خبر ہے کہ گجرات میں ایک شخص نے
اپنی بیوی کو منانے کے لیے میت کا سرکاٹ کر عامل کو پیش کردیا ۔عامل نے یہ
شرط رکھی تھی کہ اگر وہ میت کا سرکاٹ کر لے آئے تو وہ اس پر ایسا عمل کرے
گا کہ اُسکی ناراض بیوی مان جائے گی ۔ دوسری جانب انتہائی باوثوق ذرائع کے
مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ را‘‘ نے ’’ روحانی علاج ‘‘ کے نام پر بااثر
افراد تک رسائی اور اثر رسوخ پیدا کرنے کے لیے پاکستان میں کام کرنیوالی
ایک بھارتی این جی او ’’ دی آرٹ آف لونگ‘‘ کا سہارا لیا ۔ وفاقی حکومت نے
خفیہ اداروں کی رپورٹس پراس این جی او کی سرگرمیوں کو مشکوک قرار دیتے ہوئے
اس کے سربراہ روی شنکر کی پاکستان آمد اور پاکستان میں اسکے براہ راست
لیکچرز پر پابندی لگادی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ روی شنکر کے بھارتی وزیراعظم
سے گہرے تعلقات ہیں ، اس این جی او کے پلیٹ فارم سے ’’ را‘‘ کے تربیت یافتہ
افراد پاکستان آئے ، بعد ازاں اس غیر سرکاری تنظیم نے چند ہ لے کر پاکستان
میں2اہم عمارتیں بھی بنوائیں ، جہاں باقاعدہ اس این جی او کی میٹنگز ہوتی
تھیں ۔ اس این جی او کے پلیٹ فارم سے لاکھوں کی تعداد میں اس کے ہم خیال
رضاکار بنانے کی مہم شروع کی گئی اور پھر باقاعدہ اہم میٹنگز میں گیتا پڑھی
جانے لگی اور روحانیت کے نام پر اسلام دشمن لیکچرز دئیے جانے لگے اس این جی
او کی آفیشل ویب سائٹ پر خداتعالیٰ کے حوالے سے متنازع باتیں لکھی گئی ہیں
۔، اس این جی او کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے والے وزارت داخلہ کے ایک اہم
آفیسر نے بتایا کہ یہ این جی او اب پاکستانی نوجوانوں کو بھی ٹارگٹ کررہی
تھی اور سال میں ایک بار مخصوص افرادکو ملک سے باہر لے کر جایا جاتا تھا ،
جہاں را کے افسر انہیں لیکچرز دیتے تھے ۔ اس این جی او کے دفتری ریکارڈ سے
پتہ چلا ہے کہ روی شنکر نے ’’ یوگا ‘‘ کی تربیت کے لیے لاہور ، اسلام آباد
اور کراچی میں مختلف افراد کو تربیت دی تھی۔ نیز اس این جی او کے ذریعے
ہندو ازم کے فروغ اور روحانی قوت پیدا کرنے کے لیے بعض ایسی ادوایات کا بھی
استعمال کیا جاتا ہے ۔
بظاہر یہ دونوں رپورٹس مختلف نوعیت کی ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک ہی تصویر
کے دو رُخ ہیں ۔ایکطرف وہ قوم جو بُت پرستی ، کفروشرک کا گڑھ ہے ،جہاں گائے
، سانپ ، چوہے بلی تک کو پوجا جاتا ہے ، جس کے دیوتا انسانی خون کی ’’
بھینٹ ‘‘ لے کر خو ش ہوتے ہیں ، جہاں شیطان کو راضی کرنے کے لیے انسانوں کے
گلے کاٹے جاتے ہیں اور جو قوم اخلاق، تہذیب اورانسانیت کے لحاظ سے انتہائی
گری ہوئی سطح پر پہنچ چکی ہے اور حیوانی خصلت کے باعث دنیا بھر میں بدنام
ہے ۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ دنیا میں روحانیت کی سب سے بڑی دعویدار ہے
۔دوسری طرف پاکستان میں بھی میتوں کے گلے کاٹنے ، مردوں کا گوشت کھانے ،
قبروں سے کفن اور ہڈیاں چرانے کا نام روحانیت رکھ دیا گیا ہے ۔ آخر یہ
کونسی روحانیت ہے ؟ ۔ اس راز سے پردہ اُٹھانے کے ساتھ ہی ساتھ روحانیت کے
اصل تصور کو اُجاگر کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے ۔
بحیثیت مسلمان ہمار عقیدہ ہے کہ روح اﷲ کا حکم ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے تمام
