رمضان کی یہ مبارک ساعتیں اور خون خرابے کا خبریں

الحمدﷲ ہماری زندگی میں ماہ مبارک رمضان کا ایک اورپہلا عشرہ گزرگیا اورہم دوسرے عشرے میں داخل ہوگئے۔وہ بڑے ہی خوش نصیب ہیں جنہوں نے اس عشرے میں اپنے اعمال سے خود کو اﷲ کی رحمت خاص کا مستحق بنالیا اوراب دوسرے عشرہ میں ان کی محنتیں ان کیلئے مغفرت الٰہی کی نوید لائیں گیں ۔زندگی نے وفا کی اور للٰہیت کا یہ جذبہ یوں ہی آخری عشرے میں بھی جاری رہا، تو اﷲ فضل وکرم سے امید ہے کہ وہ ہمارے ان گناہوں کو بھی بخش دے گا جن کی بدولت ہم نے خود کو سزائے عظیم یعنی جہنم کا مستحق بنالیا ہے۔ یہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے اس حدیث نبوی کا جس میں آپ نے فرمایا کہ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت ، دوسرا مغفرت اورتیسرا آگ سے نجات ہے۔ چنانچہ جس کے دل میں ایمان کی زراسی بھی رمق ہے، رمضان شروع ہوتے ہی اس کے اعمال میں اس کا اثر نظرآنے لگتا ہے۔مگریہ اثرآخر تک برقراررہنا چاہئے۔

یہ مہینہ تزکیہ نفس کے لئے خاص ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کااحساس پوری طرح سے پیدا نہیں ہوا ہے۔چنانچہ پہلے رمضان کو مساجد میں جو رونقیں نظرآئی تھیں وہ چندروز بعد ہی کم ہونے لگیں۔ دس ہی دن میں نمازیوں کی تعداد ایک چوتھائی کم ہوگئی ۔ یہ بڑی خسارے کی بات ہے۔ابھی وقت ہے کہ لوگ لوٹ آئیں اورفلاح آخرت کی منزل کی طرف سفر کوجاری رکھیں۔

قرآن پراگرغورکریں تواس کا بڑا حصہ انسانی ہمدردی کا درس دیتا ہے۔ قرآن ہمیں ہرطرح کی ظلم وزیادتی سے روکتا ہے۔ماہ رمضان کیونکہ نزول قرآن کے ساتھ بھی خاص ہے اس لئے اس پر توجہ خاص ہوتی ہے اور ہرصاحب ایمان میں یہ جذبہ فطری ہوتا ہے کہ اس کے احکام پر عمل کرے۔ لیکن اگراس ماہ مبارک میں کوئی شخص، کوئی گروہ ، کوئی طاقت اسلام کے نام پر انسانوں کے خون خرابے کواپنے اوپر جائز قرار دے لے ، یہاں تک کہ مساجد میں حالت نماز میں روزہ داروں کو بھی نشانہ بنانے لگے تو اس میں شک کی کیا گنجائش ہے کہ ان افراد اورگروہوں کے نام بھلے ہی مسلمانوں جیسے ہوں ،لیکن انہوں نے اﷲ کے غضب کو دعوت دی ہے۔ اب اگرکوئی شخص اﷲ کے غضب سے نہیں ڈرتا تواس کا مطلب یہ ہے اس کو اس ’یوم الدین ‘ کا یقین نہیں جوہمارے ایمان کی بنیاد ہے۔ جس کا برپا ہونا برحق ہے ۔ یہ وہ دن ہوگا جب اﷲ ان تمام خطاکاروں کوسزادیگا، انتہائی سخت سزا، جنہوں نے جانتے بوجھتے انسانوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا۔
نیکیوں کے اس موسم بہار میں جن شقی قلبوں نے کویت کی مسجدمیں جمعہ کی نماز کے دوران بم دھماکہ کیا جس میں کم ازکم 13 افراد عین حالت نمازمیں شہید ہوگئے، ان سفاک قاتلوں پر خداکی یقینا لعنت ہوگی اوروہ اس دنیا میں اورآخرت میں اس گناہ کی سزاسے بچ نہیں سکتے۔یہ اﷲ کا وعدہ ہے۔

