فخر ہندوستان! تجھے سلام

’’ خواب وہ نہیں ہیں جو ہم سوئی ہوئی حالت میں دیکھتے ہیں بلکہ خواب وہ ہیں جنہیں پورا کیے بغیر آپ سوتے نہیں ‘‘

اس طرح کے دسیوں بیش قیمت نصیت آمیزکلمات کے ذریعہ نوجوانوں کو آگے بڑھانے اور کامیابی و کامرانی کی منزلوں سے دورچاکرنے کے لئے عظیم نسخہ بتانے والے ڈاکٹر ابوالفاخر زین العابدین عبد الکلام اپنی زندگی کی84بہاریں دیکھ کر اس درافانی سے دارالبقاکی طرف 27 جولائی کو کوچ کرچکے ہیں ۔
وہ ایک نرم دل ، امن پسند دوراندیش ،مفکر ،سعی مسلسل کے پیکر، عظیم سائنسداں ، ملک کے گیارہویں صدرجمہوریہ، میزائل مین اور بھارت رتن تھے ۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو درخشاں اور کہکشاں ہے ۔مذہب و مسلک کی تفریق کے بغیر ہر دل عزیز شخص تھے ۔ ہندو مسلم ، سکھ عیسائی ہر ایک کے نزدیک وہ قابل قدر اور مسلم تھے ۔ انہوں نے اپنے طرزعمل سے کبھی کسی کو شکایت کا کوئی موقع نہیں دیا۔ان کی وفات ہندوستان کا عظیم خسارہ اوردنیائے سائنس کا بے پناہ نقصان ہے ۔ ان کی خدمات کے پس منظر میں یہ کہنا بجا ہو گا کہ ان کے علم و کمال کے سبب ہندوستان کو شہرت اور بلندی ملی ہے ۔ انہوں نے ملک سے شہرت و ناموری لینے کے بجائے اسے دینے کی کوشش کی ۔ میزائل اور ایٹمی ہتھیاری کی فراہمی کرکے پوری دنیا میں ہندوستان کا نام فخرسے بلند کیا ۔ڈاکٹر عبد الکلام علم کے بے پناہ شیدائی اور اس کے حصول میں جدو جہد کرنے کے لئے سب سے زیادہ مشہور رہے ہیں ۔ مشقتیں اٹھاکر پریشانیاں جھیل کر حصول علم کی جو کہانیاں کتابوں میں پڑھنے کو ملتی ہے ان کے ساتھ رہنے والوں نے یہ چیزیں ان کی زندگی میں مشاہدہ کی ہیں ۔ انہوں نے ہمیشہ کہاکہ کامیابی کا سب سے پہلے زینہ علم اور جدو جہد ہے ۔انسان کی سب سے پہلی کامیابی اس کی ناکامی ہے ۔وہ علامہ اقبال کے اس نظریہ سے مکمل طور پر ہم آہنگ تھے کہ’’ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ‘‘۔ان کی زبان سے نکلنے والی ہر بات اقوال زریں کی فہرست میں شامل ہوتی تھی۔ملک کی ترقی کے تئیں وہ ہمیشہ فکر مند رہے ۔ غریبوں سے ہمدردی ،طالبان علوم سے محبت وابستگی اور عوام سے ملنا جلنا ان کی زندگی کی خاص شناخت بن گئی تھی۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ان کی موت کا گواہ بھی ایک ایساپروگرام بنا جہاں آئی آئی ٹی کے طلبہ سے خطا ب کرتے ہوئے زندگی میں اوج ثریاتک رسائی حاصل کرنے کا ہنر سکھا رہے تھے۔ ان کی یہی وہ خصوصیات ہیں جن کے سبب پورے ملک نے انہیں نم آنکھوں کے ساتھ سلامی پیش کی ہے ۔

ہرکوئی ان کی وفات پر غمزدہ اور رنجیدہ ہے ۔ارباب اقتدار، دنیائے صحافت ، سماجی کارکنان سمیت ہرایک عام و خاص ایک نئی شان و بان اور متحرک و فعال ہوکر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
جان کر من جملہ خاصان و میخانہ مجھے
مدتوں رویاکریں گے جام و پیمانہ مجھے

