عید الفطر کا تیسرا دن تھا ایک
عزیز سے ملنے شہر سے باہر گیا واپسی پر رات جب لاری اڈہ سے اترا تو گھڑی پر
نگاہ ڈالی ، ساڑھے نو ہونے میں تین چار منٹ باقی تھے ، عشاء کی نماز کا
خیال آیا تو لاری اڈہ میں موجود مسجد کی طرف اس امید سے رخ کیا کہ وہاں
نماز ساڑھے نو ہی ہو گی ۔ مسجد میں داخل ہوا تو مسجد کی ویرانی سے اندازہ
لگا یا کہ نماز باجماعت ہو چکی ہے ۔مسجد کے ہال میں داخل ہوا تو نماز کا
اوقات کار، جو سامنے دیوار پر لگا تھا ،پر نماز عشاء کا وقت دیکھا تو ساڑھے
نو ہی لکھا تھا مگرمسجد میں آس پاس کے حالات دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھاکہ
نماز باجماعت ہوئے کم از کم آدھا گھنٹہ بیت چکا ہے ۔نما ز ہو چکی ہے یا
نہیں ہوئی ؟میں اپنی نماز پڑھ لوں یا انتظار کروں؟مگر انتظار کیوں جب کہ
نماز باجماعت کا وقت ساڑھے نو ہے اور گھڑی اس وقت نو بج کر چالیس منٹ بجانے
والی تھی ؟اسی سوال و جواب کی غیر یقینی سی صورت حال میں پھنسا ادھر
ادھردیکھا تو ہال کے کونے میں بیٹھے ایک بزرگ کو تسبیح کرتے دیکھا جب ان سے
اپنی اس شش و پنج کا ذکر کیا تو وہ بولے کہ نماز کا وقت ساڑھے نو ہی ہے اور
وہ ہی اس مسجد کے اما م صاحب ہیں ۔ امام صاحب کے اس جواب اور مسجد کے اندر
موجود ویرانی نے مجھے جہاں حیران کیا وہاں ہی دل کو دکھ سے بھر دیا ۔تھوڑا
سا حوصلہ بڑھایا اور امام صا حب سے پو چھا کہ نماز کس وقت کر وائیں گے جب
کہ وقت تو ہوچکا ہے تو امام صاحب کا یہ جملہ میرے سینے کو چیر گیا:’’جب
نمازی آئیں گے ‘‘
ندامت ،افسوس اور شرمندگی کے گھمبیر سمندر میں ایسا ڈوبا کہ مذکورہ بالا
سوالات کے بعد امام صاحب سے اور سوالات کرنے کی جرات نہ ہوئی ۔ٹانگوں سے
نکلتے سانس کو بحال کرنے کے لیے میں بھی امام صاحب کے ساتھ بیٹھ کر نمازیوں
کا انتظار کر نے لگا اور گھڑی نے دس بجا دئیے ۔دس بجتے ہی امام صاحب کو
غالباً یہ شک ہوا کہ میں چلا نہ جاؤں انھوں نے مجھے نماز کا کہا اور اس
مسجد میں،میں اور امام صاحب نے مل کر نماز با جماعت ادا کی ۔نہ نمازیوں کے
وضو کرتے وقت پانی گرنے کی آواز ،نہ جو تے اتارنے اورنہ پہننے کی آواز اور
نہ ہی ڈھب ڈھب کی آواز سے تیز چل کر نماز میں شامل ہونے والے نماز ی۔نماز
ادا کرنے کے بعد مسجد کی اس ویرانی کی وجہ میں نے امام صاحب سے پو چھی
توانھوں نے مسکرا کرکہا ’’ آج تو میں نے نماز با جماعت ادا کی ورنہ اس مسجد
میں ،مَیں اکیلا ہی نماز ادا کر تا ہو ں ‘‘یہ جملہ تھا یا پتا نہیں سلگتا
ہواتیرتھا جو میر ے سینے کو چیر کر چھلنی چھلنی کر گیا ۔
یہ عید کے تیسرے دن کا واقعہ ہے مسجد بھی شہر کے اندرپر رونق ایریا میں جب
کہ عید خالصتاًمسلمانوں کا مذہبی تہوار خوشی ، مسرت اور انعام کا دن
۔۔۔۔اور انعام اس کائنات کے مالک و خالق کی طرف سے کہ جس کا گھر ویران ۔
المیہ کتنا بڑا کہ مسجد سے باہر نکل کر ابھی دس پندرہ قدم ہی چلا تھا کہ
ہوٹل میں بیٹھے تقریباً پچاس کے قریب افراد کو دیکھا جو خوش گپیوں میں
مصروف تھے اور ان میں بعض کے قہقہے اتنے بلند تھے کہ میرے ہوٹل کے کچھ دور
ہونے کے باوجود بھی ان کے قہقہوں کی آواز کانوں کو پھاڑ رہی تھی ۔ کیا یہ
