میڈیا چینلز پر کامیڈینز کا راج
(Malik Mushtaq Ahmad Kharal, Jatoi)
کسی فلاسفر نے کسی مہذب قوم کی
ترقی کے معیار کا پیمانہ یہ مقرر کیا کہ آیا کہ وہ قوم عزت و تکریم مذہبی
سکالرز، ادیبوں ، دانشور اور مفکرین کو دیتی ہے یا پھر مسخروں ، بھانڈوں
اور نقالوں کو ۔کسی قوم کی اخلاقی سطح کو جانچنے کا بھی اصول یہی ہے ۔تھیٹر
، سٹیج، فلم اور ٹی وی وہ ذرائع ہیں جو کسی بھی ملک کی ثقافت کے آئنہ دار
ہیں۔ اس وقت تقریباََ تمام سرکردہ میڈیا چینلز پر یہ ایک عجب ریت چل پڑی ہے
کہ انہوں نے سٹیج کے کچھ فحش گو اور جگت باز کا میڈینز کو اینکر پرسن
بنادیاہے یا پھر پورے پروگرام میں انہیں مسخروں کے ذریعے سنجیدہ موضوعات کا
بھی بیزہ غرق کیا جارہاہے۔ اور پورا پروگرام بے تکی جگتوں پر انحصار
کررہاہوتاہے۔ آزادیِ رائے کی تمام حدوں کو پار کرکے انتہائی غیر مناسب زبان
کا استعمال معمول بن گیاہے۔
اس آگ کی طرح پھیلتی ہوئی رسم کا آغاز سہیل احمد بطور عزیزی کی انٹری کے
بعد ہوا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر چینل پر کوئی نہ کوئی سٹیج یا تھیٹر کا
کوئی نہ کوئی کردار پروگرام کی زینت بن گیا۔ خالد عباس ڈار ، امان اللہ ،
نسیم وکی،سلیم البیلا، آغا ماجد، روبی انعم، ناصر چنیوٹی اور اب تو حدہوگئی
ہے کہ عمر شریف نے ایک چینل کے مذہبی پروگرام کی میزبانی کا ٹھیکہ لے لیاہے
اور وہ اپنے مزاحیہ انداز میں مذہبی سکالرز اور نعت خوانوں کے ساتھ کفتگو
کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ملک کے مرکزی چینلز پر بازاری کفتگو عام ہوتی جارہی
ہے۔ ذومعنی اور فحش فقروں کی ادائیگی پر دل و دماغ کھول کر داد دی جاتی ہے۔
لمحہ فکریہ یہ کہ رمضان کا احترام بھی بالا طاق رکھ دیا گیا ہے ۔
کیا واقعی ہمارے وطن میں مذہبی سکالرز، ادیب، دانشور، شاعر اور مفکر نایاب
ہوگئے ہیں؟یا پھر ہمارے پسند کے زاویے یکسر بدل گئے ہیں۔ تخلیق اور تحقیق
کی اعلیٰ صلاحیتوں کو کیوں نظر اندازکیا جارہاہے؟ کیا واقعی یہ ہم ناظرین
کا ذوق بدل کیا ہے کہ ہم عمدہ خیال اور تخیل کی اعلیٰ قدروں کو چھوڑ کر بے
ہودہ ،اوربے معنی جملوں کی کشش میں گرفتار ہوگئے ہیں مجھے تو ڈر ہے کہ
میڈیا جس انحطاط کا شکار ہورہا ہے اسے اپنی ساکھ کو بحال کرنا بھی مشکل
ہوگیا ہے۔
کیا وہ وقت تو نہیں آنیوالا کہ عمر شریف ، سہیل احمد اور امان اللہ جسے لوگ
وفاقی اور صوبائی کابینہ کا حصہ ہونگے۔ ترقیاتی کاموں کی بجائے انہیں جگتوں
کی غذا ، جگتوں کا لباس اور جگتوں کا ٹھکانہ فراہم کرینگے۔ میرا سوال یہ ہے
کہ کیا مولانا طارق جمیل، امجد اسلام امجد، مشتاق یوسفی، عطاالحق قاسمی کو
منظر عام پر نہیں لایا جاسکتا ۔ ان کی سوچ سے آج بھی نوجوانوں کو مثبت
سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جاسکتاہے۔
میں قطعاََ ان مزاحیہ اداکاروں کی فنی صلاحیتوں کا مخالف نہیں ہوں لیکن ان
کا طرز گفتگو صرف اور صرف سٹیج تک ہی محدود رہنا چاہیے۔جو لوگ اس طرح کے
مزاح کو پسند کرتے ہیں اور سراہتے ہیں وہ یقیناًسٹیج ڈراموں کا رخ کریں گے۔
آج کے نفسانفسی کے دور میں مزاح بھی ضروری ہے، چہروں پر مسکراہٹ لاتا بھی
ضروری ہے مگر ہمارے مزاحیہ اداکار اخلاقی پستیوں کی گہرائیوں کو چھورہے ہیں۔
ان کی اخلاقی پستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ کوئی غیرت مند
خاندان ان کے پروگراموں کو اکٹھے بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا۔ ایک وقت ہوتاتھا
جب مزاحیہ ڈرامے چینلز کی رونق ہواکرتے تھے۔ انور مقصود، معین اختر، جمشید
انصاری ، بشریٰ انصاری ، ننھا، رنگیلااور عمر ظریف جیسے لوگوں کو دیکھ کر
ہی چہروں پر کھلکھلاہٹ آجاتی تھی۔ مگر اب مزاح کے انداز بدل گئے ہیں۔ گالی
گلوچ عام ہے۔ ہر دوسرے جملے میں لفظ "خسرہ" کا استعمال معمول بن گیاہے۔
سیاست دانوں سمیت دیگر شخصیات پر ہتک آمیز جملے کسے جاتے ہیں۔
سیاسی ، معاشی اور معاشرتی بدحالی کے بعد اب ہم اخلاقی بدحالی کا اس طرح
شکار ہورہے ہیں کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ مغرب کی دنیا اب ہمیں کس نظر سے
دیکھ رہی ہے۔ ہم اپنی مقدس ثقافت کو خود ہی بدل رہے ہیں۔ نسل نو کے لیے
قابل تقلید نمونے آج کے مسخرے بن کر رہ گئے ہیں۔ اظہار رائے اب وہ بے لگام
گھوڑا بن گیاہے جو جس کو چاہے جس طرح روند دے۔ پیمرہ کا تو وجود ہی ختم
ہورہاہے۔ کیبل اور انٹرنیٹ کی تباہیاں کوئی کم تھیں کہ اب نیوز چینلز نے
بھی اپنی وطیرہ گھٹیا کامیڈی کو بنادیاہے۔ فیملی چینل کا دعویدار پی ٹی وی
بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں۔ وہاں بھی مسخروں اور بھانڈ نے قدم
جمالیے ہیں۔ اب تو لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ کونسا چینل دیکھیں
جہاں تہذیب و تمدن ۔ ریت پریت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا درس ہو۔ تہذیب کے
تو اب کوئی دائرے رہے ہی نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہی مسخرے اور بھانڈ
ہماری عظمت رخنہ لوٹانے میں کوئی کردار ادا کریں گے یا پھر ایسی تاریخ رقم
کرجائینگے جسکو لکھتے ہوئے تاریخ دانوں کے قلم کانپ اٹھیں گے۔ |
|