فخرِ ہندوستان برگیڈئیرمحمد عثمان
(Shamim Iqbal Khan, India)
(۱۵؍جولائی ۱۹۱۲ء یوم پیدائش پر)
صوبہ اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے موضع بی بی پورکی اک ممتاز شخصیت خان
بہادر محمد فاروق جو ایک شریف اور مہربان پولیس آفیسر تھے(حالانکہ ایسے
حادثات کم ہوتے ہیں)۔ ان کی بیگم محترمہ جمیلن بی بی یوسف پور کے جناب
عبدالکریم انصاری صاحب کی بیٹی تھیں۔ ان کی تین لڑکیوں کے بعد جو لڑکا پیدا
ہوااس کو نام محمد عثمان رکھا گیا۔ان کے بعد دو لڑکے اور پیدا ہوئے سبحان
اور غفران۔بنارس(اب وارانسی) میں جب یہ شہر کوتوال تھے تو اس وقت انھوں نے
ایک فرقہ وارانہ تنازعہ کو بڑی ہوشیاری اور سوجھ بوجھ سے حل کر دیا جو قابل
تعریف کام تھا، نہ صرف دونوں فرقوں میں بلکہ دور دور تک اس کی سراہنا
ہوئی۔ان کے خیالات تعصب سے پاک سیکولر(علمانی)ذہنیت کے تھے اسی لیے یہ عوام
میں پسند کیے جاتے تھے۔ والد کے مزاج کا اثربیٹے عثمان پر بھی تھا۔عثما ن
اور ان کے دونوں چھوٹے بھائیوں کی تعلیم ہریش چندہائی اسکول،بنارس میں ہوئی۔
کہتے ہیں ’ہونہار بروان کے ہوت چکنے پات‘۔ بہادری ان میں بچپن سے ہی تھی۔
۱۲؍ سال کی عمر میں ایک ڈوبتے ہوئے بچے کو بچانے کے لیے محمد عثمان نے
کنویں میں چھلانگ لگا کر بچے کا بچایا تھا۔ ان کے والد ان کو’ سِوِل سروسز‘
بھیجنا چاہتے تھے لیکن کامیابی نہیں ہو سکی، پولیس میں بھرتی نہیں ہو سکی،
فیل کر دیے گئے۔بات یہ تھی کہ ان کی زبان میں کچھ تتلاہٹ تھی،ان کا
ٹیوٹربھی اتفاقاً تتلا نکلا، وہ سمجھا ہمارا مذاق اُڑا رہے ہیں۔لیکن انھوں
نے ہمت نہیں ہاری اور فوج میں کوشش کی اور کامیاب ہوئے۔
اس وقت ’کمیشن رینک‘ کے خاطر بھارتیوں کے لیے بہت محدود مواقع ہوتے تھے اور
بہت سخت مقابلہ ہوتا تھا۔خوش قسمتی سے وہ ’برٹش رائل ملیٹری اکاڈمی، سینڈ
ہرسٹ‘ میں ان کا انتخاب۱۹۳۲ء میں دس دوسرے بھارتیوں کے ساتھ ہو گیا۔کل ۴۵
؍ کینڈیڈیٹ میں میرٹ میں محمد عثمان کا تیسواں نمبر تھا۔ گریجویشن اور
تربیت مکمل کرنے کے بعدعثمان کو ’بلوچ رجیمنٹ‘ میں سکنڈ لفٹیننٹ کا کمیشن
ملا۔
یہ زمانہ بھارت و پاکستان کے بٹوارے کا تھا۔چونکہ بلوچ رجیمنٹ میں عثمان
ایک مسلمان فوجی آفیسر تھے اس لیے نیا ملک پاکستان ان کو لینے کے لیے اور
فوج کا سربراہ بنانے تک کے لیے تیار تھا۔لوگ سوچ بھی رہے تھے کہ وہ چلے
جائیں گے، فوج کی سربراہی کا عہدہ کون چھوڑے گا،مگر لوگوں کی سوچ غلط ثابت
ہوئی حالانکہ محمد علی جنا اور لیاقت علی خاں نے بھی انہیں منانے کی کوشش
کی تھی۔لیکن مادرِوطن کوانھوں نے نہیں چھوڑا یہ اثر ان کے والد کی تعلیم کا
تھا۔وہ اپنی آخری سانس تک بھارتی فوج کی خدمت میں لگے رہے اور وطن پراپنے
کو قربان کیا۔
آزاد ہندوستان کی آج تک کی تاریخ کا پہلابڑا فوجی آفیسر ہے جسنے اپنی پوری
