عید تو بچپن میں ہوتی تھی اب تو تہوار گذرجاتا ہے۔

عمر کے ساتھ ساتھ بچپن کی خوشیاں بھی ماند پڑتی رہتی ہیں کچھ تبدیلیاں آپ کو اپنی ذات میں محسوس ہوتی ہیں جبکہ کچھ زمانے میں بھی محسوس ہوتی ہیں اسی طرح بچپن کی عید کا مزہ ہی کچھ اور تھا جس کی تیاریاں نصف رمضان سے ہی شروع کردی جاتی تھیں جس میں کپڑے ، جوتے، چشمے۔ رومال وغیرہ شامل ہوتے تھے جبکہ بچیاں کپڑوں اور جوتیوں کے ساتھ ساتھ جیولری اور میک اپ کا سامان بھی خریدتی تھیں اور سہیلیوں کا تمام رات ایک دوسرے کے ہاتھوں میں مہندی لگانا بھی جاری رہتا تھا دوست ایک دوسرے کو تحفے بھی شوق سے دیا کرتے تھے ۔عید سے ایک دو دن قبل گھروں دکانوں کا صاف ستھرا کرکے سجایا جاتا تھا برقی قمقمے لگائے جاتے تھے ۔بچوں میں عیدی تقسیم ہوتی تھی تو محلے کے بچوں کا اس طرح مجمع لگ جاتا تھا گویا سب کے سب ان کے اپنے بچے ہوں اور بچے بھی اس طرح عیدی کے منتظر ہوتے تھے جیسے وہ اپنے گھروالوں سے عیدی لے رہے ہیں عیدے لینے کے بعد بچے نہایت ادب و احترام سے عید مبارک کہتے تو دل خوشی سے جھوم جاتا تھا ۔

اہل محلہ ایک ساتھ مل کر عید گاہ نماز کے لیئے جایا کرتے تھے اسی دوران گھر کی خواتیں گھروں کو صاف ستھرا کرکے دروازوں سے بچوں کی واپسی کا انتظار کرتی تھیں عید کے تینوں دن بچوں کے درمیان کھیلوں کے انعامی مقابلے کروائے جاتے تھے مٹھائی کی دکانوں پر رنگ برنگی مٹھائیاں سجائی جاتی تھیں ۔ بندر نچانے والے اور اونٹ کی سواری کرانے والے بھی جوق در جوق گلی محلوں کا رخ کرتے تھے ۔ بچے اپنی عیدی کو بار بار گن کر ایک دوسرے کو بتاتے تھے کہ انھیں کتنی عیدی ملی اس دل وہ اپنے آپ کو امیر ترین انسان سمجھتے تھے ۔ایک روپیہ عیدی سے اب بات سو روپے سے ہزار تک پہنچ گئی لیکن یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جو ں جوں آپ کی عمر بڑھتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ آپ کو ملنے والی عیدی بھی کم ہوجاتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ آپ کی عیدی تو سرے سے ہی ختم ہوجاتی ہے لیکن عیدی بانٹنے کی رقم کافی بڑھ جاتی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ عید کی خوشیاں ماند پڑتی گئیں اور یہ صرف ایک تہوار رہ گیا جس میں عید گاہ میں نماز پڑھنا اور لوگوں سے گلے ملنا ہی اب تک باقی ہے اس کے بعد شہروں میں تو زیادہ تر لوگ عید تمام دن سو کر ہی گزارتے ہیں گاؤں دیہاتوں میں کئی جگہوں پر اب بھی عید کی خوشیاں اسی طرح نظر آتی ہیں لیکن شہروں میں ایسا بہت کم ہی نظر آتا ہے ۔
 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 141 Articles with 150952 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More