دوسری عورت
(Syed Shahid Abbas, Rawalpindi)
شادی کے اکیس سال بعد ا س کی
بیوی نے اس کو کسی دوسری عورت کے ساتھ باہر جانے کی حامی بھر لی۔ یہ خبر نہ
صرف اس کے لیے حیران کن تھی بلکہ جب اس نے اس دوسری عورت کو مطلع کرنے کے
لیے فون کیا تو اس کی حیرت کی بھی انتہا نہ رہی کہ یہ معجزہ ہو کیسے گیا۔
اس کی بیوی کا خیال تھا کہ وہ عورت بھی اس کے شوہر کے ساتھ کچھ اچھا وقت
گزارنا چاہتی ہے ۔ کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ اس کے شوہر نے اُس دوسری عورت
کو بہت نظر انداز کیا ہے۔ رابطہ کرنے پر اُس دوسری عورت کا سب سے پہلا سوال
ہی اس شخص سے یہی تھا کہ"کیا تم ٹھیک ہو؟ کیا تمہاری صحت تو ٹھیک ہے نا؟ "۔
کیوں کہ یہ شخص جب بھی اِس دوسری عورت سے رابطہ کرتا تھا تو لامحالہ کوئی
بری خبر ہی سننے کو ملتی تھی۔بہرکیف اس شخص نے اُس دوسری عورت کو جواباً
یہی کہا کہ اتنے عرصے بعد ہم دونوں کو کچھ وقت اکھٹے گزارنا چاہیے شاید یہ
ہم دونوں کے لیے بہتر ہو گا ( بیوی کی طرف سے مشورے کی بات وہ جان بوجھ کر
گول کر گیا۔ شاید شرمندگی سے یا شاید عزت نفس مجروح ہونے کے خیال سے)۔دوسری
عورت نے نہایت خوشی سے دعوت قبول کر لی۔ شاید یہ اس کی زندگی کے یادگار
لمحات تھے۔
مقررہ وقت پر باقی معمولات سے فراغت کے بعد وہ شخص بیوی کے کہنے پر اُس
دوسری عورت کو لینے پہنچ گیا۔ وہ عورت کچھ پس و پیش سے کام لے رہی تھی شاید
اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ واقعی اس شخص سے جو اس کی زندگی کا سرمایہ
تھا کچھ وقت گزارنے جا رہی ہے۔ انہوں نے ایک اچھے ہوٹل میں کھانا کھایا اس
شخص نے آج اس دوسری عورت کے لیے خود کھانے کا انتخاب کیا کیوں کہ ماضی بعید
میں دوسری عورت اس کے لیے کھانے کا انتخاب کرتی تھی۔ اس شخص کو دوسری عورت
کی معیت میں عجیب سا سکون محسوس ہو رہا تھا جس سے اسے وقت گزرنے کا احساس
ہی نہ ہوا۔ ملاقات خوشگوار انداز میں ختم ہوئی۔ بہت سی یادوں کی تازگی کے
ساتھ ۔
کچھ دن بعد اس شخص کو یہ افسوس ناک خبر ملی کہ اس دوسری عورت کا انتقال ہو
گیا ہے۔ وجہ دل کا بند ہونا تھا۔ شاید اتنی عرصے بعد کی خوشگوار ملاقات اس
کا ناتواں دل برداشت نہ کر پایا۔ یہ " دوسری عورت" اس شخص کی ماں تھی۔ اور
بیٹا شادی کے بعد اپنی ماں کو بھول گیا تھا۔ بھلا ہو بیوی کا جس نے شوہر کو
اجازت دے دی اپنی ماں سے ملاقات کی ۔ اور بوڑھی ماں اپنے بیٹے سے اس
خوشگوار ملاقات کی خوشی سہہ نہ پائی اورسانسوں کی قید سے آزاد ہو گئی ۔
بوڑھی ماں اس شخص کی زندگی میں" دوسری عورت" بن گئی تھی۔ کیوں کہ بیٹا شادی
شدہ زندگی کی مصروفیات میں گم ہو کر ماں کو بھول چکا تھا۔ ماں کے مر جانے
کے کچھ دن بعد اس شخص کو اسی ہوٹل سے جہاں انہوں نے کھانا کھایا تھا ایک خط
