صنف نازک کی عید

رمضان المبارک کا مہینہ عبادتوں میں مشغول رہ کر اور خشوع و خضوع کے ساتھ روزے رکھنے کے صلے میں اﷲ تعالی کی جانب سے عید الفطر ہمیں تحفہ کے طور پر عنایت کی جاتی ہے عید الفطر مسلمانوں کا دوسرا بڑا تہوار ہے۔ عید کے قریب آتے ہی ہر شخص دل جمعی سے اس کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتا ہے۔رمضان،چاند رات سے عید کے دن تک سب سے زیادہ صنف نازک مصروف دکھائی دیتی ہیں۔لڑکیاں عید سے کافی دن پہلے ہی لباس , زیور ,میک اپ اور ہینڈ بیگ کی میچنگ اور فیشن میں کیا ان اور کیا آؤٹ ہے ،جیسے خوش کن معاملات میں سرگرداں نظر آتی ہیں۔مشرقی لڑکیوں اور خواتین کی اپنی پہچان ہے اسی لیے اس خاص تہوار والے دن جب رنگ برنگ کے لہراتے آنچل . دیدہ زیب لباس, حنائی ہاتھ, خوبصورت کنکھنکاتی چوڑیا ں اور میچنگ زیورات کے ساتھ ہر گھر میں موجود بیٹیاں،بہنیں بیویاں تیار ہو تی ہیں تو اپنوں کی آنکھوں میں موجود ستائش دیکھ کر سارے سال کی تھکن بھول جاتی ہیں،دکھ کا ہر احساس خوبصورتی پر غالب آجاتا ہے۔ بلاشبہ کائنات کا ہر رنگ صنف نازک کے بناء ادھورا ہے۔ گھروں کے آنگن میں عید کے دن تیار ہوکر تتلیوں کی مانند اڑتی ہوئی ان لڑکیوں سے ہی زندگی کا احساس ہوتا ہے ,جن کی آواز کوئل کی کوک سا سما ں باندھ دیتی ہے اور چلتی ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے شوخ ہوا اٹھکھیلیاں کررہی ہو, ہر ہر ادا میں حیا, نزاکت , ناز ,نخرہ۔ جن کو دیکھتے ہی دل کے کسی کونے سے بے اختیار آواز آتی ہے کہ " جیسے چپکے سے ویرانے میں بہار آگئی" ماما کی لاڈلی , بابا کی پری بھائیوں کی رانی الہڑ البیلی دوشیزائیں جب اپنی عملی زندگی میں قدم رکھتی ہیں اور چڑیوں کی طرح ایک ڈالی سے دوسری ڈالی پر بابل کا انگنا چھوڑ کر منتقل ہوجاتی ہیں تو بچپنا , بے فکری , شوخیاں جیسے ماضی کا حصہ بن جاتے ھیں۔ گھر گھر والوں اور گھرداری میں مصروف , ٹہر ٹہر کر بولتی , ہر ہر قدم سنبھل کر اٹھاتی اپنی خوشیاں بھول کر دوسروں کی خوشیوں میں خوش ہونا اپنا اولین فرض سمجھ لیتی ہیں۔ عید ہو یا شب برات ,خوشی ہو یا غمی اپنا دکھ بھول کر اپنے وابستہ لوگوں کی فکر میں ہلکان نظر آتی ہیں۔ عید کے تہوار پر بھی گھر کی صفائی ستھرائی, کچن کے کاموں ,مہمانوں کے استقبال کی تیاریوں اور گھر والوں کے کپڑوں جوتوں کی تیاری میں اس انہماک سے مصروف ہوتی ہیں کہ انکو عید والے دن یہ خیال آتا ہے کہ انہوں نے مہندی نہیں لگوائی یا میچنگ چوڑیاں لینا یاد نہیں رہا آنکھوں میں بے اختیار نمی سی اتر آتی ہے مگر شریک سفر اور سسرال والوں کی طرف سے انتھک محنت کے نتیجے میں اچھی بیوی , اچھی بہو اور اچھی بھابھی جیسے القابات ایک طرح سے کمی پر غالب آجاتے ہیں۔ مگر اتفاقا کوئی البیلی ,چہکتی , کھنکتی, حنائی ہاتھوں والی دوشیزہ آنکھوں کے سامنے آجائے تو آنکھوں کے پردے پر ماضی کی رنگین اور خوبصورت فلم سی چلنے لگتی ہے۔ من ڈوب ڈوب کر ابھرتا ہے خوشیوں اور ستائش سے بھری دنیا پر اداسیت غالب آجاتی ہے۔ دل دور کسی دیس کی پرانی یادیں جمع کرلاتا ہے۔ آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں اور وہ بے اختیار یہ جملہ کہنے پر مجبور ہوجاتی ہیں کہ عید تو لڑکیوں کی ہوتی ہے۔
Saba Eishal
About the Author: Saba Eishal Read More Articles by Saba Eishal: 51 Articles with 47280 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.