پولیس کھلی کچہریاں……!ریلیف کا ذریعہ ہیں؟
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
انسان کو سدھارنے کیلئے خود
احتسابی ایک ایسا عمل ہے جو انسانی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اگر انسان
اس عمل سے وقتا فوقتا گزرتا رہے تو بہت سی قباحتیوں سے بچ سکتا ہے۔ انسان
کی بہت سی ایسی خامیاں ،کوتاہیاں جو صرف یا تو وہ خود جانتا ہے یا پھر اﷲ
تعالی اس کا جاننے والا ہوتا ہے اسی عمل سے انہیں ختم کرنے یا کم کرنے میں
مدد ملتی ہے کیونکہ انسان کا ضمیر کسی بھی غلط فعل سے ایک مرتبہ دستک ضرور
دیتا ہے اس کے بعد اپنے آپ کو احتساب اور جوابدہی کیلئے دوسروں کے سامنے
پیش کرتا ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہے اپنی
کوتاہیوں اور غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے
اور سوچ اور سمجھ لینی چاہئے کہ تاریخ کے خلاف کبھی جنگ نہیں کی جاسکتی اور
اگر کوئی کرتا ہے تو اسے شرم ناک ترین شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تاریخ
بالخصوص اسلامی تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ ہمارے نبی
آخرالزمان حضرت محمد مصطفی ؐ سے لیکر صحابہؓ تک، تابعی سے لیکر ولی اﷲؒاور
حکمرانوں تک سب نے اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کیا۔طاقت ،اقتدار، حکومت و
اختیار میں رہتے ہوئے بھی ان شخصیات نے کبھی بھی اپنے آپ کو احتساب سے مبرا
نہیں سمجھا۔ اپنی اصلاح اور عوام کی فلاح کیلئے دربار(کورٹس)لگائے تاکہ ہر
شخص بلاامتیاز اپنی بات اور مدعا بیان کرسکے۔ ان کچہریوں میں دراصل حکمران
اپنے آپ کواور اداروں کوعوام کی عدالت میں پیش کرتے ہیں جو کہ بڑے حوصلے
اور دل گردے کاکام ہے۔اسی سلسلے کی ایک کڑی خادم اعلی پنجاب شہباز شریف نے
کھلی کچہریوں بالخصوص پولیس کھلی کچہریوں کا انعقاد تھا جس کا مقصدعوام کی
دہلیز پر انصاف پہنچانا تھا۔ کچھ عرصہ تک یہ کھلی کچہریاں لگتی رہیں اور
کسی نہ کسی سطح پر غریب عوام کی داد رسی ہوتی رہی۔اب طویل عرصہ سے یہ سلسلہ
بندہو چکا ہے۔
آر پی او ملتان طارق مسعود نے اس سلسلے میں ہدایات بھی جاری کی تھیں جس میں
ڈی پی او ہر ماہ میں ایک کھلی کچہری منعقد کریگا جبکہ ڈی ایس پی رینک کے
افسران ہر ہفتہ میں ایک کھلی کچہری کا انعقاد کریگا لیکن تاحال اس پر کہیں
بھی عمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔آر یو جے ملتان ڈویژن کی میٹنگ میں سائل کو
ریلیف دینے کے حوالے سے آر پی او ملتان نے ایک واقعہ کوڈ کیا جس میں انہوں
نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے مظلوم کی داد رسی کی یہ ان کا نہایت ہی احسن
اقدام ہے اور کھلی کچہری بھی اس قسم کے ریلیف اور مدد فراہم کرنے میں نہایت
ہی مددگار اورمعاون ثابت ہوتی ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی جگہوں پر کھلی
کچہری خود ساختہ اور پلانٹڈ ہوتی ہیں اور کہیں پر شکایات کے انبار کا پلندہ
اور بدمزگی کا باعث بھی بنتی ہیں جس کا تازہ ترین مثال آئی جی پنجاب کا
ملتان میں پولیس دربار تھا جس میں کچھ صحافی دوستوں نے بلامقصد اور لاحاصل
سوال و جواب اور گفتگو کی اس سے اجتناب برتنا چاہئے ، صحافی کا مقصد مسائل
کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حل کی کوشش بھی ہونا چاہئے تاکہ صحافت کا
حقیقی حق ادا کیا جاسکے۔
جنوبی پنجاب بالعموم اور ضلع لودہراں میں بالخصوص پولیس کی کھلی کچہریاں
قصہ پارینہ ہوچکی ہیں۔ضلعی اور تحصیل افسران کو اس میں دلچسپی نہیں ہے
یاپھر وہ خود کو عوام کے سامنے احتساب کیلئے پیش کرنے سے خوفزدہ ہیں۔اس
حوالے سے ٹرانسفر ہوجانے والے ڈی پی او لودھراں سے کچھ شکایات اور شکوے تھے
جو کہ میں نے اپنے کالم میں لکھے ہوئے تھے اب چونکہ ان کا تبادلہ ہوگیا ہے
لہذا اب منابت نہیں کہ جانے والے کی برائی کی جائے اس لئے وہ لائنز حذف
کررہا ہوں۔اور نئے آنے والے ڈی پی او اسد سرفراز سے امید کرتے ہیں کہ وہ
پولیس کلچر کو تبدیل کرنے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے ۔بہرحال
سائل اور مظلوم عوام کی دادرسی کیلئے کوئی اوپن ریلیف فورم نہیں ہے کہ وہ
لوگ جن کو افسران بالا اور ’’صاحب‘‘ تک رسائی حاصل نہیں ہوسکتی انہیں بلا
روک ٹوک اپنا مسئلہ بیان کرنے کی آزادی مل سکے۔کیونکہ اول تو غریب لوگ
وسائل اور آگاہی نہ ہونے کی بنا پر اپنے مسائل اور ہونے والی زیادتی پر لب
سی لیتے ہیں کہ اس ملک میں انصاف کا ملنا ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے کیونکہ
پسینے سے شرابورجسم اور بدبودار کپڑے والے کو ’’صاحب‘‘کے آفس تک جانے کی
اجازت ہی نہیں ہوتی۔جبکہ پرفیوم لگائے معطر کلف لگے مجرم کو سیلیوٹ کے ساتھ
ساتھ کرسی بھی پیش کی جاتی ہے۔کوئی سرپھرا مظلوم اتمام حجت کیلئے کسی
’’صاحب‘‘ سے ملنے جا دھمکتا ہے تو باہر موجود اہلکار اسے صاحب سے ملنے سے
پہلے ہی کیچ کرلیتا ہے اور زندگی بھرپھر اسے صاحب سے ملنے کا یارا نہیں
رہتا۔یہ سب محکموں کا روٹین ورک ہے کیونکہ خود کو دوسروں کے سامنے پیش کرنا
اور جواب دہ ہونا بڑے دل گردے کاکام ہے۔پولیس کے افسران جن میں ایس ایچ اوز
،تفتیشی افسران کی خواہش ہوتی ہے کہ لے دے کے حل ہوجائے ’’صاحب‘‘کوبھنک بھی
نہ پڑے اور ہماری دال روٹی کا انتظام بھی ہوجائے۔
اگر کھلی کچہریوں کا انعقاد وقتا فوقتا ہوتا رہے تو تمام مسائل نہ سہی کچھ
نہ کچھ تو ’’صاحب‘‘کی ٹیبل تک پہنچ ہی جائیں گے اور اس کے حل کاکچھ نہ کچھ
وسیلہ بھی بن جائے گا کھلی کچہریوں کی ضرورت و افادیت کے حوالے سے چند
گزارشات گوش گزار کرتا ہوں۔ ٭کھلی کچہریاں خود احتسابی کا سب سے بڑا ذریعہ
ہیں۔٭مظلوم اورسائل کو ارباب اختیار( ڈی سی او اور ڈی پی او) تک آسان رسائی
دیتی ہیں۔٭ان کچہریوں کی مدد سے سائل اپنی آواز ایوان بالا تک پہنچاسکتا
ہے۔ ٭کھلی کچہری سے کسی حدتک مظلوم کی داد رسی ہوسکتی ہے۔٭کھلی کچہری فرعون
بنے افسران کے کرتوت کو منظر عام پر لانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔٭کھلی
کچہری میں عوام اور افسران کے سامنے’’ننگا‘‘ ہونے کا خوف بھی گردن کا سریہ
توڑدیتا ہے۔٭کھلی کچہریاں عوام کو انصاف کی فراہمی کا پہلا زینہ ثابت ہوتی
ہیں۔٭کرپشن اور رشوت کو کم کرنے میں کھلی کچہری اہم سنگ میل ہوتی ہے۔٭کھلی
کچہری سے مظلوم اور سائل دھکے کھانے سے بچ جاتا ہے۔ ٭ٹاؤٹ مافیا کا خاتمہ
ہوتا ہے۔٭مڈل مین کا کردار پیس منظر میں چلاجاتا ہے۔ لہذا کھلی کچہریاں ڈی
پی اوز ،ڈی سی اوز اسسٹنٹ کمشنرز اور ڈی ایس پیز لیول تک لازمی طور پر
منعقد کی جانی چاہئیں تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے جبکہ افسران اور اداروں کا
احتساب ہوسکے۔ |
|