اللہ کرے کہ حالات میں آنے والی
بہتری مزید بہتری کی طرف رواں رہے۔ پاکستان عرصہء دراز سے جن سازشوں کی زد
میں ہے اُس نے پورے معاشرے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دہشت گردی اور
شدت پسندی کی عفریت نے معاشرے کے امن کو نگل لیا ہے۔یہ دہشت گردی کئی اطراف
سے ملک کے امن کو تہس نہس کیے ہوئے ہے کسی شہر میں یہ فرقہ واریت بن کر
سامنے آتا ہے اور کسی میں بم دھماکہ، کہیں بھتہ کہیں ٹارگٹ کلنگ ،غرض کبھی
ایک وجہ کبھی دوسری وجہ لیکن نتیجہ مشترک اور وہ ہے ملک ، قوم اور عوام کی
مصیبت۔اب اگر اس ساری صورت حال کا تجزیہ کیا جائے تو اس کی جڑوں میں ایک ہی
مائنڈ سیٹ بیٹھا ہوا ہے جو معاشرے کی تقسیم چاہتا ہے ہر بنیاد پر، اور بد
قسمتی سے اس کے لیے سب سے زیادہ مذہب کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ روس افغان جنگ
کے بعد مختلف ممالک سے آنے والے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے مجاہدین
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں رہ گئے اور ان کو اپنے اپنے ملک سے اپنا اپنا
نظریہ پھیلانے کے لیے مدد بھی ملتی رہی اور یوں جب معمولی اختلافات کے ساتھ
ہی سہی مختلف نظریات آپس میں ٹکرانے لگے اور ساتھ یہ بھی ہواکہ اپنے مسلک
کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی اور اس کے لیے ہر حد تک جایا گیا
۔خوارج کے نظریے نے عملاََ دوبارہ جنم لیاان کے علاوہ ہر دوسرا گناہ گار
اور پھر واجب القتل ہو گیااور یوں ملک ان مصائب و مسائل کا شکار ہو گیاجس
نے ہمیں ترقی کے حوالے سے کئی صدیوں پیچھے دھکیل دیااور انسانی جانوں کا جو
ضیاع ہوااس کا مداوا تو صدیوں میں بھی ممکن نہیں۔اگرچہ دہشت گردی ختم کرنے
کے لیے فوج نے جو آپریشن کیے اُن سے حالات میں تو کچھ بہتری آئی اور خاص کر
ضرب عضب سے قوم کو یہ توقع ہے کہ دہشت گردی کی کمر توڑ دی جائے گی لیکن اس
مسئلے کا مستقل حل وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور اُس کے لیے ہمیں معاشرے
میں اُن عناصر کی بیخ کنی کرنی ہو گی جنہوں نے نہ صرف معاشرے بلکہ اُس سے
آگے بڑھ کر اسلام کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔اس میں کسی شک و شبہے کی بات
ہی نہیں کہ ان عناصر کو بیرونی امداد حاصل ہے اور ان چھوٹے چھوٹے فقہی
مسائل کو الگ الگ اسلام کی بنیاد بنا کرپیش کرنے کے لیے جن جن طاقتوں نے
خزانوں کے منہ کھولے ہوئے ہیں وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن میں پھر یہی
کہوں گی اُن کے آلہ کارہمارے اپنے لوگ ہیں جو کبھی ایک مولوی کے پیچھے چل
پڑتے ہیں اور کبھی دوسرے کے جو ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے یوں جاری
کرتے ہیں جیسے یہ گڑیا گڈے کا کھیل ہو۔جبکہ د ر حقیقت اگر دیکھا جائے تو یہ
لوگ اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ کبھی ملک میں رائج طرز
حکومت کوغلط کہتے ہیں اور کبھی آئین کو۔ نعرہ خلافت کا لگاتے ہیں لیکن اگر
ان لوگوں سے خلافت کے بارے میں پوچھا جائے تو خلافت تو دور کی بات یہ اسلام
