کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔
(محمد اسامہ عارف, wah cantt)
آج میں نے بہت دیر تک سوچا پھر
مجھے تھوڑی سی شرم محسوس ہوئی۔ کچھ دیر کو مجھے لگا کہ میں یا ہم سب بہت بے
غیرت لوگ ہیں جن کو کچھ یاد نہیں رہتا۔ ابھی کتنے روز پہلے کی بات ہے جب
پشاور کے آرمی پبلک اسکول کو دہشت گردوں نے میدان جنگ بنیا تھا۔ ایسے ہی
جیسے یزیدی لشکر نے معصوم بچوں کو شہید کیا تھا کربلا میں۔ ہم نے اس سانحے
کے بعد آنسو بہائے تھے منہ ایسا بنایا تھا جیسے ہم سے بڑھ کر غم کسی اور کو
ہوا ہی نہیں۔ مگر پھر کیا؟ ہم نے کیا کر لیا؟ میں حکمرانوں کی بات نہیں
کرتا کہ وہ کسی قابل نہیں وہ ہم سے بڑھ کر غلیظ لوگ ہیں۔ میں بات اپنی کروں
گا۔ ہماری بات کروں گا ایک عام آدمی کی۔ ہم نے کیا کر لیا ان بچوں کے لیے؟
ہم جو نوجوان نسل ہیں اس ملک کا مستقبل ہیں۔ ہم نے کیا کر لیا؟ ہمارا میڈیا
تو بے حس ہے۔ ایک طوائف سے بھی برا جسے ریٹنگ چاہئے ہوتی ہے۔ اور وہ معصوم
بچے کب تک اس خبروں کے جنگل میں اپنا آپ قائم رکھتے۔ ان کے لیے وہ بچے اک
کہانی تھے یہاں انسان کی قدر نہیں ہے۔ سچ ہے کے نہیں ہے۔ آپ لوگ جانتے ہیں
کیوں نہیں ہے؟ میں بتاتا ہوں۔
ہماری قدر ہم نے کھوئی آپ اپنے ہاتھوں سے۔ دوسرے کو ہمیشہ نیچا دیکھانے کی
کوشش نے۔ ہم نے کتنی توجہ دی کے پشاور کے حادثے میں ہاتھ کس کا تھا؟ ہماری
حکومت نے کون سا ایسا نیا کام کر لیا تب سے اب تک؟ کتنی بار ہیش ٹیگ کر کے
اس حادثے کو ہم نے دنیا کے سامنے لایا؟ اس سوشل میڈیا کو اس انٹرنیٹ کی
دنیا کو ہم نے استعمال کتنا کیا؟ ہم نے کبھی یہ سوچا کے جن ماں باپ کے بچے
ان سے دور کر دیے گئے ان کی زندگی کیسی ہو گی؟ وہ اپنی اولاد کو یاد کرتے
ہوں گے۔کسی نے سوچا جب وہ والدین اپنے بچے قربان کر دینے کے بعد اس قوم سے
ہم سے کیا امید کرتے ہوں گے؟ نہیں ہمارے پاس اس بات کا جواب کوئی نہیں ہیں
کیوں کے ان بچوں میں ہم شامل نہ تھے۔ وہ سب میری یا آپکی ماں کی اولاد نہیں
تھی۔ وہ مرنے والا میں نہیں تھا نہ یہ پوسٹ پڑھنے والا۔ حضرت عمر کا قول
ہےـ’’اگر دریا فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاس کی شددت سے مر گیا تو اس کا
سوال مجھ سے کیا جائے گا‘‘۔۔۔ کیا یماری اوقات ایک کتے سے بھی کم ہے؟ یۃ سب
ہماری غلطی ہے۔ یہاں کے نیوز چینلز کو فکر ہے کہ ماڈل ایان کے ساتھ کیا
ہوگا؟ یہاں بحث ہے کے تنویر زمانی نے زرداری سے شادی کی؟
ریحام کی ڈگری جعلی ہے؟
الطاف حسین ملک دشمن ہے؟
جنت میں شیعہ جائیں گے یا سنی فرقہ والے۔
ہمیں یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ بالی وڈ کے ستارے آپس میں شادی کریں گے؟
کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ جو باقی زندہ رہ گئے جن کو علاج
کے لیے بیرون ملک بھیجا جانا تھا انکا کیا ہوا۔ نہیں ہمیں وقت نہیں ملتا
آواز اٹھانے کا۔ہم سوشل میڈیا پر مصروف ہیں پوسٹ لگا کر کے کون سچا مسلمان
ہے لائک کرے۔ مگر ہم سے اتنا نہیں ہوتا کہ ہم ان کو یاد کریں ان کی بات
کریں جو ہماری اچھی زندگیوں کے لیے اپنا آپ قربان کر گئے۔ کیا ان کا اتنا
حق نہیں تھا کے انھیں یاد رکھا جاتا۔ ان کی قربانی کو یاد رکھا جاتا۔ ہمارے
مولانا حضرات جو امریکہ کے ایک کے بیان پہ پورا ملک بند کروا سکتے۔ منہ سے
ایک بار انصاف مانگا انھوں نے؟؟؟ شاید فرانس کے اخبار کا واقع یاد ہو آپکو۔
چارلی ایبڈو نام تھا اسکا۔ جس میں کچھ لوگوں کر مارے جانے پر چالیس ممالک
کے سربراہان آئے تھے۔کیسے؟؟؟ یہ کام وہاں کے حکمرانوں نے نہیں بلکہ ہم جیسی
عوام نے یہ کارنامہ کر دیکھیا تھا۔
کاش ہم بھی کر سکتے کچھ۔ بہت نہ سہی تھوڑا سا اتنا ہی کے ہمارا میڈیا غیرت
کا مظاہرہ کرے۔
ہماری سرکار کے لیے اتنا ہی بہت ہے۔۔۔۔
کوئی شرم ہوتی ہے،
کوئی حیا ہوتی ہے۔ |
|