انسانوں کی روحوں کو روز ازل میں پیدا کیا ۔ پھر ان کوایک مقام پر جمع کیا
اور ان کو انسانی قالب میں ڈھال کر ان سے عہد لیا ۔
﴿ اور جب آپ (ﷺ ) کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا او
ر ان کو ان کے نفسوں پر گواہ بناکر اقرار لیا کہ کیا میں تمہار ا ر ب نہیں
ہوں ؟ تو سب نے جواب دیا کیوں نہیں ! ہم سب گواہ ہیں۔ ( یہ عہد اس لیے تھا
)تاکہ تم لوگ قیامت کے دن یوں نہ کہو کہ ہم تو محض اس سے بے خبر تھے ۔ یا
یوں کہوکہ پہلے پہل شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل
میں پیدا ہوئے سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہمیں ہلاکت میں ڈال دے
گا ﴾ (الاعراف ۔ ۱۷۲، ۱۷۳)
اس عہد ( میثاق ازل ) کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ انسان اپنے حقیقی رب کو
چھوڑ کر شرک میں نہ پڑے ۔تمام پیغمبر اور آسمانی کتابیں اسی عہد کی تجدید
کی لیے نازل ہوئیں ۔ اب انسان جب دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو اس کے آباؤ اجدا
د میں سے بعض بتوں کے پجاری ہوتے ہیں، بعض دیوی دیوتاؤں سے مانگتے ہیں اور
بعض نبیوں اور رسولوں کوخدا مانتے ہیں لیکن انسان کی روح واحد ایسی چیز ہے
جو اپنے حقیقی رب کو پہچانتی بھی ہے ، وہ اﷲ کے رب ہونے کی گواہ بھی ہے اور
خود اقرار بھی کیا ہے ۔لہٰذا یہ عہد انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔ اسی لیے
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ’’ ہر بچہ دین فطرت(اسلام) پر پیدا ہوتاہے ، پس اس کے
ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔اب جس انسان تک
پیغمبروں اور کتب الٰہی کی دعوت نہیں پہنچی ، اگروہ صرف اپنی روح کی آواز
پر لبیک کہے گا تو وہ کبھی شرک میں نہیں پڑے گا چاہے اس کے آباؤ اجداد پکے
مشرک ہی کیوں نہ ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں بھی کئی ایسے لوگ
اسلام لارہے ہیں ۔
روح انسان کا تعلق غیر اﷲ سے توڑ کر اپنے حقیقی رب سے جوڑنے اور شرک سے
بچنے کا ذریعہ ہے ، نماز ، روزہ ، تلاوت ، ذکر واذکار اور نیک اعمال سے روح
کو تقویت ملتی ہے ،انسان کا تعلق اﷲ سے مضبوط ہوتا ہے اور نتیجہ میں انسان
برائیوں سے بچتا ہے اور اس طرح معاشرہ امن وسلامتی کا گہوارہ بن جاتا ہے۔یہ
حقیقی روحانیت کا اصل مقام ہے۔یہاں یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہی کہ انسان
کے مرتے ہی روح کو عالم بالا پر اُٹھا لیا جاتا ہے ۔ چنانچہ روح نیک ہو یا
بد ، اس کا دنیا کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہیں رہتا اور اگر بالفرض روح کا
دنیا کے ساتھ کوئی تعلق رہ بھی جائے تو اس سے اس طرح کے ناپاک اور شیطانی
اعمال و افعال کی توقع ہر گز نہیں رکھی جاسکتی جو اس نام نہاد روحانیت میں
روحوں سے منسوب کیے جاتے ہیں ۔ بھلا اﷲ کے کسی حکم سے برائی کی توقع کی
جاسکتی ہے ؟ ۔آخر یہ کونسی روحانیت ہے ؟جو بت پرستی ، کفرو شرک کی دعوت
دیتی ہے ، جو بُتوں اور دیوی دیوتاؤں کے لیے انسانی خون کا نذرانہ مانگتی
ہے ،جس میں میتوں کے سرکاٹنا ، مُردوں کا گوشت کھانا ،معصوم زندگیوں سے
کھیلنا ، ہنستے بستے گھروں کو اُجاڑنا سب جائز ہے۔ چنانچہ اس راز سے خود اﷲ
