حلال اتھارٹی کا مجوزہ قیام اور نفسیاتی ٹیسٹ

قومی اخبارات میں خبرہے کہ حکومت کو۶۸ سال بعدحلال حرام کی تمیزکابالآخرخیال آہی گیا۔حلال اٹھارٹی بل تیارکرلیاگیا۔حرام اشیاء کی فروخت پرایک سال قیددس لاکھ تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔مسودہ قائمہ کمیٹی کے پاس ہے جس کی منظوری کے بعدمسودہ قومی اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا۔بل کی تیاری اورمنظوری کے بعدپاکستان بھرمیں بیرون ملک سے آنے والی سینکڑوں کھانے پینے کی اشیاء حرام قراردی جاسکتی ہیں۔اتھارٹی سولہ رکنی بورڈآف گورنرزپرمشتمل ہوگی۔جس کاسربراہ وفاقی وزیربرائے سائنس وٹیکنالوجی ہوگا۔بورڈمیں وزارت مذہبی امورسمیت دیگرمتعلقہ وزارتوں اورصوبائی نمائندے شامل ہوں گے۔اتھارٹی کے معاملات چلانے کے لیے تین رکنی مجلس عاملہ بھی قائم کی جائے گی۔اتھارٹی کاڈائریکٹرجنرل ہی ان کاچیف ایگزیکٹوہوگا۔اتھارٹی درآمدات، برآمدات بارے پالیسیوں، حکمت عملی،منصوبوں اورپروگراموں کوترقی دے گی۔
اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم مسلمان ہیں اوربحیثیت مسلمان ہمارے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم جوچیزبھی کھارہے ہیں،پی رہے ہیں یاپہن رہے ہیں پہلے یہ دیکھیں اورجانچیں کہ یہ حلال بھی ہے یانہیں۔صرف کھانے پینے کی چیزیں ہی حرام نہیں ہوتیں ۔ ان کے علاوہ بھی بہت کچھ حرام ہوتاہے۔

کھانے پینے کی کچھ چیزیں توایسی ہیں جن کے بارے میں اسلامی تعلیمات میں واضح احکامات ہیں کہ یہ حرام ہیں۔ گدھا، کتا، گھوڑا، بلی،وہ حلال جانورجس کوذبح کرتے وقت اﷲ کانام نہ لیاجائے۔وہ حلال جانورجوحلال نہ کیاجاسکے اورمرجائے۔بہت سے پرندے بھی ایسے ہیں جوحرام ہیں۔مردہ جانوروں اورپرندوں کاگوشت کھانابھی حرام ہے۔اب جدیددورہے۔ کھانے پینے کی بہت سی چیزیں اب مارکیٹ میں تیارشدہ ملتی ہیں۔ یہ تیارشدہ اشیائے خوردونوش ملک میں بھی تیارہوتی ہیں اوربیروں ملک سے بھی منگوائی جاتی ہیں۔کسی بھی چیزحلال یاحرام کی حیثیت کودیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اجزائے ترکیبی کودیکھاجائے کہ کون سی چیزکوبنانے کے لیے کیاکیااشیاء استعمال کی گئی ہیں۔اکثرچیزوں کی پیکنگ پران کے اجزائے ترکیبی لکھے ہوئے ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کریہ اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ یہ چیزحلال ہے یاحرام۔بہت سی اشیاء ایسی بھی ہیں جن کے بارے میں عام صارفین کوکوئی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے اجزائے ترکیبی کیاہیں اوران میں کیاکیاچیزیں حلال شامل ہیں اورکیاکیاچیزیں حرام شامل ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق بیرون ملک سے آنے والی کھانے پینے کی اشیاء میں ۶۷ فیصدحرام اشیاء شامل ہوتی ہیں۔ پولیوکے قطروں کے بارے میں بھی عوام میں شکوک وشبہات پائے جاتے رہے ہیں کہ یہ حرام ہیں کیونکہ عوام کومعلوم ہی نہیں تھا کہ ان قطروں کے اجزائے ترکیبی کیاہیں۔