اس سانحہ پر، جوکویت کی مسجد میں اوراس سے قبل سعودی عرب کی مساجد میں پیش آیا، ہمیں ایک مکتوب یاد آرہا ہے جو ایران کی ایک معروف ہستی آیت اﷲ گلپائگانی کو جنگ عراق میں ان کے صاحبزادے کی شہادت پر ایک فرانسیسی خاتون نے لکھا تھا ۔یہ خط ہمیں جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر محمد یوسف ؒ سے ملا تھا جنہوں نے بغرض تعزیت سفرایران کے دوران ان سے ملاقات کی تھی۔ (ہم نے اس کااردو ترجمہ سہ روزہ دعوت، نئی دہلی میں شائع کرایاتھا۔) لب لباب اس خط کا یہ ہے کہ یہ خاتون ایک دن جب ایک کتاب واپس کرنے لائبریری پہنچی تواس کے بند ہونے کاوقت ہوچکا تھا۔ صرف ایک نوجوان موجود تھا جو نکلنے والاہی تھا۔ پہلے وہ خاتوں جھجکی مگر جب اس نوجوان نے پوچھا میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں، تواس نے کہا،مجھے کتاب واپس کرنی تھی اوردوسری لینی تھی مگردیرہوگئی۔ اس نوجوان نے اسے منع نہیں کیا۔ تالا کھولا۔ کتاب جمع کی اوراس کی مطلوبہ کتاب بھی نکال کر دیدی۔ لڑکی نے اس تعاون کا شکریہ ادا کیا اور چلی گئی۔ اس کے بعد وہ کئی مرتبہ لائبریری آئی۔ اس نوجوان نے ہربار پراس کی معاونت کی اوربس۔ وہ خاتون حیرت زدہ تھی کہ ایسا بھی کیا؟ میں نوجوان ہوں۔ خوبصورت بھی ہوں۔ مگراس نوجوان پر اس کا کوئی اثر نہیں۔ہرملاقات کے بعد لڑکی کا تجسس اوربڑھ جاتا۔ آخر ایک دن اس نے اس کو اپنے گھرمدعوکرلیا۔وہ چلا گیا۔ نماز کا وقت ہواتو اس نے نماز بھی ادا کی۔چائے پی۔ کچھ باتیں کیں۔ آخراس لڑکی نے سوال کرہی لیا، کیا تم کومجھ میں کوئی کشش نظر نہیں آتی؟ اس نوجوان نے جواب دیا ’’میں مسلمان ہوں ۔میرادین اس کی اجازت نہیں دیتا کہ غیر محرم میں ایسی ویسی دلچسپی لوں۔‘‘ ایک خوبرو نوجوان سے، جو غیرشادی شدہ ہے اورتنہا فرانس میں رہتاہے، یہ جملہ سن کروہ لڑکی حیرت میں ڈوب گئی۔ چنانچہ اس میں اسلام کو سمجھنے کی جستجو پیدا ہوئی اوراس کے مطالعہ کا رخ بدل گیا۔

اسی دوران عراق،ایران سرحد پر جنگ چھڑ گئی اور وہ نوجوان جوایرانی تھا، وطن واپس چلا گیا اور محاذپرشہید ہوگیا۔ اس سانحہ پر اپنے تاثرات کااظہارکرتے ہوئے اس خاتون نے اس نوجوان کے بزرگ والد محترم کو لکھا تھا اﷲ نے آپ کو ایسا بلندکرداربیٹا عطاکیا، پھر اسے نوجوانی میں ہی آپ سے لے لیا۔ اس آزمائش میں آپ یقیناثابت قدم رہے۔ میں بیٹے کی ایسی تعلیم وتربیت ، اس کی نیک خوئی اوراس کی شہادت پراور آپ کے صبر و استقامت پر تعزیت نہیں مبارکباد پیش کرتی ہوں۔‘ اس نے خط میں ان کے بیٹے سے اپنی ملاقاتوں کا ذکربھی کیا ۔