نے پردہ اُٹھایا۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ
’’ اﷲ تعالیٰ فرماتاہے کہ میں نے اپنے بندوں کو دین حنیف( اسلام)پر پیدا
کیا ، پس شیطان ان کو ان کے دین سے گمراہ کردیتاہے‘‘ ۔
شیطان جس کی انسان کے ساتھ ازلی دشمنی کی وجہ لعنت کاوہ طوق ہے جو انسان سے
حسد کے باعث اس کے گلے میں پڑا ۔ تب سے اس نے قسم اُٹھا رکھی ہے کہ وہ
انسانوں کی اکثریت کو گمراہ کرکے چھوڑے گا ۔ اس مقصد کے لیے اس نے قیامت تک
مہلت حاصل کررکھی ہے اور اس کو اتنی طاقت حاصل ہے کہ وہ انسان کے اندر خون
کی مانند گردش کرتا ہے ۔اسی کی ذریات میں سے ایک ہمزاد ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ ،
حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ سمیت کئی صحابہ کرامؓ سے مروی احادیث میں حضور نبی
اکرم ﷺ کا واضح فرمان ہے کہ ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان مقرر ہے جسے ہمزاد
کہا جاتا ہے ۔ یہ ہمزاد اس انسان کی شکل وصورت اور نام اختیار کرتا ہے ۔ جب
تک انسان زندہ رہتا ہے یہ ہمزاد اُس کو میثاق ازل سے سرکشی اور شرک پر
آمادہ کرتا رہتا ہے اور انسان کے مرنے کے بعد یہ ہمزاد شرک و بُت پرستی اور
پوجاپاٹ کے ٹھکانوں پر جمع ہوجاتے ہیں جہاں دیگر لشکر شیاطین روز قیامت تک
بنی نوع انسان کو گمراہ کرنے کے مشن پر قائم ہیں ۔ اس وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے
قرآن میں فرمایا ہے کہ ’’ وہ نہیں پوجتے بتوں کو مگر شیطان کی پوجا کرتے
ہیں ‘‘ ۔
بیشتر قوموں نے جاہلیت کی بناء پر انہیں ہمزاد جنات اور شیاطین کو ارواح
سمجھ لیا اور اس مغالطے میں مبتلاہوکر کفرو شرک و بت پرستی کا شکار
ہوئیں۔انہیں میں سے ایک ہندو قوم بھی ہے جو ان ہمزاد شیاطین کو ارواح
سمجھتی ہے اور ان میں سے بعض کو دیوی دیوتا مانتی ہے ۔ ہندو پروہت ، پنڈت ،
جوتشی اور سادھو وغیرہ ان نام نہاد روحانی ( حقیقت میں شیطانی) قوتوں کو
حاصل کرنے کے لیے شمشان گھاٹ ( جہاں چتا جلائی جاتی ہے ) کے اردگرد منڈلاتے
نظر آتے ہیں۔ جادو ٹونہ کرنے والے ساحر ، عامل ، جوگی وغیرہ انہی ابلیسی
ذریات کے حصول کے لیے قبرستانوں کا رُخ کرتے ہیں ۔
انسان کی سب سے بڑی آزمائش میثاق ازل پر قائم رہنا ہے اور شیطان کا سب سے
بڑا مشن اس عہد کو توڑ کر انسان کو شرک میں مبتلا کرنا ہے ۔ جو رب انسان کو
پیدا کر سکتا ہے وہ انسان کی چھوٹی بڑی ضروریا ت بھی پوری کرسکتا ہے مگر
محرومیاں انسان کی آزمائش ہیں کہ کو ن اپنے رب سے مانگتا ہے ۔جبکہ انسان
ناشکرا اور جلد باز ہے ۔ شیطان ان کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا کر اسے غیر اﷲ
کے درپر لے جاتا ہے ۔ جہاں شیطان کا سب سے پہلا مطالبہ ایسا ہوگا جس سے
انسان کا اﷲ کے ساتھ عہد ٹوٹ جاتاہے اور وہ شرک میں مبتلاہوجاتا ہے ۔ چاہے
یہ مطالبہ معمولی نذر نیاز کی صورت میں ہو یا انسانی بھینٹ کی صورت میں،
میت کا سر لانے کامطالبہ ہو یا معصوم بچوں کے خون سے کھیلنے کا، لال دھاگا
باندھنے کا مطالبہ ہو یا گنگن یا کڑے پہننے کا ۔ جب آپ نے غیر اﷲ کی
خوشنودی کے لیے کوئی شے دی یا کوئی عمل کیا تو اپنے رب کے ساتھ آپ کا عہد
ٹوٹ گیا اور وہ عمل یا شے اس پر سند بن گئی ۔ اب اگر انسان اسی حالت میں