بابائے میزائل تمل ناڈو کے علاقے رامیشورم میں 15 نومبر 1931 میں ایک متوسط مسلم فیملی میں پیداہوئے ۔ ان کے والد کشتیاں کرایے پر دیتے تھے ۔انہوں نے خود تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود عبد الکلام کی تعلیم و تربیت پوری توجہ دی ۔شاید ان کے ذہن میں بھی یہی بات تھی کہ تعلیم انسانیت کا سب سے خوبصورت لبا س اور کامیابی کا ذریعہ ہے۔اے پی جے عبد الکلام نے بے پناہ مشقتوں ور دشواریوں سے مقابلہ کرکے اپنا تعلیمی سفر مکمل کیا ہے ۔شروع میں اسکول کی فیس ادا کرنے کے لئے انہوں نے نے علاقے میں اخبار فروشی کا پیشہ بھی اختیا ر کیا ۔لیکن ان مشکلات اور غربت کے باوجود اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع نہیں کیا ۔ حصول علم کی بعد انہوں نے ہندوستان کے خلائی تحقیقاتی ادارے کرافٹ سے وابستگی اختیار کرکے ہندوستان کو ایٹمی طاقت فراہم کی ۔ہندوستان کومیزائل اور جوہری ہتھیار فراہم کرنے کے صلے میں انہیں بابائے میزائل کا لقب دیا گیااور 1997 میں ملک سے سب سے بڑے اعزاز بھارت رتن سے نواز ا گیا ۔ان کی بے لوث جدوجہد کے سبب ہی 1998 میں ہندوستان نے ایٹمی طاقت ہونے کا شرف حاصل کیا۔2002 میں وہ ہندوستان کے گیارہویں صدر جمہوریہ بنا ئے گئے ۔ہندوستان کے صدرجمہوریہ کے بارے میں یہ سمجھاتا ہے کہ وہ ربڑ اسٹامپ ہوتا ہے ۔ ان کے پاس کسی طرح کا کوئی اختیا رنہیں ہوتا ۔صدرجمہوریہ کا کام صرف بیرون ممالک کا دورہ کرنا اور حکومت کی پالیسوں کے مطابق چلنا ہوتا ہے ؛لیکن عبد الکلام نے اپنی مدت صدارت میں یہ باورکرایا کا صدرجمہوریہ ربڑ اسٹامپ نہیں بلکہ ملک کا سب سے بااختیار شخص ہوتا ہے ۔ چناں چہ انہوں نے اپنے دور صدارت میں کئی بل پر دستخط نہیں کیا ۔ بی جے پی کے دور حکومت میں اٹل بہاری واجپئی کے منع کرنے کے باوجود گجرات کا دورہ کرکے کیمپوں میں پناہ گزیں مسلمانوں کا جائزہ لیا ۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے فیس بک ٹائم لائن پر بجا لکھا ہے کہ’’ کانگریس نے عبد الکلام کو دوسری مرتبہ صدر منتخب کرنے کے بجائے پرتھبا پاٹل کو اس عہدہ پر لاکر رکھ دیا جنہوں نے ربراسٹامپ ہونے کا پورا ثبوت دیا ۔عبد الکلام کو دوبارہ موقع نہ دینے کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے کئی بل واپس کردیئے تھے اور بااختیار بن کر رہنے کے عادی تھے‘‘۔

اے پی جے عبد الکلام کی زندگی پر کچھ تنگ نظر لوگوں کا اعتراض ہے کہ وہ صحیح العقیدہ مسلمان نہیں تھے لیکن حقیقت کے خلاف ہے ۔ میری معلومات کے مطابق وہ ایک صحیح العقیدہ مسلمان اور نماز کے پابند تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو مسلمان لکھا اور کہا ۔ہمارے ایک ساتھی عبد الحی کھگڑیاوی نے جن پتھ کے علاقے میں ایک مسجد میں تین قبل تروایح سنائی تھی ۔ مسجد کے پاس میں ہی صدر جمہوریہ عبد الکلام اور احمد پٹیل اور دیگر کئی لیڈروں کی رہائش تھی ۔ عبد الحی کے بقول احمد پٹیل اور صدر جمہوریہ دونوں نماز تراویح پڑھتے تھے۔ ختم تراویح کے دن صدرجمہوریہ نے مصافحہ کرکے ہدیہ بھی دیا ۔وہ بچپن سے نماز کے پابند رہے ہیں ۔ اپنی سوانح حیات میں بھی انہوں نے لکھا ہے کہ میری والدہ مجھے صبح پانچ بجے سے قبل ہی جگاکر غسل کرایا کرتی تھی جس کے بعد صبح کی نماز پڑھٹے تھے اور مکتب میں جاکر قرآن شریف سیکھتے تھے ۔ 2003میں جامعہ رحمانی مونگیر میں تشریف آوری کے موقع پر انہوں نے سورہ فاتحہ کی تلاوت و تفسیر کی اور کہاکہ سائنس کا علم میں نے قرآن سے سیکھا ہے ۔ اس مقدس کتاب نے میری زندگی میں عظیم انقلاب برپاکیا ہے ۔

اخبار بیچ کر زیور علوم آراستہ ہونے والے سابق صدرجمہوریہ کا یہ سفربتاتا ہے کہ انہیں یہ بے مثال شہرت عزت اور فضل و کمال کسی سے وراثت میں نہیں ملی تھی بلکہ یہ اپنی محنت ا ور لگن سے ملی تھی ۔ان کی زندگی عربی کی مشہورت کہاوت’’ من جد وجد‘‘ یعنی جس نے کوشش کی اس نے پایا کی عملی تصویر اور ہمارے لئے ایک زندہ جاوید مثال ہے۔ ان کی زندگی ہمارے حوصلوں کو مہمیز کرتی ہے اور یہ سبق ملتا ہے کہ اگر انسان چاہے تو وہ ناممکنات کو ممکنات میں تبدیل کرسکتا ہے ۔ان مسلمانوں کے لئے یہ پیغام ہے جومختلف مواقع پر تعصب کا بہانہ کر نکل جاتے ہیں کہ ہمیں مسلمان ہونے کی وجہ محروم رکھا گیا ۔ آخر عبد الکلام بھی مسلمان تھے جن کی صلاحیتوں کے سامنے ہر ایک نے گھٹنے ٹیک دیئے ۔

عبد الکلام نوجوانوں کے سب سے مقبول لیڈر اور نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ انہوں نے دسیوں قیمتی باتیں ہماری اصلاح اور رہنمائی کے لئے چھوڑیں ہیں جو رہتی دنیا تک انہیں زندہ رکھے گی اور آنے والے والوں کو صحیح سمت فراہم کرے گی ۔
مت سہل انہیں جانوں پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 180660 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More