اس کے کچھ عرصہ بعد یہ خبربھی آئی کہ وہ خاتون پورے اطمینان قلب کے ساتھ اسلام میں داخل ہوگئی۔ یہ ہے اسلام اوراس کا عملی مظاہرہ ۔ وہ نہیں جس کا اظہارآئی ایس اوربوکوحرام جیسے سفاک گروہ اسلام کے نام پرکررہے ہیں۔ میرادل چاہتا ہے کہ کویت اوراس سے قبل سعودی عرب کی مساجد میں بم دھماکوں کے شہیدوں کے اہل خاندان کوتعزیت کے ساتھ مبارکباد بھی پیش کروں۔ موت تو برحق ہے۔ ایک دن آنی ہے۔نبی کریم کا ارشاد ہے جو صدق دلی سے نماز کے لئے نکلا اوراس کی موت آگئی اورکی مغفرت ہوگئی۔چنانچہ جوشخص رمضان میں روزہ سے، حالت نماز میں آئی مسجد کے اندر ظلماً لقمہ اجل بن گیا ، اس کی مغفرت میں کیا شک کیا جاسکتا ہے۔ یقینا وہ فلاح پاگیا۔ اﷲ ان کے اہل خاندان کو صبرجمیل عطا فرمائے۔آمین
کویت کے واقعہ پرجناب سیدعلی شاہ گیلانی کا یہ فرمانا بالکل بجا ہے کہ داعش اور بوکو حرام وغیرہ گروہ جو اس طرح کی حرکتیں کررہے ہیں، غیراسلامی گروہ ہیں ۔ اسلام ماضی میں بھی بلنداخلاق اوراعلاکردار سے پھیلا ہے اورآج بھی اس کو پیاراورمحبت سے ہی دوسروں کے دلوں میں اتاراجاسکتا ہے۔ گیلانی صاحب کایہ کہنا بھی ہے کہ ان خونخوارتنظیموں کے پیچھے اصل میں اسلام اورمسلمانوں کی دشمن طاقتوں کی سازش کارفرما ہے جو چاہتی ہیں کہ مسلم ریاستیں ٹوٹ پھوٹ جائیں اورمسلمان آپس میں ہی لڑکر کمزور ہو جائیں۔ یہ ساری سازشیں تل ابیب اورواشنگٹن میں تیارہوتی ہیں۔ اوران کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمارے خام ذہنوں کواستعمال کیا جاتا ہے۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ گیلانی صاحب کاگمان درست ہے۔سیدعلی شاہ گیلانی کا یہ ناصحانہ بیان یقینا قابل توجہ ہے،’کوئی شیعہ ہو یا سنی، ہم سب ایمانی بھائی ہیں۔‘ہاں ہم سب شیعہ سنی، دیوبندی ، بریلوی وغیرہ ایمانی بھائی ہیں۔

دشمنان اسلام تو جوکچھ کررہے ہیں وہ جگ ظاہر ہے لیکن زیادہ افسوس اور ملامت کا مقام یہ ہے کہ ہمارے بعض علماء بھی فساد فی الارض برپا کرنے میں تردد محسوس نہیں کرتے۔وہ بھی عام مسلمانوں کے خام ذہنوں کومسلکی بنیادوں میں فساد پربا کرنے کیلئے استعمال کرر ہے ہیں۔ یہاں تک کہ مساجدکو بھی، جو اﷲ کا گھرہیں اور اس کی عبادت کاجگہ ہیں،نشانہ بنایا جارہاہے۔ اﷲ کے رسول کا مشن توکفار کوداخل اسلام کرنا تھا اوران مذہبی لیڈروں نے تکفیر کو اپنا مذہب بنالیا ہے۔ ان کے دل ودماغ میں اسلام کے نورکے بجائے مسلکی فتور بس گیا ہے اورسمجھتے ہیں کہ بعض مراسم کی ادائیگی ان کو نارجہنم سے بچالے گی۔ کیا وہ نہیں پڑھتے قرآن کا یہ فرمان:’ پس ہلاکت ہے ان نمازپڑھنے والو ں کیلئے جو اپنی نمازوں سے بے خبر ہیں اورریاکاری کرتے ہیں‘۔سورہ الماعون(۱۰۷)

