پاکستان میں سیاسی لیڈر اکثر
سیاسی گرما گرمی پیدا کر دیتے ہیں اگر یہ گرما گرمی مثبت ہو تو تب تو درست
ہے یعنی سیاسی جلسے جلوس، عوام تک اپنا سیاسی منشور پہنچانا یا اپنے
ترقیاتی پروگراموں سے عوام کو باخبر رکھنا۔ایک دوسرے پر تنقید کرنا بھی
سیاست کا حصہ ہے اور تنقید اگر تعمیری ہو تو یہ سیاست کا مقصد اور سیاست
دانوں کا قبلہ درست رکھتا ہے حکومت کو کھلی چھٹی نہیں دیتا کہ جو چاہے کرے
بلکہ اپوزیشن کی تنقید اور مخالفت کے ڈر سے حکومت سوچ سمجھ کر چلتی ہے لیکن
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی مخالفتوں میں اداروں کو بھی لپیٹ دیا جاتا
ہے اور یہی رویہ اکثر اوقات ایم کیو ایم کی طرف سے دیکھنے کو ملتا ہے بلکہ
زیادہ تر اس کے قائدالطاف حسین ملک کی مخالفت میں سب سے آگے نظر آتے ہیں
یعنی جب ان کی پارٹی یا ان کی ذات کے خلاف بات کی جائے اور چاہے وہ کسی کی
طرف سے ہو وہ بات گھما پھرا کر فوج اور اُس سے آگے بڑھ کر پاکستان کے خلاف
لے جاتے ہیں اور اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرتے ہوئے ایسی دھمکیاں
دینے پر اُتر آتے ہیں جو عموماََ دشمن ممالک ایک دوسرے کو دیتے ہیں اور ان
کے ان بیانات سے پیدا شدہ خراب صورت حال کو قابو کرنے کے لیے ان کی پارٹی
کے لوگ مصروفِ عمل ہوجاتے ہیں، صفائیاں پیش ہوتی ہیں، جملوں کے معنی و
مطالب تبدیل کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے اورسیاق و سباق سے کاٹ کر جملے
پیش کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں غرض ایک طوفان برپا ہو جاتا ہے۔ شدید
ردِعمل دیکھ کر معافی تلافی کا دور بھی چلا دیا جاتا ہے لیکن چند دن گزرے
نہیں ہوتے کہ مزید سخت بیان دے دیا جاتا ہے اور رابطہ کمیٹی اور دیگر پھر
ٖصفا ئیاں پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن آخر کب تک یہ لوگ اپنے قائد یا
قائدین کے جرائم کی تو جیہات پیش کریں گے۔ ایم کیو ایم کی اکثریت اردو
بولنے والوں پر مشتمل ہے اور اسے بنانے والوں نے عرصہء دراز تک اسے قومی
جماعت بننے سے ایک طرح روکے رکھا بلکہ اب بھی دوسری زبانیں بولنے والوں کی
تعداد صرف چند ہی ہے جو عمومی خیال کے مطابق صرف اس لیے شامل کئے گئے ہیں
کہ یہ کہا جائے کہ اس جماعت کو ایک خاص زبان تک محدود نہیں رکھا گیا ہے
لیکن عملاََ ایسا نہیں ہے بلکہ جب بھی یہ لوگ بات کرتے ہیں اردو بولنے
والوں کی ہی کرتے ہیں ۔اردو بولنے والے پاکستان کو سرمایہ ہیں اس سے کسی کو
انکار نہیں یہ بھی سب جانتے ہیں کہ ان میں سے اکثر ہندوستان کے بڑے شہروں
سے آ ئے ہوئے پڑھے لکھے اور ہنر مند لوگ تھے جنہوں نے نوزائیدہ مملکت
خدادادِپاکستان کی تعمیر میں اہم کردار ترین ادا کیااور یہ لوگ بھی یہ بات
جانتے ہیں کہ انہیں بھی بے پناہ عزت دی گئی ۔ سب کچھ ٹھیک تھا نہ تقسیم تھی
نا تعصب تھا کہ اچانک ایک سیاسی جماعت بنا دی گئی اور اس کی آڑ میں کچھ
مخصوص لوگوں نے تفریق پیدا کر دی گئی اور کراچی کے عوام خوف یا کسی اور وجہ
سے ان کے زیرِدام آتے رہیں لیکن اب لگتا یہی ہے کہ اُنہوں نے فیصلہ کر لیا
ہے کہ اس خوف کی چادر کو اُتار پھینکیں کیونکہ ان کو اپنے جن سیاسی مقاصد
کے لیے استعمال کیا گیا یا تو ان کی برداشت سے باہر ہے یا انہیں سمجھ آگئی
ہے کہ انہیں جس نسلی سحر میں گرفتار کیا گیا تھا اور یر غمال بنا کر رکھا
گیا تھا اس نے انہیں فائدہ نہیں نقصان ہی پہنچایا ہے اور انہیں باقی پوری
قوم سے الگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایم کیو ایم کے اندر بھی اب ہیجان نظر
آرہا ہے، اس کے کئی کارکنوں سے کئی خطرناک اور مجرمانہ کام کروائے گئے لیکن
جب وہ پکڑے گئے تو ان سے اعلانِ لاتعلقی کر دیا گیا اور ایسا ان ملزموں اور
مجرموں کے اقبالی بیا نات کے بعد کیا گیا۔ جب کہ پہلے انہیں لوگوں کو فخر