موصول ہوا جس میں ماں کا پیغام تحریر تھا کہ " میں نے پہلے ہی بل ادا کر
دیا تھا۔ کیوں کہ مجھے یقین نہیں تھا کہ میں تمہارے ساتھ آ سکوں گی یا
نہیں۔ ساتھ دو پلیٹیں ہیں ایک تمہارے لیے ایک تمہاری بیوی کے لیے تا کہ تم
جان سکو کہ میرے لیے یہ ملنا کتنا اہم تھا۔ مجھے تم سے محبت ہے میرے بیٹے"۔
یہ ایک فرضی کہانی بھی ہو سکتی ہے اور حقیقت بھی ۔ اس کی تصدیق مقصود نہیں
ہے۔ مقصد پیغام پہنچانا ہے۔ ان بیٹوں تک جو اپنی ماں کو "دوسری عورت" بنا
بیٹھے ہیں۔ مجھ تک یہ پیغام پہنچانے کا ذریعہ محترم مبشر لقمان صاحب اور
علی رضا شاف بنے۔ پیغام پڑھتے ہی معاشرے کی دھکم پیل ایک فلم کی طرح ذہن
میں چلنے لگی ۔ کتنے بیٹے ہیں جو آج کل وقت کا رونا روتے ہوئے اپنی ماؤں کی
دعائیں سمیٹنے سے قاصر ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ماں بد دعا نہیں دے
سکتی ۔ لیکن اس کی دعا حاصل کرنے کے لیے بھی دل کی خواہش بھی تو لازم ہے۔
کتنی مائیں ہیں جو دوسری عورت بن کر بھی اولاد کا دکھ نہ دیکھنے کی دعائیں
مانگتی اس دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں۔ ماں کو دوسری عورت کا درجہ دیتے ہوئے
ہم جناب موسی علیہ السلام کی رب عزو جل کے ساتھ ہمکلامی کو بھی بھول جاتے
ہیں۔ جب اﷲ ماں کے جانے کے بعد اپنے نبی ؑ تک کو سنبھلنے کا کہہ سکتا ہے تو
ہم کیوں غافل ہوئے بیٹھے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام انحطاط کا شکار ہے۔ اور ہم یہ تصور کیے
بیٹھے ہیں کہ ہم ترقی کر رہے ہیں۔ ہم اخلاقی تنزلی کو ترقی سمجھ رہے ہیں۔
خاندانی نظام میں ماں کا کردار ایک ناصح کا سا رہا ہے۔ بچوں کی تربیت ،
اخلاقی درس ، دینی علم سب کچھ دادی کے ذمے ہوتا تھا۔ لیکن جب بیٹوں نے اپنی
ماؤں کو دوسری عورت کا درجہ دے دیا تو نہ صرف خاندان تباہ ہونا شروع ہو گئے
بلکہ ذہنی طور پر اخلاق بافتہ نسل پروان چڑھنے لگی جو یہ بھول گئی کہ ہمارا
دین ہمیں کیا سکھاتا ہے۔ اور اخلاقیات کیا ہیں۔نتیجتاً معاشرہ تباہ ہوتا
گیا۔ یہ کہنا شاید زیادہ بہتر ہو گا کہ ہم معاشرے کی تباہی کے ذمہ دار خود
ہیں کیوں کہ ہم اس معاشرے کی اکائیاں ہیں۔
معاشرے کو مثبت طور پر تبدیل کرنے کے لیے ہمیں ـاس " دوسری عورت" کے کردار
کو زندہ کرنا ہو گا۔ یہ دوسری عورت نئی نسلوں کی امین ہوتی ہے۔آنے والی نسل
کی تربیت گاہ ہوتی ہے۔ تمام بیٹوں سے التجا ہے کہ نئی نسل سے یہ تربیت گاہ
نہ چھینیں۔ مستقبل میں آنے والی نسل کو اس تربیت گاہ سے درس حاصل کرنے کا
موقع دیں ۔ ایسا کر کے نہ صرف آپ ایک ذہنی و عقلی طور پر مضبوط نسل کو
پروان چڑھائیں گے بلکہ اس دوسری عورت کو بھی ایک ایسا سکون دے پائیں گے کہ
پھر آپ کو اﷲ سے جنت کی التجا نہیں کرنی پڑے گی ۔ کیوں جنت تو ہے ہی اس
دوسری عورت کے پاؤں کے نیچے۔ |
|