کردار سازی!
(M. Qaiser Mubarik, Lahore Cantt)
میں انارکلی میں ایک دوست کے
ہمراہ تھا اسے وہاں سے کچھ اشیاء خریدنی تھیں۔ میں دکان کے باہر اس کا
انتظار کر رہا تھاکہ اتنے میں ایک شخص میرے پاس آیا اور سامنے والی دکان کی
طرف اشارہ کر کے کہنے لگا، ’وہ دکان والے شیخ ہیں‘۔ میں اسے نہیں جانتا تھا،
میں نے کہا’بھائی وہ کیسے‘، کہنے لگا ’دکان کے سامنے بڑا سا بیگ دیکھ رہے
ہواس میں پیکنگ ہے اور وہ پیکنگ بیچتے ہیں‘۔یعنی جو پیکنگ والا شاپر ہوتا
ہے وہ بیچ دیتے ہیں۔ میں نے اس سے کہا’اس میں قباحت کیا ہے کاروبار میں تو
ایسا ہی ہوتا ہے‘۔ پھر اس نے میرے اس جواب پر اس دکان کے مالک کی مکمل
ہسٹری بیان کر دی اور آس پاس کی کچھ دکانوں کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا،
یہ سب اس کی ہیں اور اتنا امیر ہونے کے باوجود پیکنگ بیچتا ہے۔ اتنے میں
میرا دوست آ گیا اور ہم واپس آ گئے۔ہمارے معاشرے میں ہر کسی کی کردار سازی
کی جاتی ہے اور ہر کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے خواہ کسی بھی
طبقے سے اس کا تعلق ہو۔ کردار سازی ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے
جو کہ معاشرے کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ ہمارے اس معاشرے میں ہر شخص ایک دوسرے
کی کردار سازی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے خواہ کسی اعلٰی عہدے پر فائز کوئی
بھی شخص، کوئی مزدور،ریڑھی والا، میڈیا کا نمائندہ یا کوئی سیاست دان، سب
ہی ایک دوسرے کی کردار سازی کرتے دکھائی دیتے ہیں جس سے معاشرے میں فساد
پھیلتا ہے اور لڑائی جھگڑوں کا باعث بنتا ہے۔ مغربی ممالک میں کردار سازی
بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ وہاں سب کام میں اتنا مگن ہوتے ہیں کہ
انہیں ان فضول کاموں کیلئے وقت ہی نہیں ملتا۔ ہمیں اس معاشرے سے کردار سازی
کے عمل کو ختم کرنا ہو گا جس میں مجھے آپ کو ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا
ہو گا تاکہ معاشرے کی اس لت سے جان چھڑائی جا سکے۔
|
|