خوف خدا مومن کی پہچان ہے
(Advocate Rana Shahzad, Lahore Cantt)
پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو
جانے ولاے ہی مومن کہلاتے ہیں ۔ تاریخ کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ
انبیاء اور رسولوں کے بعد جب کچھ عرصہ گزر جاتا تو بگاڑ کا شکار ہوجاتے
تھے۔ وہ اپنے اصل دین پر قائم نہیں رہتے تھے ۔ بلکہ اس کے حصے بخرے کر لیتے
تھے۔ جیسے ہمارے ہاں ہر مسلک دین کے حصے کر کے اپنے اپنے حصے پر نازاں ہے
کہ اصل دین وہی ہے جو اُن کے ہی پاس ہے۔ ان حالات میں دیکھنا چاہئے کہ اصل
دین کا تقاضا کیا ہے۔ ہمارے دین میں حقوق اللہ ہے، نماز ، روزا اور بندگی
کے مختلف انداز ہیں ، اس کے ساتھ حقوق العباد ہے ، یہ ایک پورا پیکج ہے۔ جب
حصے ہوتے ہیں تو ایک گروہ یا فرقہ ایک حصے کو سنبھال لیتا ہے تو دوسرا
دوسرے کو کوئی کہتا ہے کہ اخلاقی تعلیمات اہم ہے، نماز روزے کی اتنی اہمیت
نہیں، کوئی کہتا ہے نماز، روزہ ہی اصل ہے اور باقی چیزیں یکسر نظر انداز ہو
رہی ہیں۔ جبکہ قرآن مجید تو مکمل پیکج کی بات کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ مومن
کا کردار کیسا ہونا چاہئے۔ ہر شخص کا یہ خیال ہے کہ وہ اصل دین پر قائم ہیں
لیکن سچے اہل ایمان جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید حاصل ہے وہ ہے جو
اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں۔ رب کے رحمان اور رحیم ہونے کا بھی پختہ یقین
رکھتے ہیں۔ لیکن اس کا بھی اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں ان کے کسی غلط طرز عمل
سے رب ناراض نہ ہوجائے اور ان کا یہی خوف، تقویٰ کی بنیاد ہے۔ بندہ مومن ہر
وقت اللہ کا خوف ، اللہ کا ڈر ، اس چیز کا احساس کہ کہیں اس سے کوئی ایسی
کوتاہی نہ ہوجائے کہ رب ناراض ہو جائے اور جو کچھ وہ کر رہا ہے۔ یہ اپنی
بساط کے مطابق کر رہا ہے اور اس سے کوئی کمی رہ سکتی ہے، بس رب قبول کر
لیں، یہ نہیں کہ اس نے بہت تیر مارا ہے۔ مومن ہر وقت ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں
شیطان اس کو بہکا نہ دے۔
خود کو بے خوف اور امن میں صرف وہ شخص سمجھتا ہے جو خود منافق ہو اور جو ہر
وقت ڈرتا اور کانپتا رہتا ہے کہ کہیں اس کے ایمان کا نقصان نہ ہوجائے، وہی
سچا مومن ہے ۔ اس کے بارے میں کوئی شخص کسی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں
کرسکتا بلکہ خود اپنے اندر جھانک کر دیکھے۔ اگر یہ کیفیت ہے تو تھیک ورنہ
اسے تشویش ہونی چاہئے۔ یہ سوچ ہی بندہ مومن کی بڑی نشانی ہے جو وہ اپنے
اندر محسوس کر سکتا ہے۔
مومن ایمان حاصل ہونے کے بعد شرک نہیں کرتا۔ سب سے بڑی قوت اللہ ہے اور وہ