علماء کرام نے تحقیقات کے بعد فتویٰ دیا کہ پولیوکے قطرے حلال ہیں۔مردہ اورمردارجانوروں کاگوشت فروخت کرنے اورکھلانے والے کسی رعائت کے مستحق نہیں کہ وہ عوام کوحلال کے نام پرحرام کھلارہے ہیں۔جب سے گدھاکھالوں کاسلسلہ سامنے آیا ہے عوام نے بڑا، چھوٹاگوشت کھاناکم سے کم کردیا ہے۔ہوٹلوں میں عوام سبزی یامرغی کے گوشت کوترجیح دیتے ہیں۔یہ بہت اچھی بات ہے کہ عوام خاص طورپرگوشت کھانے کے معاملہ میں احتیاط کرتے ہیں کہیں وہ حرام گوشت ہی نہ کھابیٹھیں۔شراب، جوا، منشیات حرام ہیں۔ یہ تینوں چیزیں کس تناسب سے استعمال ہورہی ہیں یہ آپ اپنے گردونواح کے حالات کاجائزہ لے کربخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔کتنے ہی لوگ ہیں جوشراب پینے سے مرجاتے ہیں۔بڑی بڑی شراب سے بھری ہوئی گاڑیاں پکڑی گئی ہیں۔اس کے باوجودنہ توشراب کی تیاری کم ہوئی ہے اورنہ ہی اس کوپینے والے۔کتنے ہی لوگ ہیں جوجواکی لعنت میں مبتلا ہیں۔ شراب کے علاوہ دیگرمنشیات بھی حرام ہیں ان کے استعمال کاتناسب بھی اپنے اردگردکے ماحول کاجائزہ لے کراندازہ لگایاجاسکتا ہے۔کس کومعلوم نہیں کہ رشوت لینااوردینادونوں حرام ہیں۔رشوت کہاں کہاں اورکس کس نام سے لی جاتی ہے اس کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں ہمارے قارئین بخوبی جانتے ہیں۔عوام میں یہ بات مشہورہے کہ جب تک رشوت نہ دی جائے کوئی کام ہی نہیں ہوتا۔سرکاری ملازمت مٹھائی دے کرحاصل کرنے کارجحان بڑھتا جارہا ہے۔ ایسی ملازمتیں حاصل کرنے والے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ پچاس ہزار، لاکھ دولاکھ دے کرمستقل روزگاربنالیا ہے۔ایسے عقلمندوں کویہ ادراک ہی نہیں ہوتا کہ وہ اچھی بھلی حلال روزی کومٹھائی کے نام پررشوت دے کرحرام کردیتے ہیں۔جوملازمت رشوت دے کرحاصل کی گئی یاکسی بھی فرم یاکمپنی یاکسی بھی ادارہ کی منظوری رشوت دے کرحاصل کی جائے وہ بھی حرام ہوجاتی ہے اوراس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرم ہوجاتی ہے۔یوں وہ رشوت سے حاصل کردہ ملازمت جتنے سال بھی کرتے ہیں اتناعرصہ وہ لاشعوری میں بیوی بچوں کوحرام کھلاتے رہتے ہیں۔جس لاکھ روپے کی رشوت دے کروہ ملازمت حاصل کرتے ہیں۔ اس لاکھ روپے سے وہ اگرکوئی کاروبارکرلیں اوررزق حلال کمائیں توکیاہی اچھاہو۔کاروبارکرنے والے بھی جھوٹ، جھوٹی قسمیں کھاکررزق حلال کوحرام کردیتے ہیں۔ایک نمبرمال دکھاکردونمبرمال دے کربھی دکانداراپنی حلال روزی کوحرام کردیتے ہیں۔سودحرام ہے۔ اس کے حرام ہونے میں کوئی دورائے نہیں ہے۔اسلامی تعلیمات میں سودکے حرام ہونے کے بارے میں واضح احکامات ہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کی معیشت کادارومدارہی سودپرہے۔ ہمارابینکنگ نظام سودسے چل رہا ہے۔ہماری معیشت میں سودکی صورت میں حرام شامل ہے۔