صفائی نصف ایمان ہے اور ایمان
مسلمان کی شان ہے ہم سب خود کو بہت باعمل مسلمان بلکہ مومن گردانتے ہیں
دوسرے کے ایمان پر تنقید اور شک کرتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں جھا نکنے کی
غلطی بھی نہیں کرتے۔ بلاشبہ اسلام اپنے پانچ ستونوں پر کھڑا ہے لیکن نبی
پاک ﷺنے کچھ دوسری چیزوں کو ایمان کا لازمی جز قرار دیا ہے جن میں سے صفائی
ایک بہت بڑا جز ہے بلکہ اسے نصف ایمان قرار دیا۔ اب ذرا اسی تناظر میں اپنا
جائزہ لیجئے کہ ہم صفائی کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ ہمارے شہر ہمارے ایمان کے
اس جز کی کمزوری کی بہت بڑی دلیل ہیں۔ ہماری حکومتیں انتخابات سے پہلے اس
مسئلے کو بھی اپنی انتخابی مہم کا کسی نہ کسی حد تک حصہ بناتی ہیں، برسر
اقتدار آکر ایسے پروگراموں کا آغاز بھی کر دیتی ہیں اور بڑے جوش و خروش سے
کرتی ہیں چاہے عوام کو دکھانے کے لیے ہی سہی لیکن کچھ عرصہ بعد نہ صرف جوش
ختم ہو جاتا ہے بلکہ پروگرام بھی عملاََ ختم ہو جاتا ہے اگرچہ کاغذوں میں
زندہ رہتا ہے کیونکہ منسلِک لوگوں کو تنخواہیں دی جا رہی ہوتی ہیں۔ یہاں
معاملہ کچھ ایسا ہے کہ حکومت اور عوام دونوں اس مسئلے کے ذمہ دار ہیں ہمارے
عوام اگر گنڈیری چوس کر یا مالٹا، کینو کھا کر اس کا چھلکا سڑک پر نہ پھینک
دیں تو لگتا ہے وہ پھل کے ذائقے سے مکمل طور پر لطف اندوز ہو ہی نہیں سکتے
پشاور سے لے کر کراچی تک یہی رویہ ہر جگہ نظر آئے گا۔ ہماری سبزی منڈیاں
غیر صحتمند ماحول کی زندہ ترین مثال ہیں ،گلے سڑے پھل سبزیاں یوں آسانی سے
سر عام پھینک دی جاتی ہیں جیسے کوڑے کے ڈھیر پر پھینکی جارہی ہوں۔ سکھر میں
میڈیکل سٹور والے کو دواؤں کے خالی ڈبے ڈھڑا دھڑ سڑک پر پھینکتے ہوئے دیکھ
کر جب ایسا نہ کرنے کی درخواست کی تو جواب ملا بی بی کیا ایک میرے نہ کرنے
سے یہ گند جو پڑا ہوا ہے ختم ہو جائے گا۔ کچھ ایسے ہی جوابات راولپنڈی کے
مصریال روڈ پر یا لاہور کی انار کلی یا پشاور کے قصہ خوانی بازار میں بھی
ملے۔ کوئٹہ کے سریاب روڈ کا حال بھی مختلف نہیں ہوتا۔ یہ تو دکانداروں کا
رویہ ہے عام آدمی اپنے گھر کے باہر کی نالی پختہ کر کے صاف کرنا اپنا فرض
نہیں سمجھتا چاہے گھر کے اندر سنگ مرمر کا سیلاب آیا ہوا ہو ۔ ہمارے رویے
اوپر سے نیچے تک ایک ہی جیسے ہیں اگر عوام کا رویہ یہ ہے تو حکومت بھی کسی
ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیتی اگر گند پھینکنے والوں کو جرمانہ کی سزا دی
جائے اُن سے پوچھ گچھ کی جائے تو حالات میں بہتری آسکتی ہے ۔ ہمارے بازار
بجلی کی بے تحاشا تاروں سے مزین نظر آتے ہیں اور خطر ناک حدتک نیچے یہ