زندگی محاذ جنگ میں گزاری ہواور وہیں شہید ہوا ہو۔ان کی تدفین’راشٹریہ
سمّان ‘ کے ساتھ ہوئی تھی اور تدفین کے وقت گورنر جنرل لارڈ لوئس ماؤنٹ
بیٹن، وزیر اعظم ہند پنڈت جواہر لعل نہرواور ان کی کابینہ کے وزرا اور شیخ
عبداﷲ شریک ہوئے۔یہ وہ اعزاز ہے جو کسی بھی فوجی کو کبھی نہیں ملا اور شاید
آگے بھی نہ ملے۔ ان کی آخری آرام گاہ جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں ہے۔ ۳۶؍ویں
یوم پیدائش منانے میں صرف ۱۲؍دن قبل ان کی شہادت ہوئی تھی۔سادگی کے نشے میں
مست رہنے والاشخص عثمان زندگی بھرجو صرف ۳۵؍سال، ۱۱؍ماہ اور ۱۸؍دِن کی تھی،
کنوارا رہا۔
بٹوارے کے بعد کشمیر آزاد رہنا چاہتیا تھا۔لیکن پاکستان نے بڑی ہوشیاری سے
وہاں گھس پیٹھ کی اور کوہرام مچا دیا۔اس کی منشا طاقت کے دم پرکشمیر پر
قبضہ کرنے کی تھی۔لیکن کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے مدد کی اپیل
کی۔کشمیر بھارت کا حصہ بن گیا۔اور پاکستانی قبائلیوں کے آتنک سے کشمیر کو
بچانے کے لیے بھارتی فوج سرینگر روانا ہو گئی۔’پونچھ‘ میں ہزاروں پناہ گزین
پھنسے تھے جنہیں نکالنے کا کام بھی باقی تھا۔اُدھر فوج ’نوشہرا‘ تک پہنچ
چکی تھی اور اب ’جھنگڑ‘ کو قبضے میں کرنا تھا۔لیکن دشمن وہاں بے حد مضبوط
تھا۔
پاکستان کشمیر کو حاصل کرنے کے لیے کشمیریوں پر بے حد ظلم کر رہا
تھا۔ہزاروں کی تعداد میں انھیں رفیوجی بنایا جا رہا تھا اور وہ تڑپ رہے
تھے۔ ایک طرف بھارت کو انھیں راحت پہنچانی تھی اوردوسری طرف دشمن کو
کھدیڑنا بھی تھا۔کشمیر کی لڑائی اُس دوران سرحد کے الگ الگ مورچوں پر چل
رہی تھی۔ایک طرف گلگٹ کی طرف سے دشمن بھارتی سیما کے اندر ’اسگردو‘ کی طرف
بڑھنا چاہتا تھا اور دوسری طرف’ مظفرآباد‘ اور’ڈونگیل‘میں تباہی کا ننگا
ناچ ہو رہا تھا ۔اور رہا سوال ’پونچھ‘ کا تو وہ باقی حصوں سے کٹا ہوا
تھا۔وہیں ’جھنگڑ‘ کے ذریعہ دشمن ’نوشہرا‘ کو واپس حاصل کرنا چاہتا
تھا۔بھارتی فوج کی ذمہ داریا بڑھی تھیں۔اپنے علاقے سے جہاں دشمن کو ڈھکیلنا
تھا وہیں اپنے علاقے کی دفاع بھی ضروری تھی۔
نوشہرا کے شیر برگیڈئیر محمد عثمان ’جھنگڑ‘ حاصل کرنے کی قسم کھا چکے
تھے۔اور اس کے لیے وہ آگے کا لائحہ عمل تیار کر رہے تھے۔اس وقت میجر جنرل
’کلونت سنگھ‘ کشمیر میں کمانڈر تھے۔۸؍مارچ تک ’نوشہرا‘ کے ارد گردکا علاقہ
دشمن سے صاف کر دیا گیا تھا۔خراب موسم نے شروعات میں رکاوٹ ڈالی لیکن بعد
میں حسب منشا کام چلا۔برگیڈئیر عثمان اس دن غضب کے جوش سے بھرے تھے۔اپنے
سپاہیوں کو انھوں نے ایک تحریری حکم نامے میں کہا ’جھنگڑ‘ پر قبضے کا وقت
آچکا ہے،وہ وقت بھی آچکا ہے کہ ہتھیاروں کا سمّان دوبارہ حاصل کیا جائے۔
پاکستان حکومت نے اپنے فوجیوں اور فاسد قبائلیوں کو جمو و کشمیر میں مداخلت
