موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
موت ایک اٹل حقیقت ہے ۔ اس سے کسی کو رستگاری نہیں ہے ۔ موت ہی دنیا کی ایک
شی ہے جس پر دنیا کے کسی بھی شخص کو کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ ہرکسی کو اپنی
موت کا مکمل یقین ہے ۔ لیکن ان سب کے باوجود کچھ موت ایسی ہوتی ہیں جو اپنے
ساتھ ساری دنیا کو ہلاکر رکھ دیتی ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ خود اپنی موت
آگئی ہے۔وہ موت ایک عظیم خسارہ ثابت ہوتی ہے ۔ پورا عالم سوگوار ہوجاتا ہے
۔ چرند وپرند اور شجر و حجر پر غمی اور افسردگی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں ۔
بھارت اے پی جے عبد الکلام سابق صدر جمہوریہ ہند انہیں شخصیتوں میں شامل ہے
جن کی موت پر پوری دنیا ماتم کررہی ہے ۔ ان کے انتقال پر ملک آنسو بہار ہا
ہے ۔ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ دنیا بھر کے قدر آور لیڈروں نے ان
کی وفات پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہا کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ صرف
ہندوستان نہیں بلکہ دنیا بھر میں مقبول تھے اور ان کی صلاحیت اور عظمت کا
اعتراف دنیا کے ہر شخص کو تھا۔اسی کو کسی اردو کے شاعر نے کہاہے کہ
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو سبھی آئے ہیں دنیا میں مرنے کے لئے
اے پی جے عبد الکلام کو میں کبھی فراموش نہیں کر پاؤں گی ۔ ان کے دکھلائے
ہوئے راستے کبھی بھی میرے ذہن و دماغ سے مسخ نہیں ہوں گے ۔ ان کے گئے عظیم
کارنامے تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے۔ان کی شخصیت اور
عظمت مختلف پہلو ہیں۔ ہر ایک پہلو قابل رشک اور قابل تقلید ہے لیکن مجھے جو
سب سے زیادہ بھاتا ہے اور میں جسے سب سے زیادہ پسند کرتی ہوں وہ یہ کہ
انہوں نے غربت سے اپنی زندگی کا سفرکیا اور صدرجمہوریہ تک پہچنے کا اعزاز
حاصل کرلیا ۔ ہندوستان میں اس سے آگے کوئی مقام نہیں ہے ورنہ میں سمجھتی
ہیں کہ وہ وہاں بھی پہچ جاتے ۔ ان کی زندگی کے ابتدائی ایام میرے لئے سب سے
زیادہ اہم اور سبق آمیز ہیں کہ انہوں نے اخبار فروشی کے ذریعہ اپنی تعلیم
مکمل کی ۔ اہل خانہ اور والد کے پاس اسباب نہ ہونے کی وجہ انہوں نے حصول
تعلیم کا دروازہ بندکرنے کے بجائے پارٹ ٹائم جاب تلاش کرکے زیور تعلیم سے
اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کیا ۔ دینی تعلیم کے حصول کے ساتھ سائنس اور
ٹیکنا لوجی کے میدان میں کمال حاصل کیا ۔ اور اپنے سائنسی علوم کے ذریعہ
ہندوستان کو دنیا کی ایٹمی طاقتوں کی صف میں لاکھڑا کردیا ۔
اے پی جے عبد الکلام کا ہندوستان پر یہ سب سے بڑا احسان ہے ۔ آج دنیا کے
ہرملک کی خواہش ہے کہ وہ ایٹمی طاقت حاصل کرے ۔ جوہر ی ہتھیار سے ما لا مال
ہوجائے ۔عالمی طاقتوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہوجائے ۔ اپنے اوپرکسی کو انگلی
اٹھانے کا موقع نہ دے کسی کا محتاج نہ رہے۔ یہ خواب ہندوستان نے بھی شروع
سے دیکھا تھا جسے عبد الکلام نے 1998 میں شرمندہ تعبیر کردیا اور اس طرح
انہوں نے بابائے میزائل ہونے کا شرف اپنے نام حاصل کرلیا ۔
عبد الکلام کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہچی ہوں کہ وہ
ہرمیدان کے لئے مشعل راہ ہیں ۔سیاست میں انہوں نے کبھی دل چسپی نہیں لی
لیکن جب صدرجمہوریہ بنے تو اپنانام ہندوستان کے سے قابل اور کامیاب
صدرجمہوریہ کی لسٹ میں شامل کرلیا ۔ انہیں ملک کا نہیں بلکہ عوام کا
صدرجمہوریہ ہونے کا اعزاز ملا ۔ دیگر لوگوں کی طرح ربڑ اسٹامپ ہونے کے
بجائے انہوں بااختیار صدر ہونے کا ثبوت پیش کیا اور اس پوسٹ پر آئندہ آنے
والوں کو ایک زریں پیغام دیا کہ اس پوسٹ کیا تقاضا ہے ۔ا س کے کیا مطالبات
ہیں ۔ عوام سے کیا برتاؤ رکھنا چاہئے ۔