کے بنیادی احکامات بھی نہیں جانتے سوائے اپنی مرضی کے چند ایک کے اور ان کو
بھی یہ توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کا بنا لیتے ہیں۔یہ گروپس خود بھی ایک بنیادی
نظریے پر متفق نہیں اور ہر ایک نے مختلف پہلوؤں کو اپنے ایجنڈے پر رکھا ہوا
ہے اور اسی کو لے کرانسانوں بلکہ مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہے ہیں اوریہی
ایک نکتہ ان کے منشور میں متفقہ ہے کہ ان کے علاوہ ہر انسان گناہ گار ہے
لہٰذااس کا قتل جائز ہے جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ایک انسان کے قاتل
کو پوری انسانیت کا قاتل قرار دیتا ہے اور ایک زندگی بچانے کو پوری انسانیت
کو بچانے کے مترادف سمجھاہے۔یہ لوگ جو اپنی حکومت کے خلاف بغاوت کو جہاد کا
نام دیتے ہیں ان سے اگر جہاد کے بارے میں پوچھا جائے تو یہ اُس کی تفصیلات
سے بے خبر ہیں۔ حکومت کی ان کے خلاف کاروائیاں بھی اپنی جگہ اور فوج کے ان
کے خلاف آپریشن بھی ان کی کمر توڑنے کے لیے بے حد ضروری ہیں لیکن ان شر
پسندوں کے خلاف عام لوگوں کی کوشش بھی انتہائی اہم ہیں کیونکہ عوام بھی ان
کے کہے میں آکر ایک دوسرے کے خلاف بڑی آسانی سے کفر کے فتوے جاری کرتے رہتے
ہیں اور یوں محلے اور شہروں کی بنیاد پرحالات خراب کردیے جاتے ہیں ۔اس پہلو
پر بھی اگر کام کیا جائے اور ان شر پسندوں کو یکسر مسترد کر دیا جائے تو
پھر کسی دشمن طاقت کو یہ ہمت ہی نہ ہو کہ ہمارے ملک میں اپنی کاروائیاں
جاری رکھ سکے۔دراصل کچھ ایسے حالات حکومت کی طرف سے بھی مہیا کر دیے جاتے
ہیں کہ ان لوگوں کا کام آسان ہو جا تا ہے اس وقت بھی بے روزگار نوجوانوں کی
ایک بہت بڑی کھیپ ان کو میسر ہے جو ذہنی تناؤ کے باعث ان کے لیے ایک
انتہائی آسان ہدف ہیں اور یہ بڑی آسانی سے ان کی خدمات خرید لیتے ہیں اور
خودکش بمبار بنا کر استعمال کر لیتے ہیں۔ اس عفریت کے مقابلے میں حکومت اور
فوج کے ساتھ ساتھ عام آدمی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ایسے لوگوں کے
معاشرے میں موجود چند ہمدردوں کی سوچ کو بھی بدلنا ہوگا۔اسلام امن کا مذہب
ہے اور باہمی احترام کا سبق دیتا ہے اور ہر ایک کو اپنے عقیدے کے ساتھ زندہ
رہنے کا حق بھی لیکن یہ گمراہ لوگ عملاََ اسلام کے ان اصولوں کا انکار کرتے
ہیںیہ کہتے تو خود کو مسلمان ہیں لیکن اسلام کو بد نام کرنے میں جتنا ان کا
ہاتھ ہے اتنا غیر مسلموں کا بھی نہیں کیونکہ اُن کی دشمنی کے بارے میں تو
سب جانتے ہیں اس لیے اُن کا توڑ کرنا آسان ہے لیکن یہ تو اسلام کا نام لے
کر اسلام کو بد نام کرتے ہیں اور اپنے اسلام دشمن آقاؤں کا ایجنڈا پورا
کرکے ان سے ہر قسم کا دنیاوی فائدہ حاصل کرتے ہیں ورنہ سوچنے کی بات یہ ہے
کہ ساری زندگی روپوش رہ کر بغیر کسی روز گار کے یہ زندہ کیسے رہتے ہیں۔ اسی
لیے ہمیں ان حالات کو ختم کرنے کے لیے کئی جہتوں پر کام کرنا ہوگا سب سے
بڑھ کر مذہبی رواداری کو بڑھانا ہو گا اور طاقت اور حکمت دونوں کو کام میں
لاکر دشمن کی چالوں اور دہشت گردی کے اس جن کو قابو کرنا ہوگا۔ |