کے لیے بھیجا۔حالانکہ کشمیر گھاٹی میں حالات سدھر چکے تھے لیکن جمّو خطہ
میں خطرہ بنا ہوا تھا۔برگیڈئیر عثمان 77پیرا شوٹ برگیڈ کی کمانڈ کر رہے
تھے۔دسمبر۱۹۴۷ء کوپچاس پیرا شوٹ میں تعینات کیے گئے۔ اس کے بر خلاف
۲۵؍دسمبر ۱۹۴۷ء کو’جھنگڑ‘ کا علاقہ پاکستانیوں نے چھین لیا۔’میر پور‘ اور’
کوٹلی‘ سے آنے والی سڑک جہاں ملتی ہیں یہ’ جھنگڑ‘وہیں واقع ہے اور جنگی
اہمیت کا حامل تھا۔برگیڈئر عثمان اور ان کے ساتھیوں میں اپنی کھوئی ہوئی
عزت کو دوبارا حاصل کرنے میں بڑا حوصلہ و جوش تھااور انھوں نے یہ قسم کھا
رکھی تھی کہ جب تک ’جھنگڑ‘ کو دوبارہ نہیں حاصل کر لیتے ہیں وہ پلنگ پر
نہیں سوئیں گے، چٹائی پر سوتے رہیں گے۔تین ماہ بعد یہ کارنامہ انھوں نے
انجام تو دے لیا لیکن اپنی جان کی قیمت پر۔
نوشہرا کی حفاظت کے دوران ہمارے ۳۳؍جوان شہید ہوئے اور صرف ۱۰۲؍جوان زخمی
ہوئے جبکہ دشمن کے ایک ہزار فوجی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی زخمی ہوئے تھے۔اس
جنگ میں برگیڈئیر عثمان کو ’نوشہرا کا شیر‘ کا لقب ملا۔۱۹۴۸ء میں وہی
پاکستانی حکومت جو برگیڈئیر عثمان کو اپنی فوج کا سربراہ بنانا چاہتی تھی
اُسی نے ان کے سر کی قیمت پچاس ہزار لگا دی۔
جمو کے حالات کا بہت باریکی سے جائزہ لینے کے لیے اپنا ہڈ کوارٹر یہاں
بنایا تاکہ ’جھنگڑ‘ اور پونچھ پر قبضہ کی فوجی کاروائی کا فوری جائزہ لیتے
رہیں۔’جھنگڑ‘ پر قبضہ برگیڈئیر عثمان اور ۵۰ پیرا برگیڈکے لیے خصوصی اہمیت
کاحامل تھا جسے ۱۹۴۷ء میں انھوں نے کھو دیا تھا۔مئی ۱۹۴۸ء تک اس سمت
انہیں کامیابی نہیں مل سکی تھی۔قابل ذکر ہے ’جھنگڑ‘ کے علاقہ میں قبائلیوں
کا قبضہ ہو گیا تھاتاہم برگیڈئیر عثمان کی قیادت میں بھارتی فوج نے انہیں
پیچھے ہٹنے پرمجبور کر دیا تھا۔
۳؍جولائی ۱۹۴۸ءبروز سنیچرشام کے پونے چھہ بجے سورج غروب ہونے کی تیاری میں
تھا،برگیڈئیر عثمان نے عصر کی نماز ادا کی اور اپنے روزآنہ کے کاموں میں
مصروف ہو گئے جس میں فوجی افسران و اسٹاف سے میٹنگ بھی شامل تھی۔تبھی
پاکستانیوں کے حملے سے ان کو ایک گولی لگی اور وہ جانبرنہ ہو سکے۔ان کی
زبان سے نکلنے والے آخری الفاظ تھے’’ہم تو جا رہے ہیں مگرزمین کے ایک ٹکڑے
پربھی دشمن کا قبضہ نہ ہونے پائے ‘‘۔ان کو پس از مرگ ’مہاویرچکر‘ سے نوازا
گیا۔تب سے آج تک فوج اس دِن کو ’یوم شہادت ‘ کے طور پر مناتی ہے۔اور ہر سال
’جھنگڑ‘ میں ایک تقریب منائی جاتی ہے جس میں انہیں گلہائے عقیدت پیش کی
جاتی ہے۔فوج کا ایک خصوصی دستہ انہیں سلامی پیش کرتا ہے۔
برگیڈئیر عثمان بڑے غریب پرورتھے، اپنی تنخواہ کابیشتر حصہ غریبوں کے بچّوں
کی تعلیم کے سلسلہ میں خرچ کر دیاکرتے تھے۔برما میں جب ان کی ریجیمنٹ تھی
تو انھون نے گوشت کھانا بند کر دیا تھا۔انھوں نے اپنے ماتحتوں سے ’منگل‘ کو