جولوگ بینکوں میں سرمایہ جمع کراکے سود وصول کرتے ہیں یابینکوں سے کسی بھی ضرورت یاعیاشی کے لیے قرضہ لے کرسوددیتے ہیں یہ سب لوگ خودبھی حرام کھاتے ہیں اپنے بیوی بچوں کوبھی حرام کھلاتے رہتے ہیں۔حکومتوں کی طرف سے کسانوں کوسودپرقرضے دیے جاتے ہیں۔ حکومت سے سودپرقرضہ لے کرجوکسان اپنی فصل کاشت کرتے ہیں ۔ اس سودپرلیے جانے والے قرضہ سے اگروہ چارہ کاشت کرتے ہیں تووہ مویشیوں کوحرام کھلاتے ہیں۔اس کے علاوہ وہ جوبھی نقدآورفصل کاشت کرتے ہیں اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہوجاتی ہے۔اس کے علاوہ کھاد،بیج وغیرہ بھی سودپرلیے جاتے ہیں۔اس سے کاشت ہونے والی فصل اوراس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہوجاتی ہے۔ یوں یہ کسان بھی لاشعوری میں اپنے بیوی بچوں کوحرام کھلاتے رہتے ہیں۔حکومتوں کی طرف سے نوجوانوں کوروزگارکے لیے سودپرقرضہ دیاجاتا ہے۔سودپرنوجوانوں کوروزگارکمانے کے لیے رکشے ، ٹیکسیاں وغیرہ دی جاتی ہیں۔سودپرلیے جانے والے قرضہ سے وہ جوبھی روزگارکماتے ہیں وہ بھی حرام ہوجاتا ہے۔جوسرکاری ملازم گھربیٹھے رہتے ہیں ملازمت پرنہیں جاتے۔اورافسروں کومٹھائی کے نام پرتنخواہ میں سے کچھ نہ کچھ دے دیتے ہیں۔یہ بھی حرام ہے۔جومزدوراپنی مزدوری توپوری لیتا ہے اورکام اس کے مطابق نہیں کرتا وہ حرام کماتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جولوگ مزدورسے کام توآٹھ کی بجائے دس سے بارہ گھنٹے لیتے ہیں اوراس کومزدوری رائج مزدوری سے کم دیتے ہیں تویہ اپنے سرمایہ کوحرام کردیتے ہیں۔جودکاندارکسی بھی چیزکی قیمت مارکیٹ ریٹ سے زیادہ وصول کرتے ہیں وہ بھی اپنی حلال روزی کوحرام کردیتے ہیں۔ جوصنعت کار، ملوں اورفیکٹریوں والے،اشیائے خوردونوش تیارکرنے والے ملاوٹ کرتے ہیں وہ بھی حرام کماتے ہیں۔دودھ اورآٹابھی خالص نہیں ملتے اورچیزوں کے بارے میں کیابات کی جائے۔جوممبراسمبلی چاہے وہ قومی اسمبلی کاممبرہے یاصوبائی اسمبلی کااگروہ دھاندلی سے جیت کراسمبلی میں آیا ہے تواسمبلی اورحکومت سے بطورممبراسمبلی یابطوروزیرجوبھی مراعات لے رہا ہے وہ حرام لے رہا ہے۔ یہ ہے وہ مختصرسی تفصیل جس سے ہمارے قارئین یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہم کہاں ، کہاں سے سے ، کس کس نام سے حرام کھارہے ہیں۔وفاقی حکومت حلال اتھارٹی قائم کرکے بہت اچھااقدام کررہی ہے۔ حکومت صرف عوام کوحرام اشیائے خوردونوش کے ساتھ ساتھ عوام کوہرحرام آمدنی اورحرام کام سے بچائے۔وفاقی حکومت سب سے پہلے بینکوں سمیت سودی لین دین پرپابندی لگاکرملکی معیشت کوحرام ہونے سے بچالے۔شراب، جوا، رشوت، بدعنوانی، چوربازاری، دھوکہ، فراڈ، سود، ملاوٹ حکومت یہ سب حرام ختم کرائے۔

