کہتے ہیں حکیم لقمان کے پا س تمام بیما ریوں کا علا ج تھا
نہیں تھا تو صرف شک اور وہم کا۔وہم وہ بیماری ہے جو ہما ری زندگی کو دیمک
کی مانند چا ٹ جا تی ہے خیا لوں میں گم جو وہم ہما رے ذہنوں میں گر دش کر
تے ہیں وہ حقیقت میں لو ٹ آ نے کے بعد بھی ذہن پر اپنا قبضہ جما ئے رکھتے
ہیں ایسے غیر حقیقی اور غیر منطقی خیا لات جو کسی مذ ہبی اخلا قی اور منطقی
کسو ٹی پر پورا نہ اترے اور ان پر یقین ِ کا مل کر لیا جا ئے تو ہمت پر ستی
کہلا تے ہیں یہ تو ہما ت ہما ری زند گی میں کب اور کہا ں سے داخل ہو ئیں یہ
کو ئی نہیں جا نتا مگر ان کا وجو د بہت پہلے سے ہے ہزاروں سا ل پہلے بھی لو
گ ایسے تو ہمت پر ستی کا شکا ر تھے آ ج تعلیم یا قتہ ہو نے کے با جو د بھی
ہم ان با توں پر یقین ر کھتے ہیں جو ہما ری زند گی میں بہت سے بگا ڑ پیدا
کر رہی ہے۔
چندایام قبل میں نے اپنے پلا ننگ انجینئر کوپہلی انوائس جمع کر وا نے کا
کہا تھو ڑی ہی دیر کے بعد وہ واپس میرے کمرے میں آ یا اور انتہا ئی عا جز ی
سے درخواست کی کہ سر کیا ہم اس انوائس کو دو دن بعد جمع کر وا سکتے ہیں میں
نے وجہ پو چھی تو بو لا کہ یہ میرے کیر ئیر کی پہلی انوا ئس ہے اور کل منگل
کا دن ہے اس لیے ا گر کل ہم اس انوائس کو جمع کر وا ئیں گے تو اسکا میرے کر
ئیر پر اچھا اثر نہیں ہو گا اور یہ بد شگو نی ہے میں آ پ کو بتا تا چلوں کہ
یہ پلا ننگ انجینئر ہندو مذ ہب سے تعلق رکھتا ہے میرے چہرے پر تو مسکراہٹ
ابھری مگر میرا ذہن دس سال پہلے کے ایک وا قعے پر جا اٹکا وہ تما م منا ظر
میری آ نکھوں کے سا منے یو ں گھو منے لگے جیسے کل کی با ت ہو ہو کچھ یوں
تھا کہ میرا ایک دوست جو بے روزگارتھا جب کہ ہم سب دوست بر سرِروزگا ر تھے
اس بیرو زگا ری کی وجہ سے اس کے گھر یلو حا لات پست حا لی کا شکا ر ہو رہے
تھے پس ہم سب دو ستوں نے ٹھان لی کہ اس کے لیے کو ئی روز گار ہر قیمت پر
تلا ش کر یں گے سب نے کمر کس لی اور اپنے رابطے بڑ ھا دیے اﷲ اﷲ کر کے ایک
جگہ مثبت جواب ملا اور جنرل منیجر کے سا تھ دو دن بعد کی میٹنگ فکس ہو ئی
کیو نکہ اسکے بعد جنرل منیجر صا حب کو بیرون ملک روا نہ ہو نا تھا یہ انٹر
ویو محظ ایک رسم تھی اور نو کر ی تقر یبا ً کنفرم تھی ہم خو شی خو شی اس کے
گھر گئے تا کہ اسے یہ خو ش خبری سنا سکیں جب اسے یہ خو شیخبری سنا ئی تو وہ
خوشی سے پھو لے نہ سما یا اور گھر کے اندر چل گیا تھو ڑی دیر بعد وہ اپنی
وا لدہ کے ہمراہ با ہر آ یا تو دونوں کے چہروں پر سنجیدگی خو ب نما یاں تھی
ہم نے مسکر اہٹ سے ان کا استقبال کیا اسکی وا لدہ بو لی کہ بیٹا آ پ سب کا
بہت بہت شکر یہ مگر یہ منگل کے دن انٹرویو نہیں دے سکتا ہم سب کے منہ کھو
لے کے کھولے رہ گئے حیرا نگی میں ڈوبے ہم نے وجہ پو چھی تو بتا نے لگیں کہ
اگر یہ اپنی زند گی کی پہلی نو کر ی کا آ غا ز منگل سے کر ے گا تو سا ری ز
ندگی رزق کما نے کے راستوں میں مشکلات کا شکا ر ہو گا یہ بد شگو نی ہے ہم
نے لا کھ جتن کیے کے ایسا کچھ نہیں ہو تا اور ہما رے دوست کو انٹر ویو دینے
کی اجا زت دیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہو ئیں اور اپنے مؤقف پر ڈٹیں رہی
