ایک بندر بادشاہ اور ہمارے حکمراں۔
(محمد اسامہ عارف, واہ فیکٹری)
معلوم نہیں کتنی مرتبہ کا ذکر
ہے.کہ کسی جنگل میں بندر بادشاہ تھا.ایک دن اچانک ایک لومڑی دوڑتی ہوئی آئ
اور آتے ہی عرض کی.
بادشاہ سلامت غضب ہو گیا شیر میرے بچوں کو کھانے جا رہا ہے میری مدد
کریں.یہ سنتے ہی بادشاہ کو بہت غصہ آیا اور وہ اسی وقت درختوں سے جھولتا
ہوا. لومڑی کے گھر جا پہنچا.لومڑی جیسا آپ لوگ جانتے ہیں بہت چالاک ہوتی
ہے.کچھ انسانوں کو بھی بولا جاتا ہے کہ اسکا دماغ لومڑی جیسا ہے.خیر بات ہو
رہی تھی بندر بادشاہ کی جو مدد کرنے آیا تھا.لومڑی خوش تھی کہ میرے بادشاہ
جنہیں لومڑی نے بادشاہ بنانے میں سب سے بڑھ کر محنت کی تھی وہ میرے بچوں کو
بچا لیں گے.بادشاہ کی آمد کے بعد بہت سے طوطے ٹیں ٹیں کرتے درختوں کے گرد
شور کرنے لگے تھے جیسے آج کل کے وزیر یہ کام کرتے طوطہ چشمی کی تمام حدوں
کو پھلانگ جاتے ہیں.یہاں اقتدار ختم وہاں کسی نئے بت کی پوجا شروع.سچ بات
ہے اگر طوطے ان کی طوطہ چشمی دیکھ لیں وہ بھی شرما جائیں. بات ہو رہی تھی
بادشاہ سلامت کی.موقع ء واردات پہ آنے کے بعد انھوں نے اونچے درختوں پہ ایک
ٹہنی سے دوسری شاخ سے اس شاخ پہ چھلانگیں لگائ اور بہت شور بھی کیا.اور اس
دوران شیر نے بہت سکون سے بیٹھ کر لومڑی کے بچے کھائۓ اور چلا گیا. شیر کے
جانے کے بعد لومڑی نے پوچھا سرکار یہ کیا کر دیا آپ نے میرے بچوں کو تو شیر
کھا گیا ہے.تو تب بادشاہ سلامت نے وہ جواب دیا جو تب سے اب تک تمام نا اہل
بادشاہوں کے پاس ہوتا ہے.. انھوں نے فرمایا"دیکھو ہم نے تمھارے سامنے کتنی
کوشش کی ہے ہم کتنا بھاگے دورے تھے مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا".
یہ چالاک لومڑی آج بھی موجود ہے اور وہ بندر حکمراں بھی.ایسی ہی بھاگ دور
ہمارے حکمراں بھی کرتے جب سیلاب آتا ہے.جب ٹیکس کا چوری ہوا روپیہ ملک سے
باہر جاتا ہے.جب ہم لوگ اپنے ملک میں پیدا ہونے والی گندم کو ترستے ہیں جب
پوری نسل کو پیسوں چند ٹکوں کے لیے غیر ملکی لڑائ میں جھونک دیا جاتا ہے.تب
وہ بادشاہ کی بات سنائ دیتی ہے.ہم نے کوشش بہت کی مگر قدرت کو کچھ اورمنظور
تھا.وہ لومڑی ہم ہیں ہم سمجھتے ہیں ہم سے بڑھ کر کوئ فیصلہ نہیں کر سکتا ہم
اپنی ذات برادری کی لڑایئ میں اپنا نقصان کرتے ہیں.ہم بار بار ایک ہی سوراخ
سے ڈسے جانے کے عادی ہو چکے ہیں ہم اپنوں کی لاشوں کو اٹھا اٹھا کر بے حس
ہو گئے ہیں.کاش ہم وہ انسان بن سکیں جیسا ہم کو درس دیا گیا ہے جیسا ہمارے
نبیﷺ نے اپنی زندگی میں کر دکھایا ہے۔ |
|