مسافر ہیں یا اس لاری اڈے میں موجود کچھ گاڑیوں کے ڈرائیورز یا کنڈکٹرزیا
پھر اس لاری اڈے کے ملازمین ؟لیکن نماز تو سب مسلمانو ں پر فرض ہے اور ہر
حال میں فرض ہے پھر اتنے سارے مسلمانوں کی موجودگی میں بھی ان کے ہمسایے
میں موجود مسجد ویران ۔حیرت اور شرمندگی کی ملی جلی کیفیت میں گھر کی جانب
رواں دواں تھا کہ اچانک ذہن میں وہ وصیت آگئی جو رحمت عالم اور خاتم النبین
حضرت محمد ﷺ نے اس امت کو کی جس کے لیے آپ ﷺ ہر وقت پریشان رہتے تھے۔بخاری
شریف (۲؍۶۳۷)میں ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ ؓ کرام کو ان الفاظ میں بار بار
دہرا کر وصیت فرمائی ’’نماز، نماز اور تمھارے زیر دست‘‘
سنا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی میں مسجد حر مین شریفین کے بعد دنیا کی سب سے
بڑی اور خو بصورت مسجد بنائی جارہی ہے جس میں یونیورسٹی(اسلامک سنٹر)کا
قیام عمل میں لایا جائے جس کا الحاق مصرکی جا معہ الازہر کے ساتھ ہوگاجب کہ
بحریہ ٹاؤن لاہور میں دنیا کی ساتویں بڑی جامع مسجدمختصر ترین مدت میں پہلے
ہی مکمل کر چکا ہے۔کراچی میں بننے والی دنیا کی سب سے بڑی مسجد کا نقشہ
معروف ماہر تعمیرات نیئرعلی داداسعودی عرب ،ترکی ،ملائیشیا،ایران ،متحدہ
عرب امارات ،کویت کی مساجد کو سامنے رکھ کر بنارہے ہیں ۔اس عظیم الشان مسجد
کی تعمیر کے منصوبے کا تخمینہ بیس کروڑڈالر لگایا گیا ہے ۔مسجد چار کروڑبیس
لاکھ مربع فٹ کے رقبے پر تعمیر کی جا ئے گئی جس کے تین فلور (منزلیں)ہوں
گی۔ایک بیسمنٹ اور ایک اپر ڈیک بھی تعمیر کیا جائے گا، اپنی طرز کی منفرد
اور اسلامی فن تعمیر کی اس شاہ کا ر مسجد کو تین سے چار سال میں مکمل کر
لیا جائے گا ۔آٹھ لا کھ نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکیں گے۔ایک لا کھ
خواتین کے لیے بھی الگ فلور مختص ہو گا جہاں وہ نماز ادا کر سکیں گے ۔
سنا ہے کہ اس مسجد میں قرآن اکیڈمی بھی ہو گی ۔جہاں قرآن پا ک کا میوزیم
بھی ہو گا ۔میوزیم میں با عث تکریم مقدس نوادرات ،ہزاروں سال پرانے قرآن
پاک کے قدیم اور نادرنسخہ جا ت رکھے جا ئیں گے، اس میوزیم میں ہاتھ سے لکھے
گئے قرآن پاک ،قرآن پاک کی تفاسیر ، اسلامی کتب بھی رکھی جا ئیں گی
،مسجدمیں سی سی ٹی وی کیمرے، واک تھر و گیٹ،جدید ائیرکنڈیشنگ پلانٹس ، بیش
بہا فانوس لگائے جائیں گے ،اپنا جدید ترین تھرمل پاور ہاؤس ہو گا ، منرل
واٹر جیسا پینے کا پانی بھی دستیاب ہو گا ،وضوخانے اور واش روم ہر وقت صاف
رکھنے کا مکمل انتظام ہو گاوغیرہ وغیرہ ۔
کیا شان دار اس مسجد کا نظارہ ہو گا جو یقینا مسلمانوں کی شان و شوکت اور
ہیبت و وقارمیں جہاں اضافے کا موجب ہو گا وہاں ہی پاکستان اور پاکستانیوں
کی مساجد سے محبت کا اشارہ بھی دے گا مگر مساجد سے محبت تو مساجد بھرنے سے
عیاں ہوتی ہے توکیا دو نمازیوں سے مسلمانوں کی محبت مساجد سے عیاں ہوگی ؟
یقینا نہیں ۔اس سے پہلے کہ مساجد کی دیواریں نمازیوں کا انتظار کریں اور
مساجد کے امام اکیلے نماز ادا کریں ان مساجد کو آباد کرنا ہو گا بچوں نے
بھی نوجوانوں نے بھی جوانوں نے بھی اور بزرگوں نے بھی۔اﷲ کا گھر آباد کرنا
ہو گا مسلمانوں کی شان و شوکت کے لیے اور ہیبت و وقار کے لیے ۔ |