برت رکھنے کو کہا تا کہ اس دن کا کھانا گاؤں والوں میں تقسیم کیا جا سکے۔ان
کے انتقال کے بعد بہت سے لوگ اپنے کو یتیم محسوس کرنے لگے اور ان لوگوں نے
برگیڈ ہیڈکوارٹر کو تعزیت کا خط لکھ کر اس عظیم نقصان کے لیے افسوس ظاہر
کیا۔برگیڈئیرعثمان حقیقت میں بہادری کی ایک مثال ہی نہیں تھے بلکہ ایک سچّے
محب الوطن بھی تھے۔
۱۵؍جولائی ۲۰۱۲ءکو برگیڈئیر عثمان کی سویں سال گرہ تھی جسے ’وارانسی‘،
’لکھنؤ‘، ’جمّو و کشمیر‘ اور دہلی میں منایا گیا۔۴؍جولائی کو ’جھنگڑ‘میں
عثمان میموریل پر سجاوٹ ہوئی اور سلامی دی گئی۔ بھارت کے مختلف فوجی ہیڈ
کوارٹروں پر فوجی انداز کی تقریبات ہوئیں۔جامعہ ملیہ دہلی میں ان کی مزار
پر فاتحہ خوانی ہوئی۔جنرن مانیک شاہ مرکز، دہلی میں یاد گار تقریب منائی
گئی جس میں نائب صدر جمہویہ عزب مآب ڈاکٹر محمد حامد انصاری کے علاوہ وزیر
دفاع اے․کے․انٹونی کے علاوہ دیگر وزراء اور فوجی آفسران شامل تھے۔
اس موقعہ پر نائب صدر جمہویہ عزت مآب ڈاکٹر محمد حامد انصاری نے
فرمایا’’برگیڈئیر محمد عثمان’ نوشہرا‘ جنگ کا ہیرو، آزاد بھارت کا سب سے
زیادہ متاثر کرنے والے سالارمیں سے ایک ہیں۔جنھوں نے غیر معمولی جرأت کے
ساتھ مادرِ وطن سے محبت اور قربانی کے جذبہ کے مظاہرہ کیا۔ جرأت،قیادت کی
غیر معمولی صلاحیت اور فرائض کی ادایگی کا احساس برگیڈئیر عثمان کی خوبیاں
تھیں جس نے بھارتی فوج کی بہترین روایات کوکبھی شرمندہ نہیں ہونے دیا۔انھوں
نے ملتان شہر کے محافظ فوج کے کمانڈر کے حیثیت سے50,000ہندو اور سکھ پناہ
گزینوں کی ذمہ داری لی۔وہ مذہبی اور پُر سکون شخصیت کے مالک تھے اور گاندھی
اصولوں کے پیروکار تھے۔گاندھی جی نے ان کو ایک چرخہ تحفہ میں دیا تھاجسے
بڑی خوشی کے ساتھ کاتا کرتے تھے۔وہ جب فوجی وردی میں نہیں ہوتے تھے تو
کھادی ہی پہنتے تھے اور گاندھیائی فلسفہ کا مطالعہ کرتے تھے۔ نائب صدر
جمہویہ نے کہا کہ برگیڈئیر عثما ن کا عزم قابل رشک تھا۔۲۷؍دسمبر ۱۹۴۷ء کو
جب ’جھنگڑ‘ہاتھ سے نکلا تو انھوں نے قسم کھائی کہ جب تک وہ ’جھنگڑ‘ کو واپس
نہیں لے لیتے ، چارپائی پر نہیں سوئیں گے اور انھوں نے یہ کر کے بھی دکھایا
، برفانی راتوں میں وہ چٹائی پر ہی سوتے تھے۔
نائب صدر جمہوریہ نے یہ امید ظاہر کی کہ آنے والے وقتوں میں بھارتی فوج کے
لیے برگیڈئیر عثمان مشعلِ راہ بنے رہیں گے۔ انھوں نے کہا کہ1947-48میں جمو
کشمیر کی فوجی کاروائی کے دوران اس برگیڈئیر کی قربانی کو یاد ررکھا جائے
کیونکہ اس کارنامے نے اُسے قوم کا ہیرو بنا دیا جس کا نام ملک کی تاریخ میں
اور اس کے ساتھ ہی ساتھ بھارتی فوج کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے
گا۔ ایک بات قابل ذکر یہ ہے کہ موجودہ نائب صدرجمہوریہ جناب حامد انصاری
صاحب برگیڈئیرمحمد عثمان کے چچا ذاد بھائی ہیں۔