تاریں خدانخواستہ کسی بھی وقت کسی بھی حادثے کا باعث بن سکتی ہیں۔ یہ تاریں
آپس میں کچھ ایسے الجھی ہوئی ہوتی ہیں کہ شارٹ سرکٹ کی صورت میں آپ ہر گز
معلوم نہیں کر سکتے کہ مسئلہ کس لائن پر کہاں موجود ہے اور یوں معلوم کرتے
کرتے اتنی دیر ہوجاتی ہے کہ ایک بہت بڑا حادثہ رونما ہو جاتا ہے۔ جانیں چلی
جاتی ہیں دکانیں جل جاتی ہیں لاکھوں کروڑوں کا سرمایہ جل کر خاکستر ہو جاتا
ہے اور بعد میں صرف انکوائریاں ہی ہوتی رہتی ہیں۔
صحت کے مسائل کا تعلق تو صفائی کے ساتھ یوں جڑا ہوا ہے جیسے جسم اور روح کا
اور ہماری صفائی کی مخدوش صورت حال ہی کی وجہ سے ہمارے ملک میں آلودہ پانی
سے پیدا ہونے والی بیماریاں انتہائی عام ہیں ۔یہی حال فضائی اور زمینی
آلودگی کا ہے کارخانوں سے نکلنے والے دھوئیں نے تو ہوا میں سانس لینا دوبھر
کر دیا ہے اور پھیپھڑوں اور سانس کی بیماریوں میں مسلسل اضافے کا باعث ہے۔
زمینی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے اس زمین کو جس کو کہنے کو ہم اپنی ماں کہتے
ہیں لیکن عملاََ ایسا ہے کہ ہم نے کبھی اس کی صفائی اپنا فرض نہیں سمجھا ۔
لگانے کو تو میونسپل کمیٹیوں ، کارپوریشنوں اور حکومتوں نے جگہ جگہ کوڑے
دان بھی لگا دئیے ہیں لیکن ہونے کو ہوتا یہ ہے کہ اِن کے آس پاس ہی کوڑا
پھینک کر سمجھ لیا جاتا ہے کہ کوڑے کو ٹھکانے لگا دیا گیا ہے یہ اور بات ہے
کہ راہگیر اپنی سانس روک کر اس جگہ سے گزرتے ہیں۔ ہماری نالیاں رنگارنگ
شاپنگ بیگوں کی وجہ سے بند پڑی رہتی ہیں اور گند ا پانی ابل ابل کر آس پاس
پھیل رہا ہو تا ہے ، ہمارے پارک جوس کے ڈبوں اور چپس کے ریپرز سے اٹے پڑے
ہوتے ہیں اور ہماری بے حسی کی داستان سنا رہے ہوتے ہیں،ہمارے تالاب ، ڈیم
اور دوسری آبی سیرگا ہوں میں سطح آب پر تیرتے ہوئے کھانے پینے کی اشیاء کے
ڈبے اور ریپرز ہمارے کمزور ایمان کا ثبوت دے رہے ہوتے ہیں ۔ہم کسی ایک دن
ٹی وی کیمروں کے لیے کسی سکول کے بچوں سے کسی پارک کی صفائی تو کروا دیتے
ہیں لیکن اس کو معمول بنانے پر بالکل آمادہ نہیں ہوتے۔ ہم خود کو عظیم
مسلمان کہنے والے اگراس نصف ایمان کو اپنا نصف ایمان نہ سہی کچھ نہ کچھ
ترجیح بنا لیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے شہروں اور اپنی گزر گاہوں
کو صاف ستھرا رکھیں تو نہ صرف اپنے ماحول کو بچا سکیں گے، بیماریوں سے بچ
سکیں گے بلکہ اپنے ایمان کو بچا کر اپنے رب اور رسول ﷺ کو خوش کر سکیں گے۔
اسلام صرف نماز ، روز ہ کا نام نہیں یہ ایک مکمل ضابطہء حیات ہے یہ چھوٹی
چھوٹی باتوں کا بھی اہتمام کرتاہے لہٰذا اس پر مکمل طور پر عمل کرنا ضروری
ہے تاکہ ہم جب خود کو مومن اور مسلمان کہیں تو ہمارے دل میں کہیں کوئی چور
موجود نہ ہو۔ |