اس کے وفادار ہیں جنانچہ ان کا توکل اور بھروسہ اللہ کی ذات پر ہے، مادی
اسباب اور سائل پر نہیں۔
اللہ کے مقابلے میں کسی دوسرے کی اطاعت شرک ہے۔ والدین بھی اللہ کے حکم کے
خلاف حکم دیں تو والدین کا ادب واحترام اپنی جگہ لیکن اطاعت اللہ کی ہوگی ۔
ایک حکم اللہ کا ہے اور ایک حاکم وقت کا ہے۔ حاکم وقت اللہ کے حکم کے خلاف
حکم دے تو یہی امتحان ہے کہ اطاعت صرف ایک اللہ کی ہو۔ معاملہ اس کے برعکس
ہو تو یہ شرک ہے ۔ جب اللہ کو مان لیا تو وہ پوری کائنات کا خالق و مالک ہے
جوالحیے القیوم ہے ۔ باقی سب اس کی مخلوقات ہے۔ ان کے پاس جو قوت و صلاحیت
ہے وہ اللہ کی عطا کردہ ہے ان کی ذاتی نہیں۔ لہذا توکل اللہ پر کرنا ہے،
صرف اسی کا حکم مانیں گے۔
مومنین کے کردا کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ،
اللہ کی راہ میں کرچ کرنے سے مراد ہے کہ غریبوں کو دیتے ہیں ، یہ بھی اللہ
کو پسند ہے اکہ آپ اپنے بھائیوں اور غریب رشتہ داروں کی مدد کر رہے ہیں ۔
ضرورت مندوں اور حاجت مندوں سے تعاون کرتے ہیں۔ اس کام میں مال بھی لگا رہے
ہیں اور جسم وجان کی توانائیاں بھی لگا رہے ہیں۔ اور اس سب کے بعد ان کے دل
کانپ رہے ہوتے ہیں۔ اس خیال سے کہ انہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ
دنیا دار الامتحان ہے۔ یہاں جو ہورہاہے سب ریکارڈ ہو رہا ہے اور ایک دن
اللہ کے ہاں جا کر مجھے ایک ایک شے کا حساب دینا ہے۔ یہ تو سب کو معلوم ہے
کہ یہاں سے جانا ہے ، کافر، دہریہ ملحد سب جانتے ہیں کہ اللہ کے ہاں جار
پیشی ہونی ہے۔ اور جا کر ہر عمل کا حساب دینا ہے ۔ یہ تو آج اکثر مسلمانوں
کو بھی یاد نہیں جو سچے صاحب ایمان ہے انہیں ہر وقت آخرت کا خیال دامن گیر
رہتا ہے۔ جس رب نے ہمیں پیدا کیا ، اسی نے بتا دیا کہ یہ دنیا عارضی ہے۔ یہ
امتحانی وقفہ ہے اور اصل زندگی دہ وہے ۔ یہاں جو کچھ دیا گیا وہ بھی امتحان
کے لئے دیا گیا ہے۔ یہ ایمان کی نشانی ہے۔ اگر یہ کیفیت نہیں ہے تو اپنے
ایمان کو بڑھانا ہوگا۔ آج مقابلے کا میدان صرف دنیا ہی ہیں۔ ہمارا معیار یہ
ہے کہ پہلے کہاں تھے اور اب کہاں کھڑے ہیں ، ساری فکر اور بھاگ دوڑ ہیں تو
اسی دنیا کے لئے ، مقابلہ ہے تو اسی دنیا کے میدان میں ہے۔ اہل ایمان کا
مقابلہ نیکی اور خیر کے کام میں ہوتا ہے۔ نیکی اور خیر کے کاموں میں وہ اس
لئے سبقت کرتے ہیں۔ تاکہ رب کی رحمت زیادہ سے زیادہ اُن کے ساتھ ہو، آخرت
میں زیادہ سے زیادہ انعامات اور اللہ کا فضل حاصل کر سکیں۔ سچے اہل ایمان
کو معلوم ہے کہ ان کا اصل مستقبل وہ ہے ، ہمارا گھر وہ ہے ، منزل وہ ہے
یہاں ہم عارضی طور پر بھیجے گئے ہیں۔ یہ اصل گھر نہیں ۔ لہذا جو کرنا ہے
وہاں کے لئے کرنا ہے جب حقیقی ایمان ہو گا تو رخ لازماً بدلے گا۔ |
|