فوت ہوگیا تو اس کی بخشش کی کوئی صورت نہیں ۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے فرما دیا
۔
﴿ یقینا اﷲ تعالیٰ اپنے ساتھ کسی کو شریک کیے جانے کو ہرگز نہیں بخشتا اور
اس کے سوا جس کو چاہے بخش دیتاہے ﴾ ( النسآء ۔ ۴۸)
روحانیت کا اصل مقام بنی نوع انسان کا تعلق غیر اﷲ سے توڑ کر اپنے رب سے
جوڑنا تھا ۔ شیطان نے کیا عجب چال چلی کہ اﷲ سے تعلق توڑ کر غیر اﷲ سے
جوڑنے کا نام روحانیت رکھ دیا ۔ جادو ٹونہ ہو یا شرک وبت پرستی اور پوجا
پاٹ کی تہذیبیں ، سب میں یہی ابلیسی اُصول کارفرما رہا ہے ، جاہل معاشروں
نے ابلیسی فریب میں آکر اسے روحانیت سمجھنا شروع کردیا ۔ ہندو معاشرہ اس
روحانیت (حقیقت میں شیطانیت ) کا سب سے بڑا علمبردار ہے یہاں تک کہ بھارت
کے قومی جھنڈے میں گول چکراسی روحانیت کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔
اسلام کی آمد سے قبل ہندوستان میں دیوی دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے انسانی
جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا رواج عام تھا ۔ برصغیر میں اسلام کے غلبہ کے
ساتھ اس رواج کا خاتمہ ہوا ۔ لیکن افسوس آج اسلام کے نام پر بننے والے ملک
میں یہ شیطانی کھیل عروج پر ہے ۔ کہیں معصوم بچوں کو زبح کیا جارہا ہے تو
کہیں میتوں کے سر کاٹے جارہے ہیں ،کہیں مردوں کا گوشت کھایا جارہا ہے ،
کہیں قبروں سے کفن اور ہڈیاں تک نکالی جارہی ہیں ۔
ہندو برہمن ( ہندو دھرم کے ٹھیکیدار ، پروہت ، پنڈت ،سادھو وغیرہ) نے اسی’’
روحانیت ‘‘ کا دعویدار بن کر عام انسانوں پر نفسیاتی برتری حاصل کرلی اور
دیگر انسانوں کو ذاتوں میں تقسیم کرکے ان کا استحصال شروع کردیا ۔ یہاں
جادوگر ، عامل اسی روحانیت کے نام پر پیر اور بزرگ بن گئے ۔ جب پکڑے جائیں
تو جعلی ، نہ پکڑے جائیں تو دونوں ہاتھوں سے انسانیت کا استحصال کریں ۔ ملک
اور قوم کو لوٹ لوٹ کر اسی دولت پر عیاشی بھی کریں اور سیاست و حکومت بھی ۔
شاید علامہ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا ۔
ضمیر مغرب ہے تاجرانہ ، ضمیر مشرق ہے راہبانہ
وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ
کنارے دریا خضر نے کہا مجھ سے باانداز محرمانہ
قلندری ہو یا سکندری ہو ، سب طریقے ہیں ساحرانہ
حریف اپنا سمجھتے ہیں مجھے خدایانِ خانقاہی
انہیں ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگ آستانہ
روحانیت کے نام پر شیطانیت کے اس کھیل سے جہاں شرف انسانیت کی مٹی پلید
ہورہی ہے تو وہیں پر ان اولیاء کرام کی ناموس سے بھی کھیلا جارہا ہے جنہوں
اپنی ساری زندگی دین اسلام کی خدمت کے لیے وقف کردیں ۔یہ شیطانی کاروبار
ایک طرف قومی ، اخلاقی ، تہذیبی اور معاشرتی قدروں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا
ہے تو وہیں پر ملک کی نظریاتی سرحدیں بھی پامال ہورہی ہیں ۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ پاکستان کے اخبارات میں عاملوں اور پیروں کے
ایسے اشتہارات سرے عام چھپ رہے تھے جن میں ہندی دیوی دیوتاؤں کا’’تذکرۂ خیر
‘‘ لازمی طور پر ہوا کرتا تھا اور یہ سب کچھ روحانیت کے نام پر ہورہا تھا۔
راقم نے سب سے پہلے اس بے ہودگی کے خلاف آواز اُٹھائی اور اسے ہندو ازم کے
فروغ کی ناپاک سازش قرار دیتے ہوئے پاکستان میں جادو ٹونہ کے خلاف پابندی