مسلک کی بنیاد پرتشدد کی تاریخ توپرانی ہے۔ پاکستان اورعراق میں اس کا عرصہ سے مظاہرہ ہورہا ہے۔ خلیجی ممالک میں مسلکی اقلیتوں کے انسانی حقو ق کی خلاف ورزیوں کی خبریں بھی برابرآتی رہیں۔لیکن اس میں شدت حالیہ دنوں میں آئی ہے ۔ ہمارے علم کی حد تک خلیجی ممالک میں یمنی بحران کے بعد کشیدگی اورکبیدگی بڑھی ہے۔ کم فہم، کمینہ فطرت،علم سے بے بہرہ ذہنوں کا تو کہنا ہی کیا، ایک پوری مملکت جو اسلام کے نام پرقائم ہوئی جابجامسلکی بنیادوں پرفتنے کھڑے کررہی ہے۔ہم اس مملکت کے رہبروں سے، جو پنجہ کشی میں کمال رکھتے ہیں، امریکا اوراسرائیل کو بھی مات دے سکتے ہیں، گزارش کرتے ہیں کہ عالم اسلام کا اتحاد واتفاق ان کیلئے بھی بڑی طاقت بن سکتا ہے۔ اس لئے عرب ممالک سے اختلافات کو دور کرنے اورباہم اعتماد کی فضا پیدا کرنے کی پہل کرنی چاہئے۔ اس وقت عالم اسلام اس اتحاد کا پہلے سے زیادہ ضرورتمند ہے اورعوام میں اس کی خواہش بھی پہلے سے زیادہ ہے۔ یہی گزارش ہمیں دوسرے مسلم ممالک اورتنظیموں سے بھی کرنی ہے۔ سب مل کرکوشش کریں گے تبھی یہ دشمنیاں ختم ہونگیں۔

آخری بات :میں اپنے ہم وطن مسلمانوں سے کہنا چاہتا ہوں۔ مسلم ممالک کی صورتحال پرنظرڈالئے اوراپنے آس پاس کے خالص مسلم ممالک کو دیکھئے اوراﷲ کا شکر ادا دیجئے کہ لاکھ شکوے شکایتوں کے باوجود ہم یہاں زیادہ بہترحالت میں ہیں۔ ہمیں اپنے درمیان نئی دراریں پیداکرنے کے بجائے صبروتحمل اورباہمی رفاقت کی فکر کرنی چاہئے۔تاکہ ہماری کمزوریوں سے دوسروں کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ میں ملت اسلامیہ کے ناقابل عمل نعرہ’ اتحاد‘ کا قائل نہیں۔ البتہ آپس میں عناد اوردشمنی کے بجائے رفاقت اورغم گساری ہونی چاہئے۔اختلاف کا مطلب نفرت ، حقارت اوردشمنی نہیں ہونا چاہئے۔

آپ کے خیال سے اگر کوئی راہ سے بھٹکا ہوا بھی ہے تواس کو دھتکارنا اس کا علاج نہیں۔ رسول کی سنت پرعمل کیجئے اور اس بڑھیا کی بھی خبرگیری لیجئے جوروزآپ ؐ پرکوڑا پھینکتی تھی۔ خدمت خلق میں حصہ لیجئے اوراس نسبت کو روشن کیجئے جو ایک عورت کا سامان سرپررکھ کراس کی منزل تک پہنانے والے ہادی برحق سے جس نسبت کا دعوا ہم کرتے ہیں۔ (ختم)
 
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 162817 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.