سے اپنا اثاثہ اور سرمایہ بنا کر پیش کیا جاتا تھا، ان کے ساتھ فخر سے
تصویریں بنائی جاتی تھیں، ان پر لگنے والے الزامات کو رد کیا جاتا تھا اور
ان کی تمام کاروائیوں کو چھپا لیا جاتا تھا ان سے رابطوں اور تعلق پر فخر
کیا جاتا تھا لیکن بقول صولت مرزا استعمال کے بعد ایم کیو ایم نے انہیں ٹشو
پیپر کی طرح پھینک دیا۔ اب جبکہ ایم کیوایم کے خوف میں کمی آئی ہے تو کارکن
خود اس سے لا تعلقی ظاہر کرنے کی سوچ رہے ہیں اور ایسااُس کی قیادت کی وجہ
سے ہے۔ کیا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ملک جس میں تمام سیاسی سرگرمیوں
کی اجازت ہو،ایک جماعت خود کو ملک کی تیسری بڑی جماعت کہتی ہو، صو بائی اور
وفاقی سطح پر تقریباََ ہر حکومت کا حصہ ہو اُس کا قائد ملک سے فرار ہوکر
دوسرے ملک میں بیٹھ جائے اور وہاں کی شہریت بھی اختیار کر لے۔ کارکن اس بات
پر بھی سوچ رہے ہیں کہ ان کی ڈور ایک برطانوی شہری کے ہاتھ میں کیوں ہے جو
جب چاہتا ہے ان کا شہر بند کرا دیتا ہے جب چاہتا ہے کھول دیتا ہے اور جب
چاہتا ہے جلا دیتا ہے اور ان تمام حالات سے اُس کی ذات مکمل طور پر محفوظ
رہتی ہے اور متاثر عوام ہی ہوتے ہیں اور پکڑ دھکڑ بھی اُن کی ہوتی ہے۔ وہ
جنہوں نے اپنے لیڈر پر جان دینے کا وعدہ نبھاتے ہوئے کسی بھی جرم سے دریغ
نہیں کیا ہوتا لیڈر علی الاعلان پوری دنیا کے سامنے ان کو پہچاننے سے انکار
کر دیتا ہے۔اگر چہ خبریں تو یہ ہیں کہ الطاف حسین کی ایم کیو ایم ٹوٹ کر
تین دھڑوں میں تقسیم ہو رہی ہے، ایک اپنی جگہ پر رہے گی، ایک حقیقی کے ساتھ
مل جائے گی اور ایک پرویز مشرف کی طرف چلی جائے گی لیکن ایک تاثر یہ بھی ہے
کہ بہت سارے لوگ ایم کیو ایم سے مکمل علحدگی اختیا ر کر رہے ہیں اور وہ کسی
عام قومی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں گے اور ایک عام پاکستانی کی طرح
بغیر کسی ڈر اور خوف کے اپنا ووٹ استعمال کر سکیں گے۔پاکستان ہم سب کی ایک
ایسی پہچان ہے جس پر سب کا حق برابر ہیں۔اردو ہم سب کی قومی زبان ہے،مادری
زبانیں گھر اور علاقوں میں اور ہم زبانوں سے بولنے کے لیے ہیں جن کو ختم
نہیں کیا جا سکتا لیکن قومی زبان ہمارے رابطے اورمحبت بڑھانے کی زبان ہے۔
کیا خود کو مہاجر کہنے والوں کا یہ اعزاز کم ہے کہ اُن کی زبان کو برصغیر
کے مسلمانوں کی زبان تصور کر کے پاکستان کی قومی زبان بنایا گیا اور اس سے
خیبر سے کراچی تک ہرایک نے پیا ر کیااور اسے اپنی زبان تسلیم کیا۔ہجرت اور
مہاجر اسلام کی شان ہے لیکن اگر ان الفاظ کو تعصُب اُبھارنے لیے استعمال
کیا جائے تو ایسا کر نے والوں کو وہی سزا دی جائے جو معاشرے میں منافرت
پھیلانے والے دوسرے افراد کی ہے۔ اب کراچی کے عوام کو اس بات کا احساس ہو
رہا ہے اور اگر ایم کیو ایم بھی اپنا وجود برقرا ر رکھنا چاہتی ہے تو اُسے
اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانا ہو گی اور جیسے پاکستان کے کسی بھی شہر میں
کوئی بھی رہ سکتا ہے اسی طرح کراچی میں کسی کو بھی آزادی سے رہنے کا حق ہے۔
سب سے بڑھ کر اُسے اپنی اُس قیادت کو تبدیل کرنا ہو گا جو اُس کے لیے مسائل
کا باعث ہے۔ الطاف حسین جس طرح فوج اور ملک کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں
اور جو زبان استعمال کرتے ہیں اور پھر جس طرح رابطہ کمیٹی اُن کے بیانات کا
دفاع کرتی ہے عوام کو دونوں کا نوٹس لینا چاہیے اور ضروری نہیں کہ وہ حقیقی
یا مشرف کے پاس جائے پورا پاکستان اور اس کی سیاست ان کے لیے ہر پاکستانی
کی طرح کھلی پڑی ہے اور ہر ایک کو اپنی راہوں کے تعین کا مکمل اختیار حاصل
ہے اور اس کے استعمال کا بھی۔ جیسے پشاور، کوئٹہ، لاہور، مسلم لیگ، پی پی
پی یا پی ٹی آئی سب کے ہیں اگر اسی طرح ایم کیو ایم کو بھی سب کی جماعت بنا
نا ہے تو اس کے کارکنوں کو اس کے منشور اور خاص کر قیادت کی طرف توجہ دینا
ہو گی۔ |