قومی اخبارات میں ایک اورخبرہے کہ پنجاب حکومت نے صوبہ بھرمیں قائم دینی مدارس میں زیرتعلیم طلبہ کے ذہنی رجحان کااندازہ لگانے کے لیے ان کے نفسیاتی ٹیسٹ کروانے کافیصلہ کیا ہے۔جس کے تحت صوبہ بھرکے دینی مدارس کے تقریباً چودہ ہزارطلبہ کانفسیاتی ٹیسٹ لیاجائے گا۔اوراس ٹیسٹ کوطلبہ کے کوائف کے ساتھ منسلک کرکے ریکارڈکاحصہ بنایاجائے گا۔دینی مدارس کے طلبہ کے نفسیاتی ٹیسٹوں کی ذمہ داری متعلقہ ڈی سی اوزاورڈی پی اوزپرہوگی۔واضح رہے کہ اس سے قبل پنجاب حکومت دینی مدارس میں زیرتعلیم طلبہ کے فنگرپرنٹس محفوظ کرنے کابھی فیصلہ کرچکی ہے۔اس سلسلہ میں محکمہ انسداددہشت گردی کے ذریعے کام کیاجائے گا۔

دینی مدارس میں زیرتعلیم طلبہ کے ذہنی رجحان کااندازہ لگانے کے لیے پنجاب حکومت نے ان کے نفسیاتی ٹیسٹ لینے کافیصلہ کیا ہے۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ اس سے حکومت کومعلوم ہوجائے گاکہ دینی مدارس کے طلبہ کیاسوچتے ہیں۔ وہ کیاکرناچاہتے ہیں۔ ان کے معاشرہ بارے کیاخیالات ہیں۔دراصل حکومت یہ ٹیسٹ لے کریہ جانناچاہتی ہے کہ دینی مدارس میں زیرتعلیم طلبہ میں سے کتنے ایسے طلبہ ہیں جن کارجحان دہشت گردی یافرقہ واریت کی طرف ہے۔صوبائی حکومت دینی مدارس کے طلبہ کانفسیاتی ٹیسٹ ایک بارنہیں دس بارلے ۔تاہم وہ یہ بات بھی یادرکھے کہ نفسیات صرف دینی مدارس کے طلبہ کی ہی نہیں ہوتیں۔ زندگی کے تمام شعبہ جات سے وابستہ تمام مردوخواتین کی بھی نفسیات ہوتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سب کی نفسیات یکساں نہیں ہوتیں۔دوسگے بھائی بھی ہوں تودونوں بھائیوں کی نفسیات بھی یکساں نہیں ہوتی ہیں۔نفسیاتی ٹیسٹ ضروری بھی ہے تودینی مدارس کے طلبہ کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام شعبہ جات سے وابستہ مردوخواتین کالیاجائے۔تاکہ صوبائی حکومت کوصرف دینی مدارس کے نہیں زندگی کے تمام شعبہ جات سے وابستہ افرادکے ذہنی رجحان کااندازہ ہوجائے گا۔صوبائی حکومت جورجحان دینی مدارس کے طلبہ میں دیکھناچاہتی ہے وہ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں کے طلبہ میں بھی توہوسکتا ہے ان کابھی ٹیسٹ لیاجاناچاہیے۔بحیثیت مسلمان جذبات واحساسات کامالک ہرمسلمان ہوتا ہے۔ پروفیسرز،ٹیچرز، ڈاکٹرز، انجینئرز،سیاستدان،وکیل، صحافی،کالم نویس،کاروباری حضرات، صنعت کار، مزدور، امیر، غریب،ہنرمند، غیرہنرمند،افسران، سرکاری وپرائیویٹ ملازمین، اداکار،وزیر، مشیر، سیکرٹری ، دکاندار، ریڑھی بان،لوہار، درکھان، موچی، نائی،ملک، خان، چوہدری، سردار،پٹواری ،منشی ،مالک، کرایہ دار،ڈرائیور،ٹرانسپورٹر،کس کس کانام لیاجائے ان سب کی بھی نفسیات ہیں ۔ ان کابھی ٹیسٹ لیاجائے۔ تاکہ پنجاب حکومت کویہ اندازہ ہوسکے کہ یہ سب لوگوں کاذہنی رجحان کیا ہے۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ سوال نامہ جودینی مدارس کے طلبہ کے لیے ہوزندگی کے دیگرشعبہ جات سے وابستہ افرادکے لیے بھی وہی ہو۔ تحریرطویل ہوجائے گی ۔ ورنہ ہم یہ بھی بتادیتے کہ کس کانفسیاتی ٹیسٹ کیوں ضروری ہے۔
 
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350865 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.