اورمختصر ً ا یہ کہ ہما را وہ دوست انٹرویو نہ دے سکا اور ہم بھی ہار مان
کر وہا ں سے لوٹ گئے وہ آ ج بھی اس جاب کو بہت مس کر تا ہے کیو نکہ قسمت با
ر بار دروازے پر دستک نہیں دیتی اس سے ایک با ت جو مجھے سمجھ آ ئی کہ تو
ہما ت کا کو ئی مذ ہب نہیں ہو تا یہ تو بس ہما ری ز ند گیوں میں زہر گھو
لنے کو کہیں سے دا خل ہو جا تی ہیں اسلام کی رو شنی پھیلنے سے پہلے عر ب
معا شرہ مکمل طور پر ان تو ہما ت کا شکا ر تھا اور آ ج بھی بعض عر ب علا قو
ں میں ان تو ہما ت پر یقین ر کھتے ہیں جیسے رستے میں کسی بد صو رت انسان پر
نظر پڑ جا ئے تو ویسے ہی گھر لو ٹ جا تے ہیں کیو نکہ اسے انتہا ئی بد قسمتی
کی علا مت جا نا جا تا ہے اسی طر ح پہلے وقتو ں میں جب عر ب کے لو گ سفر سے
وا پس آ تے تو گھر میں دروازے کے رستے داخل ہونے کے بجا ئے دیوار توڑ کر دا
خل ہو نے کو با عث بر کت تصور کیا جا تا دین اسلام کی روشنی پھیلنے کے بعد
ان تما م تو ہما ت کو رد کر دیا گیا کیو نکہ ہمارا دین ایک مکمل ضا بطہ حیا
ت ہے اور دین اسلا م ایسی غیر حقیقی با توں کی ہر گز کو ئی گنجا ئش نہیں ان
تما م با توں سے ایک با ت تو ہم پر عیا ں ہو تی ہے کہ جو ہم اپنے بڑوں سے
سیکھتے ہیں اسے نہ چا ہتے ہو ئے بھی اپنی ز ند گی میں نا فذ کر دیتے ہیں چا
ہے ہم کتنے ہی تعلیم یا فتہ کیو ں نہ ہو بڑوں سے حا صل کر دہ اور ورا ثت
میں ملیں یہ تو ہمات ہمارے معا شرے کے کئی طبقا ت میں اہم مقا م حا صل کر
چکی ہیں جیسے کا لی بلی کا را ستہ کا ٹنا ،گھر سے کسی کے جا تے وقت پیچھے
سے جھا ڑو نہ لگا نا ،جا تے وقت کسی کے پیچھے آ وا ز نہ کسنا ،دائیں یا با
ئیں آ نکھ کا پھڑ کنا وغیرہ وغیرہ ۔ایسی ہی ایک بہت بڑی غیر حقیقی تو ہمت
سے آ پ کو آ گا ہ کر نا مقصود ہے ہما رے ایک دوست کے والد صا حب کا انتقا ل
ہوتو ہم سب دوست جنا زے میں شر کت کے بعد اسی علا قے میں مقیم دوسرے دوست
سے ملنے چلے گئے ابھی اس بات کا ذکر شروع ہی ہوا تھا کہ ہم فلاں دوست کے
والد صا حب کے جنا زے میں شرکت کے لیے آ ئے تھے تو ہم نے سو چا کہ آ پ سے
بھی ملتے چلیں تو وہ دوست غصے سے لال پیلا ہو گیا اور چلاّنے لگا کہ تم لو
گ جنا زے سے سید ھے میرے گھر کیوں آ ئے ایسے کر نے سے مر نے وا لے کے تمام
برے اعمال میرے کھا تے میں لکھے جا سکتے ہیں اور یہ بہت بڑی بد شگو نی ہے
وہا ں ایسی لڑا ئی ہو ئی کہ اس دوست کے سا تھ قطع تعلق ہو نا پڑا ۔
ہما ری انہیں تو ہمت پر ستیوں کی وجہ سے کچھ دشمن عنا صر فا ئدہ حا صل کر
رہے ہیں اور پو لیو کی ویکسین کے متعلق بہت سی ا فوا ہیں گر دش کر رہی ہیں
کہ یہ ویکسین ہما ری نسل کشی کے لیے استعما ل کی جا رہی ہے اور بہت سے بے
وقو ف لو گ ان افوا ہو ں پر اند ھا اعتما د کر کے اپنے بچوں کو پو لیو کا
کے خطرے سے دو چا ر کر رہے ہیں ۔لیکن دین اسلا م ایسی تما م تو ہما ت کو
ترک کر تا ہے آ پ ﷺکی تعلیمات سے بڑ ھ کر کسی بھی ایسی تو ہمت پر یقین
رکھنا کسی مسلمان کے شیان شان نہیں آ پ ﷺ کے صا حبزا دے حضرت ابر اہیم کی
وفا ت کے دن سورج گر ہن تھا بعض صحا بہ نے اسے حضور پا ک ﷺکی وفات سے منسو
ب کر نا چا ہا تو آ پ ﷺنے انھیں ایسا سو چنے سے بھی منع کر دیا ۔ |