ڈاکٹر عبد الکلام ایک بہت بڑے سماجی کارکن بھی تھے ۔ انہیں سماجیات کے
مسائل حل کرنے میں بڑی دل چسپی تھی ۔ وہ غریبوں سے ہمدرردی رکھتے تھے چناں
چہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے راشٹرپتی بھون کی طرف سے افطار پارٹی
کا اہتمام کرانے کے بجائے وہ ساری رقم یتیم خانوں کو بھجوادی تاکہ غریب
یتیم لوگوں کا فائدہ ہوجائے ۔ اتناہی نہیں انہوں نے اس میں ایک لاکھ روپے
اپنی جیب خاص سے بھی دیا اور پرسنل سکریٹری کو متنبہ کردیا کہ اس بات کا
علم کسی کو بھی نہیں ہونا چاہئے ۔اس طرح کے دسیوں واقعات ہیں ابو الکلام کی
زندگی میں جس سے پتہ چلتا ہے کہ مخلص انسان تھے ۔ انسانیت کی ہمدردی ان کے
رگ وپے میں سمائی ہوئی تھی۔وہ ہمیشہ یہی چاہتے تھے کہ ملک اور سماج کی ترقی
ہو ۔ انسانیت کا بھلا ہو۔ غریبوں کا بھلا ہو ۔
ڈاکٹر عبدالکلام کا احسان ملک کے ساتھ آگے آنے والی پوری جنریشن پر ہے ۔
انہوں پوری آنے والی نسل کو اپنی تحریر سے تقریر سے اور طرز عمل سے یہ
پیغام دیا ہے کہ ہر چیز کا دارو مدارجد وجہد اور کوشش پر ہے ۔ انسان کی
پہلی کامیابی اس کی کوشش کی ناکامی ہے ۔ تعلیم کا حصول انتہائی ضروری ہے ۔
انسان کے سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہو اور حصول تعلیم کا
جذبہ ہمیشہ اس کے اندر موجزن ہو۔اپنی مشکل بھری زندگی سے انہوں نے عملی طور
پر یہ پیغام دیا ہے کہ حصول تعلیم کے لئے گھر کا معاشی طور پر مضبوط
ہونااور والدین کا خود کفیل ہونا کوئی ضروری نہیں ہے بلکہ آپ کے اند ر اگر
شوق ہے ، جذبہ ہے ، تڑپ ہے اور لگن ہے تو آپ کے راستے میں کوئی بھی چیز
حائل نہیں ہوگی ۔ آپ کی لگن راستے میں آنے والوں بریکر وں اور پتھروں کو
خود بخود عبور کرلے گی اور ایک نہ ایک دن آپ منزل مقصود پر پہچ جائیں گے ۔
آپ کے علم سے ملک کا بھلا ہوگا ۔ دنیا آپ کو عزت اور قدر کی نگاہوں سے
دیکھے گی ۔ آپ کو اپنا آئیڈیل اور مشعل راہ بنائے گی ۔ اے پی جے عبد الکلام
نے اپنی پوری زندگی اسی پیغام کو عام کرنے میں بسر کی ۔انہوں نے اپنے آپ کو
ٹیچر کہلوانا پسند کیا اور حسن اتفاق کہ جب ان کی موت ہوئی تھی اس وقت بھی
وہ آئی آئی ایم کے طلبہ سے علمی باتیں کررہے تھے ۔ زندگی میں کامیابی کا
سفر طے طرنے کا ہنر انہیں سکھلارہے تھے ۔ میر ے مطالعہ کے مطابق عبد الکلام
سر تقریبا 35 یونیورسیٹوں کے وزیٹنگ پروفیسر تھے ۔بے شمار یونیورسیٹوں نے
انہیں ڈاکٹر یٹ کی سرٹیفیکٹ دی تھی۔ہر ادارہ کی خواہش ہوتھی کہ ہم انہیں
اپنے پروگرام میں مدعو کریں ۔
عبد الکلام کی زندگی کے زندگی کئی ایک پہلوہیں اور سبھی قابل تقلید ہیں
لیکن مجھے جو سب سے زیادہ بھاتا ہے وہ یہ کہ محروم علم کے بے پناہ شیدائی
تھے۔حصول علم کو سب سے زیادہ فوکس کرتے تھے۔ اسٹوڈینٹس سے محبت کرتے تھے،
ان کی رہنمائی کرتھے اور ان کے لئے آگے کی راہیں تجویز کرتھے ۔ ڈاکٹر عبد
الکلام کے دسیوں جملے ایسے ہیں جو ہماری زندگی میں انقلاب بر پاکرسکتے ہیں
۔ ہماری رہنمائی فرماسکتے ہیں ۔ مجھے بہت خواہش تھی اس عظیم شخصیت سے
ملاقات کرنے کی لیکن افسوس کہ مجھے ایسا کوئی موقع نہیں مل سکا۔ کافی کوشش
کے باوجود ہمارے کالج میں ان کا پروگرام نہیں مل سکا لیکن ان زندگی اور ان
کی کتابیں میرے لئے اب سب سے بڑا سرمایہ ہے ۔ وہ ہمیشہ یاد آئیں گے ۔ ان کی
خدمات یاد آئیں گی ۔ اور یقینی طور پر میں انہیں مس کروں گی۔
ہندوستان کے اس عظیم سپوت کو میں عظمت بھرا سلام کرتی ہوں اور بارگاہ ایزدی
میں دعا گو ہوں کہ اے خدا پھر کوئی کلام پید اکر جو ملک کے لئے بھی سرمایہ
فخر بنے اور مسلمانوں کا نام بھی آسمان کی بلندیوں پر لے جائے اور دنیا کو
پتہ چل سکے ہندوستان کو بلندیوں پر لے جانے والے کل بھی مسلمان تھے اور آج
بھی مسلمان ہیں ۔
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورا پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے |