سخت راتوں میں بھی آسان سفر لگتا ہے یہ میری ماں کی
دعاؤں کا اثر لگتا ہے
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش میں نے اک بار کہا تھا کہ مجھے ڈر لگتا
ہے
زمین پر رہنے والے تمام جاندار خواہ وہ انسان ہوں یا حیوان ہوں سب کی کوئی
نا کوئی پناہ گاہ ضرور ہوتی ہے شریف ہو یا شریر ہو سب کی کوئی نہ کوئی پناہ
گاہ ضرور ہوا کرتی ہے جہاں اے سکون اور امن ملتا ہے جب بھی اسے کسی قسم کا
خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ اپنی پناہ گاہ کی طرف بھاگتا ہے انسان کو جب سے پہلی
اور بہترین پناہ گاہ خدا کی طرف سے انسان کو دی جاتی ہے وہ والدہ کی بانہیں
ہوتی ہیں۔ آپ تصور کریں کی جب بھی کسی بچے کو کسی چیز سے ڈر محسوس ہوتا ہے
تو وہ بھاگ کر اپنی ماں کی بانہیوں میں پہنچ جاتا ہے اسے محسوس ہوتا ہے کہ
میں کہیں بھی محفوظ نہیں ہوں سوائے اپنی ماں کی بانہوں کے ۔ اور جب ہم جوان
بھی ہو جاتے ہیں تو ہماری ماں کی دعائیں ہماری راہ میں روشنی مشعل بن کر
ہمارا ساتھ دیتی ہیں اور ہماری حفاظت کرتی ہیں کسی شاعر نے کہا ہی خوب کہا
ہے
لاکھ اپنی گرد حفاظت کی لکیریں کھنچوں ایک بھی ان میں نہیں ماں کی دعاؤں
جیسی
بے شک والدہ خدا کی طرف سے انسان کو عطاء کی گئی نعمتوں میں سے ایک عظیم
الشان نعمت ہے ۔ماں کیا ہے یہ محض ایک لفظ نہیں ہے بلکہ محبتوں کا بے کنار
سمندر ہے ایک عظمت کی دیوی ہے ایک محبت کرنے والی ایسی ہستی ہے جس کا کوئی
ثانی نہیں ہے ۔ مان ایک ایسی ہستی ہے جس کے سامنے دنیا کی ہر محبت کم تر ہے
ماں جیسا محبت پیار اور اخلاص ہم کو کسی جگہ سے مل نہیں سکتا ہے
اسی لئے پنجابی زبان کا مشہور معقولہ ہے۔
ماں واں۔۔۔۔۔ٹھنڈیاں چھاواں
اور ایسے ہی مشہور ہے۔
ماں کی دعا۔۔۔۔۔ جنت کی ہوا۔
ماں ایسے ہستی ہے جو کہ اپنا حال ہمارے مستقبل کے لئے بھی قربان کردیتی ہے
۔ ہماری خوشیوں کے لئے اپنی مسرتوں کی قربانی بڑی خوشی سے کر دیتی ہے ۔ جو
خود روکھی سوکھی کھاتی ہے مگر ہمیں اچھی خواک دیتی ہے اور جو خود کو زیورات
سے محروم کر دیتی ہے مگر ہمیں زیورے علم سے آراستہ کردتی ہے تا کہ ہم کا
میاب زندگی بسر کر سکیں ہمیں کسی قسم کی کمی محسوس نہ ہو ۔
گاؤں سے آکر پڑھنے والے بھول گئے کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
ہم خواہ کتنے ہی برے ہوں مگر ہمیں اچھا کہتی ہے ہماری شکل جیسی بھی ہو ہمیں
’’ میرا چاند ‘‘ کہ کر مخاطب کرتی ہے۔ ماں خود تو بچے کے پیشاب آلود اور
ٹھنڈے بستر پر سو جاتی ہے مگر اپنے بچے کو صاف اور سوکھی جگہ پر لٹا دیتی
ہے ۔دنیا میں انسان بہت سے رشتوں میں جکڑا ہو ہے مگر ان تمام رشتوں میں سے
ماں کا رشتہ ہی ایسا ہے جو کہ بے لوث ہے اور اس سے بڑھ کر ماں کی عظمت کا
ثبوت کیا ہو گا کہ اﷲ کریم جب انسان سے محبت کا دعوی کرتا ہے تو اس کے لئے
محبت کی مثال ماں کو بناتا ہے اور فرماتا ہے کہ ’’ میں انسان سے ستر ماؤں
سے زیادہ محبت کرتا ہوں‘‘ یعنی بے پناہ محبت کرتا ہوں ۔ دوسری طرف ہماری
رسول مقبول ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’ ماں کے قدموں تلے تمہاری جنت ہے‘‘ آپ ﷺ کے
اس فرمان سے ماں کی عظمت اور اس کی اطاعت اور اس کی خدمت کی اہمیت کا ندازہ
ہوتا ہے کہ جو کوئی اپنی ماں کی عزت اور اطاعت کرتا ہے خدا تعالیٰ اسے جنت
سے نوازے گا نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں شخص جو کہ قریب المرگ تھا مگر نہ تو
اس کی زبان سے کلمہ جاری ہوتا تھا اور نہ تو اسے موت آتی تھی وہ نہایت
تکلیف کے عالم میں تھا تو کچھ صحابہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاظر ہوئے تو
آپ ﷺ نے اس سے صحابہ سے پوچھا کے کیا اس کی والدہ زندہ ہے بتایا گیا کہ
زندہ ہے مگر اس سے ناراض سے آپ ﷺ نے اپنی اصحاب کو حکم دیا کی وہ لکڑیاں
اکٹھی کریں تا کہ اس شخص کو جلا دیا جائے اور جب اس کی والدہ نے اس کی یہ
کیفیت دیکھی تو فوراً اسے معاف فرما دیا جب اس کی ماں نے اسے معاف فرمادیا
تو اس کی زبان سے فوراً کلمہ بھی جاری ہو گیا ۔ اگر ہم دیکھیں تو ہمیں
اندازا ہو گا کہ والدہ ہم کو کس محبت اور قربانی سے پالتی ہے اور اگر ہم سے
ماں ناراض بھی ہوتی ہے تو وہ ہمیں کچھ نہیں کہتی اور کبھی ہمارے لئے بد دعا
بھی نہیں کرتی ہے ۔نبی کریم ﷺ کا رشاد گرامی ہے ۔جس نے اپنے والدین کو
بڑھاپے کی عمر میں پایا اور ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہو سکا تو وہ
برباد ہو گیا جب اولاد جوان ہوتی ہے والدین کی محنت اور ان کی دعاؤں کی
برکت سے کا میاب ہو جاتی ہے تو وہ والدین کو اپنے گھر کی بیکار چیزیں
سمجھنا شروع کر دیتی ہے اور ان کی قربانیوں کو بھول جاتی ہے اور کئی بد بخت
تو اپنی والدین کو اولڈ ہاؤسز میں بھجوا دیتے ہیں حلانکہ یہی OLDہے ہیں جن
کی محنت اور دعا کے طفیل وجہ سے وہ آج کے زمانے میںGOLDبنا ہوا ہے.
خدا تعالی ہم تمام کو اپنے والدین کے ساتھ محبت کے ساتھ پیش آنے کی توفیق
عطا ء فرمائے تاکہ ہم اپنی دنیا و آخرت کو کامیاب و کامران بنا سکیں۔ خدا
ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے آمین |