کا آمین کہنا‘‘۔لہذا ہر
مسلمان کی پوری کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اپنی مغفرت اس ماہ مبارک میں کرا
لے۔یہ اﷲ کا بڑا کرم اور احسان ہے کہ اس نے ہماری مغفرت کاراستہ ہمیں بتا
دیا ہے۔
اور آخیر میں ایک اہم گزارش یہ ہے کہ بہت سے حضرات کسی وجہ سے بچپن میں
قرآن نہیں پڑھ پاتے ہیں یا اٹک اٹک کر پڑھ تے ہیں تو ان کو چاہئے کہ اس ماہ
میں قرآن پڑھنا سیکھ لیں یا صحیح طرح سے پڑھنا سیکھ لیں، مسجد میں ظہر یا
عصر کی نماز کے بعدامام مسجد یا دیگر حفاظ سے یاکسی اور قرآن کے جان کار سے
قرآن پڑھنے میں مدد لے سکتے ہیں۔رمضان کے ماہ میں چونکہ شیطان قید ہے اور
ہر اچھے عمل کا ثواب بڑھا دیا جاتاہے اس لیے قرآن کے سیکھنے سکھانے کا ثواب
بھی زیادہ ملے گا۔لو گ اکثر کہہ دیتے ہیں ارے! اس عمر میں کیا
پڑھنا۔حالانکہ وہ قرآن پڑھنے کا ثواب جانتے ہیں اسی لیے قرآن کھول کرسطور
پر انگلیاں پھیر کر ثواب حاصل کرتے رہتے ہیں۔پڑھنے کا ْثواب نہیں ملے گا تو
کم سے کم حروف کو چھونے کا تو ثواب ملے گا۔
ارے بھائی! قرآن پڑھنے کا بھی ثواب لیں ، قرآن سیکھیں، جب آپ موٹر سائکل
چلانا سیکھ سکتے ہیں، اسمارٹ فون چلانا سیکھ سکتے ہیں،کار چلانا سیکھ سکتے
ہیں،کمپیوٹر چلانا سیکھ سکتے ہیں تو قرآن پڑھنا کیوں نہیں سیکھ سکتے؟قرآن
سیکھنے کے لیے عمرنہیں نکلی۔جبھی جاگے تبھی سویرا۔بڑھی عمر میں قران سیکھنے
کا بڑھا ہوا اجر ہے۔ |
|