اور قانوں سازی کا مطالبہ کیا ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان، اسلامی نظریاتی
کونسل ، نظریہ پاکستان ٹرسٹ سمیت ہر ادارے اور ہر مذہبی جماعت کے نام لکھا
، مگر کسی کے کان پر جونک تک نہ رینگی ۔ دائیں بازو کے کچھ اخبارات کی
معاونت سے ایسے بے ہودہ اشتہارات چھپنا بند ہوئے تاہم روحانیت کے نام
پرمظلوم انسانیت کے ساتھ شیطانیت کا کھیل اب تک جاری وساری ہے ، شیطان کے
ان چیلوں عاملوں اور نام نہاد پیروں کے ہاتھوں شہریوں کا دینی ،سماجی ،
معاشی ، مذہبی اور نظریاتی استحصال عروج پر پہنچ چکا ہے۔ گھروں کے گھر اُجڑ
رہے ہیں ۔ باعزت اور باوقارمسلمان گھرانوں کی عزت و ناموس کو پامال کیا
جارہا ہے ،سادہ لوح عورتوں کا اغواء اور کورٹ میرج کی آڑ میں معصوم زندگیوں
سے کھیل کا رواج اسی جادونگری کے کرشمات کی بدولت فروغ پارہا ہے ۔انسانی
بالوں کی سمگلنگ اب کاروبار کی شکل اختیار کرچکی ہے ، قبروں سے ہڈیاں ، کفن
اور مردے نکالنے کے واقعات آئے دن سامنے آرہے ہیں ، یہ کھیل اسی پر ختم
نہیں ہوجاتا بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے
پبلک مقامات اور ہسپتالوں سے معصوم بچوں کے اغواء میں جادوگری کی صنعت کے
کارندے ملوث ہیں ۔مارچ 2012میں لاہور میں طوطی شاہ نامی عامل ایک معصوم بچے
کو قبر میں زندہ گاڑھ کر اور خود قبر کے اوپر بیٹھ کر چلہ کرتا ہوا پکڑا
گیا ۔جب اس واقعہ کے خلاف عوام میں شور اُٹھا تو پنجاب اسمبلی میں ایک
قرارداد پیش کرکے عوام کی آواز کو دبا دیا گیا ۔اسی طرح گذشتہ سال مری میں
دو کم سن بچوں کو بے دردی سے زبح کیا گیا تو دوبارہ پنجاب اسمبلی میں
قرارداد پیش کرکے عوام کو خاموش کراد یا گیا ۔ اس بناء پر یہ سوال ضروراٹھ
رہا ہے کہ ایک عظیم نظریہ کی بنیاد پر بے مثال قربانیاں پیش کر کے آزادی
حاصل کرنے والی قوم کے یہ لخت جگر ابھی تک کس نظام کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں
اورہمارا نظر یاتی سرحدوں کی حفاظت پر مامور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ان
سماج اور دین دشمن عناصر کی جانب سے باطل کی تشہیر کرکے کس نظام کی آبیاری
کر رہا ہے ۔
درجہ بالا چشم کشا رپورٹ سامنے آجانے کے بعد کم از کم اب یہ سمجھنا چنداں
مشکل نہیں رہا کہ آخر وہ کون سی قوتیں ہیں جو پاکستان میں جادوٹونہ کے خلاف
قانون سازی میں رکاوٹ ہیں ۔ جبکہ اسلام میں ان عناصر کے خلاف واضح قانون
موجود ہے ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک حتی کہ بھارت (جیسی جادونگری ) کی کئی
ریاستوں میں جادوٹونہ کے خلاف قانون عملاً نافذ ہے، بھارت کی دیگر کئی
ریاستوں کی اسمبلیوں میں جادو ٹونہ کے خلاف قانون سازی کے لیے بحث ہورہی ہے
تو پاکستان میں آخر کون سی رکاوٹ ہے ۔ لہٰذا وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے ان
غدار اور نظریاتی دشمن عناصر کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت کریک ڈاؤن
کیا جائے ۔پاکستان میں بھارتی این جی اوزکا ’’ روحانی کردار‘‘اس بات کا
متقاضی ہے کہ پاک فون اور اس کی اعلیٰ کمان کو اس طرف خصوصی توجہ دینی
چاہیے اور ملک سے جادوٹونہ اور نام نہاد روحانیت کے اس شیطانی کھیل کا مکمل
قلع قمع کیا جانا چاہیے ۔ |