اھل مدارس پر ایک اعتراض کا جائزہ
(مولوی سید وجاہت وجھی, karachi)
اھل مدارس پر ایک اعتراض یہ ہوتا
ہے کہ لوگ اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتے ،جذباتی پوتے ہیں وغیرہ وغیرہ،
لیکن یہ بات محض ایک خیال ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نھیں،ہم جو نصاب
پڑھتے ہیں اس میں نورالایضاح سے لیکر بخاری شریف تک کتنے اختلافات پڑھتے
ہیں شائد ہی ان آٹھ سالہ مدرسے کی زندگی میں کوئی ایسا دن گزرا ہو جس میں
ائمہ کے درمیان کسی اختلاف کا ذکر نہ ھوا ہو ہم روزانہ سینکڑوں اختلافی
مسئلے پڑھتے ہیں خاص طور پر امام شافعیؒ کے ساتھ اختلافات کا ذکر تو روزانہ
ہی آتا ہے لیکن مجال ہے کہ کبھی کسی طالب نے امام شافعی کی شان میں ادنی
سی بھی گستاخی کی ہو یا کبھی انکا نام بے ادبی سے لیا ہو،بلکہ سبق میں
دسیوں مرتبہ مکرر نام آنے کے بعد بھی ہر دفعہ ان کے نام کے ساتھ امام
لگانا اور رحمہ اللہ کہنا ھمارا معمول رہا ھے ،بعض دفعہ کسی فقھی مسئلے میں
اھل علم کے دس سے پندرہ اقوال تک ہوتے ہیں لیکن کبھی کسی طالب علم میں یہ
جرات نہیں ھوئی کہ ان اھل علم میں سے کسی کی ذات کو ھدف بنائے،ایسا اس لئے
کہ یہ حضرات واقعی اختلاف کرنے کے اھل تھے وہ مضبوط علم کے مالک ہوا کرتے
تھے انکا اختلاف احلاص پر مبنی ہوتا اور اختلاف کی بنیاد قرآن و حدیث ہی
ہوا کرتی تھی،لیکن اب ہم سے یہ توقع کرنا کہ ہم ہر ایرے غیرے علم سے کورے
کے اختلاف کو بھی انھیں ائمہ کے اختلاف کی طرح اہمیت دینگے تو حضرت ہم
سےقاصر ہیں ، ہمارے نزدیک اس شخص کے اختلاف رائے کی اہمیت ہے جو واقعی
اختلاف کرنے کا اھل بھی ہو،اب کوئی نیم خکیم اٹھے اور بڑے بڑے ڈاکٹروں پر
اعتراضات شروع کردے تو ایسے نیم حکیم سے دلائل سے بات نھیں کی جائگی بلکہ
اسے سیدھا سادا جواب دیا جائے گا کہ بھائی منہ بند رکھو آپ کی یہ حیثیت
نھیں کہ آپ مستند ڈاکٹروں سے اختلاف کریں ،آج کل نام نھاد مذھبی اسکالروں
کو ہم اھل مدارس سے یھی شکوہ ہے کہ ھم انکی رائے کو اہمیت نھیں دیتے اس نے
مکالمہ نھہں کرتے تو اسکی وجہ یہی ھے کہ ہم آپ کو اختلاف کرنے کا اھل نھہں
سمجھتے ،جائیں پہلے علم میں مضبوطی پیدا کیجئے پھر کوئی نئی رائے قائم
کیجئے پلے ہے کچھ نھیں علم کے نام پر دو چار اردو کی کتابیں پڑھیں ہیں اور
اعتراضات صرف علماء پر نھیں بلکہ انکے اعتراضات کا دائرہ صحابہ ائمہ
مجتھدین تک پھیل جاتا ھے، تو ایسے ٹولے کے لئے ھمارے یہاں ادب کی نشست نھیں
لگتی کہ ھم اردو ادب کی تمام مٹھاس کو یکجا کرکے انکو جواب دینے کا کش کریں
،ھماری ان سے دو ٹوک بات ہوتی کہ آپ کی یہ رائے جمھور امت کے خلاف ہے
آپکی یہ رائے گمراہ کن ھے، ھمارے دلائل یہ ہیں فقط والسلام ، آب بتاو
ایسے نام نھاد اسکالروں کو امام بخاری ،ابو حینفہ وغیرہ پر اعتراضات کرنا
بالکل ایسا نھیں کہ کوئی نیم خکیم جو کچھ عرصے تک کسی خکیم کے پاس بیھٹا ھو
اور اسے دواوں کی کچھ شد بد ھوگئی ھو تو وہ اپنے زعم میں خود کو بابائے طب
سمجھنے لگ جائے ، اور بقراط پر اعتراضات کرنے لگ جائے تو ایسے ذھنی مریض کا
علاج نرے دلائل سے کہاں ممکن ہے۔،،، |
|