ہمارا پیارا وطن پاکستان
جو کہ ہمارے بزرگوں ہے اپنی جانوں اپنے مالوں اور قائد اعظم کی دلیرانہ
قیادت کی وجہ سے محض اس لئے حاصل کیا کہ ہم تمام لوگ مذاہب، مسالک ، ذات
پات ، نسل پرستی سے پاک ہو کر محبت و سکوں کے ساتھ رہتے ہوئے اس وطن کے زرہ
زرہ کو گل و گلزار کر سکیں مگر ہماری بد قسمتی کی قائد اعظم اور آپ کے
رفقاء کے وفات پا جانے کے بعد ہم لوگ دن بدن تنزلی کی طرف جانے لگے اور یوں
محسوس ہونے لگا کہ شاید پاکستا ن اپنے وجود کے میں آنے کے مقاصد کو پانے
میں ناکام ہو جائے گا چنانچہ وہ ممالک جو کہ پاکستان کے بعد معرض وجود میں
آئے وہ آج دنیا کی سپر پاور بننے کے قریب ہیں اور وہ ممالک جو کہ کسی زمانہ
میں ہم سے قرض اور اقتصادی امور پر راہنمائی لیتے تھے آج ہمیں اپنے در کا
غلام بنا چکے ہیں ۔ مگر ہم اپنے مقام کو بر قرار رکھنا تو دور کی بات ہے دن
بندن پستی کی طرف جا رہے ہیں جبکہ ہمارا پاس نا تو قدرتی وسائل کی کمی تھی
اور نا ہی افرادی قوت کی کمی تھی ۔ ہمارا وہ شہر جو کہ کبھی روشنی کا شہر
کہلاتا تھا اب دہشت کی گرد ی میں ہے ۔ اس ملک میں فرقہ واریت ، دات پات ،
نسل پرستی کا دور دور تک نشان نہیں تھا ۔ اور اب ہمارا وطن پاکستان جو کہ
امن کا مقام ہونا چاہیے تھا آج نفرتوں کی آگ میں ہے ملک کے حالات کا نقشہ
محترم عبید اﷲ علیم صاحب نے اپنے کلام میں کیا خوب کھنچا ہے آپ لکھتے ہیں۔
’’میں یہ کس کے نام لکھو ں جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں
کو ئی غنچہ ہو شجر ہو کہ گل ہو کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گلستان ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں
کبھی رحمتیں تھی نازل اسی خطہ زمیں پر
وہی خطہ زمیں ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں
وہی طائروں کے جھر مٹ جو ہوا میں جھولتے تھے
وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں
بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خوب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں ہمی قتل کر رہے ہیں‘‘
اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اس سارے کے سارے بربادی کے افسانہ میں ہمارا
بھی کہیں نا کہیں تو کردار ہے ۔
کہتے ہیں کہ ایک جنگل تھا اور یہ جنگل جانوروں کا مسکن تھا اس میں سبھی
جانور رہتے تھے مگر اس جنگل پر ایک دن یا قیامت ٹوٹی کہ اس جنگل میں آگ لگ
گئی اور آگ دن بدن پھیلنے لگی تو تو جنگل کہ تمام جانور آگ بجانے لگے کہ
آخر یہ ہمارا گھر ہے ہمارا مسکن ہے ہم اس میں رہتے ہیں اس کو بجانا بھی
ہمارا ہی فرض ہے جنگل کے تمام جانور کیا ہاتھی، کہا گھوڑا، کیا گدھا،کیا
شیر آگ کو بجھانے میں مصروف ہو گئے ۔
تو اسی دوران ایک چھوٹی سی چڑیا بھی آٹھی اور اپنی ننی سے چونچ میں پانی لا
کر آگ پر ڈالنے لگی وہ وہ بار بار جاتی اور پانی لا کر آگ پر اپنی چونچ سے
جند قطرے آگ پر ڈالتی آخر تمام جانوروں کی محنت رنگ لے آئے اور آگ بجھ گئی
اور ان کا مسکن بچ گیا۔
آگ بجھ جانے کے بعد جنگل کے تمام جانور اکھٹے ہوئے اور جن جن جانوروں نے آگ
بجھانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ان کو داد و تحسین دینے لگے ۔ کسی اسی
مجمعہ میں ایک طرف چڑیا بھی بیٹھی تھی کسی جانور نے کہا کہ چڑیا آپ نے بھی
آپ نے بھی آگ پر پانی ڈالا ہے مگر بھلا آپ کے چند قطروں سے کیا اتنی بڑی آگ
بجھنی تھی؟ جو کہ اتنے اتنے بڑے جانوروں سے بہت مشکل سے بجھ پائی ہے چڑیا
جو خموشی سے بیٹھی باتیں سن رہی تھی بولی کہ۔
بات تو آپ کی بلکل ٹھیک ہے کہ میرے چند قطروں سے کہاں آگ بجھنی تھی۔
مگر ایک بات تو بحر حال ہوگی اور وہ یہ کہ جب کبھی بھی اس آگ کے لگنے اور
بجھنے کا ذکر ہو گا تو میرا ذکر جنگل کو آگ لگانے والوں میں نہیں ہو گا
بلکہ آگ کو بجھانے والوں میں ہوگا ۔
ہمیں بھی چاہیے کہ ہم پاکستانی بھی اپنے مسکن کو بچائیں اور اپنے ہاتھوں کو
دیکھیں کہ ہمارے ہاتھ آگ بھجانے والوں میں یا آگ لگانے والوں میں۔ اگر تم
ہمارے ہاتھ ان لوگوں کے ہاتھ ان لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو کہ ہمارے وطن کو
فرقہ واریت اور نسل پرستی اور دیگر آگوں میں جھونکنے والے ہیں تو ہمارا حال
اس مالی سے مختلف نہیں ہے جو کہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے باغ کو کاٹ رہا ہے
۔ خدا کرے کہ ہمارے ہاتھ ہمیشہ ان حاتھوں میں ہوں جو کہ وطن میں امن کے
قیام کے حامی ہیں ان نسل پرستی اور فرقہ واریت کی آگ کو بھجا رہے ہیں ۔ اور
خدا ہمارے اس وطن کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے( آمین) |