برگیڈئیر عثمان ،خون خرابہ پر یقین نہ رکھنے والے ایک مذہبی انسان
تھے۔انہیں جب یہ اطلاع ملی کی نوشہرا کے پاس ایک مسجد میں دنگائیوں نے پناہ
لے رکھی ہے۔ مسجد کی وجہ سے ان پر گولی چلانا دشوار ہو رہا ہے۔ برگیڈئیر
عثمان وہاں خود گئے اور فائرنگ کا حکم یہ کہتے ہوئے دیا جہاں دنگائی ہوں وہ
جگہ مذہبی نہیں رہتی۔
آزادی کے وقت بھارتی فوج میں کُل ۱۸؍ برگیڈئیر تھے لیکن نوشہرا اور ’جھنگڑ‘
میں 50پیرابرگیڈ کو کمانڈ کرنے والا،ہمت اور بہادری کی مثال بننے والا، وطن
پر بلیدان ہونے کی مثال کو حقیقت میں بدلنے والا برگیڈئیر اکیلا’ عثمان‘
تھا ۔
’ عظمی‘ کے مدیر اس تقریب کے بارے میں لکھتے ہیں’’یوم نوشہرہ کے سلسلہ میں
بدھ کے روز ’جھنگڑ‘ میں برگیڈئیر عثمان کی یاد میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس
میں اعلی فوجی کمانڈروں، سِوِل انتظامیہ کے افسران اور شہر یوں کی ایک بڑی
تعداد نے شرکت کی۔تقریب کے مہمان خصوصی جنرل آفیسر کمانڈنگ ڈی․ایس․ہڈا نے
اس موقع پربرگیڈئیر عثمان کی یاد گار پر گلہائے عقیدت پیش کیا اور انہیں
سلامی دی۔بعد ازاں فوجی جوانوں کے ایک دستے نے ماتمی دھن بجاتے ہوئے ہتھیار
اُلٹے کر کے انھیں سلامی دی۔تقریب میں تمام مذہب کی طرف سے ایک دعائیہ مجلس
بھی ہوئی۔ اس موقع پر جنرل ہڈا نے ان تصویوروں کی نمائش بھی دیکھی جو اس
لڑای کے دوران تیار کی گئی تھیں۔ اس کے بعد بارودی سرنگوں اور گولہ باری کے
دوران معذوروں میں اسکوٹر تقسیم کیے گئے اور فوجیوں کی بیواؤں کو انعامات
سے نوازا گیا۔اس کے بعد کھیل کود اور کرتب کے پروگرام ہوئے‘‘۔
خواجہ احمد عباس، اپنے زمانے کے مشہور صحافی برگیڈئیر عثمان کے شہادت پر
لکھتے ہیں ’’ایک قیمتی زندگی،حب الوطنی کا ایک سچّا نمونہ،فرقہ جنونیت کا
شکار گر گیا۔برگیڈئیر عثمان،بہادری کی مثال آزاد بھارت کے لیے مشعل ِراہ
ہے‘‘۔
مسٹر اُپیندر سود نے برگیڈئیر عثمان پر ایک فلم بنائی بنائی تھی جس کا نام
تھا ’پرائید آف انڈیا(The Pride of India)‘۔
برگیڈئیر عثمان کی بہادری کے بارے میں سابق وائس چیف آف آرمی اسٹاف لفٹیننٹ
جنرل ایس․کے․سنہا جو اُس وقت جنرل کریےپا کے اسٹاف آفیسر تھے نے کہا کہ وہ
جنرل کریےپا کے ساتھ نوشہرا گئے ہوئے تھے۔ انھوں نے برگیڈئیر عثمان سے کہا
کہ ’کوٹ ‘ کو نظر انداز کیا گیا ہے اس کی حفاظت ضرور ہونی چاہئے۔دو دنوں کے
بعد انہوں نے ’کوٹ‘ پر پکڑ مضبوط کر لی اور اس آپریشن کو انہوں نے ’آپریشن
کِپّر‘ نام دیا ۔’کِپّر‘ جنرل کی عرفیت تھی۔ایک ہفتہ کے بعددس ہزارسے زیادہ
دراندازوں نے نو شہرا پر حملہ کیا۔ کوٹ کی طرف سے ہمارے بہادروں نے زبردست
دفاع کیا۔اور اس میں نو سو سے زیادہ دشمن مارے گئے۔ کشمیر کی یہ ایک بڑی
جنگ تھی ۔
ہواشی : ورڈ سوارڈ، نمائندہ عظمی،وکی پیڈیا،An Immoral Hero Brigadier
Usmaآج تک |
|