پاکستان میں حالیہ و سابقہ
بارشوں اور سیلاب نے ضلع میانوالی سمیت پورے پاکستان کے ہر علاقہ میں تباہی
مچا دی ہے۔اس تباہی میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا ازالہ شاید ممکن
نہیں۔ لوگوں کی جمع پونجی، مکانات، حیوانات حتیٰ کہ خود انسان بھی ان
بارشوں اور سیلابوں کی نظر ہو گئے ہیں۔ بارشیں اور سیلاب دنیا بھر کے ممالک
میں آتے لیکن وہاں کی حکومتیں کیا اقدامات کرتیں ان کے بارے میں جاننے سے
پہلے ہمیں اپنے ملک پاکستان کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔اور اس کے ساتھ
صوبائی سطح کے بعد ضلعی سطح پر کیا اقدامات کیے جائے ان کا بھی کچھ نہ کچھ
علم لازمی ہونا چاہیے کہ آیا وہ اقدامات صرف اخباری بیانات، سیاسی بیانات
یا صرف کاغذی کاروائی تک ہی محدود تو نہیں؟اس جانچ پڑتال میں عام شہری اگر
پڑے تو پہلے بات یہ کہ اس کا متعلقہ افسر کو ملنا اور اس سے اس قسم کی
معلومات لینا ایک ہمت والا کام ہے جو مجھے پوری امید وہ نہیں کرسکتا۔اور
اگر وہ خوانخواستہ اس افسر تک پہنچ بھی جائے تو وہی افسر اس کو کسی اور
افسر کی طرف ایسے ریفر کر دے گا جیسے ہمارے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر جان
چھڑانے کیلئے مریضوں کو لاہور، اسلام آباد ریفر کر دیتے اورپوچھنے پر یہ
بتاتے کہ ہمارے پاس وسائل و آلات نہیں کہ اس کا علاج یہاں ممکن ہو۔ یقینی
بات جب ملک کے صدر، وزیر اعظم، وزرا اعلیٰ اور وزیر خود اپنے علاج و معالجہ
کے لیے دوسرے ممالک جاتے تو ہماری سرکاری ہسپتالوں کا کیا قصور ہے؟بات کہاں
سے کہاں نکل جائے گی اس لیے واپس موضوع پر آ جاتے پاکستان میں ہی کیوں غریب
ہر سال بارشوں اور سیلاب کی زد میں آتے؟ ہر سال جانی و مالی نقصان ہی کیوں
غریب کا مقدر بن گیا ہے؟ہر سال سرکاری و غیر سرکاری خوراک لینے کے لیے
لائنوں میں لگنا صرف ان کا مقدر کیوں بن گیا ہے؟ میں مزید گہرائی میں نہیں
جانا چاہتا۔ میانوالی شہر کو ہی دیکھ لیں تو آپ قارئین خود انداز لگا لیں
گے کہ پورے ضلع میانوالی کا کیا حال ہو گا۔بارشوں اور سیلاب کے پیش نظر
میانوالی شہر میں گندگی کے ڈھیروں، گلی و کوچوں کے بارے میں ہر روز ڈی سی
اومیانوالی اور ٹی ایم اے میانوالی سٹی سے باربار کہا گیا کہ صفائی
وستھرائی کے بارے اقدامات کیے جائیں اور پتہ نہیں یہ ٹی ایم اے کا عملہ کن
جگہوں کی صفائی کرنے پر مامور بذات خود مجھے علم نہیں کیونکہ میں نے جب بھی
کسی گلی و کوچہ کو دیکھا گندگی کے ڈھیر ہی دیکھے ماسوائے چند ان گلیوں کوچہ
کے جہاں اعلیٰ شخصیت رہتے۔شہری صفائی و ستھرائی نہ ہونے پر کئی دفعہ خود
بھی اور بذریعہ درخواست بھی عملی اقدامات کر چکے ہیں لیکن بے سود۔کیا ٹی
ایم او یا ڈی سی او میانوالی کے نمائندہ ہو سکتا روزانہ کی بنیاد پر گلی،
کوچوں سمیت کئی مقامات کا وزٹ کرتے ہوں گے لیکن کبھی افسران بالا کو سب
اچھا کے علاوہ بھی کوئی رپورٹ دی ہے؟شہر کی گلی و کوچوں کو تو ایک طرف رکھ
دیں کبھی ٹی ایم اے نے انڈر پاس تا عید گاہ چوک اور وتہ خیل چوک تا گورنمنٹ
سکول روڈ مرکزی سڑکوں کا معائنہ کیا ہے؟ کیا ڈسٹرکٹ گورنمنٹ، ٹی ایم اے بتا
سکتا کہ کتنے کٹ اجازت نامہ کے بعد سڑکوں پر لگائے ہیں؟ کیونکہ گلی، کوچوں
اور مرکزی سڑکوں کا یہ حال ہے کہ کٹ ہی کٹ لگے پڑے لیکن اجازت کس کس نے لی
اس کا علم کسی کو ہے یا نہیں؟کیا ٹی ایم اے مانیٹر کر رہی کہ جہاں جہاں
اجازت سے کٹ لگائے ہیں ان کو دوبارہ ٹھیک طور پر بھرائی بھی کی گئی ہے؟کیوں
سڑکوں پر کسی مرکزی جلوس کے آنے سے پہلے ٹی ایم اے کا عملہ ان ٹوٹ پھوٹ شدہ
خلاؤں کو عارضی طور پر بھرتے پھرتے ہیں؟یہ وہ باتیں ہیں جو ہر شہری کے ذہین
میں ہیں لیکن ذاتی مصروفیات کی وجہ سے ٹائم نہیں ملتا۔میانوالی سٹی کا واحد
انڈرپاس اپنی مثال اور پہچان رکھتا ہے۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی انڈرپاس
بارشوں کے پانی سے اتنا بھر گیا تھا کہ ٹی ایم اے دروازے بھی اس کے پانی
میں شامل ہو گئے اور سوشل میڈیا پر اس انڈرپاس کی بڑی دھوم مچی رہی۔اس
انڈرپاس کا یہ حال ہے کہ بارش کے چند قطرے ادھر گرے نہیں کہ پانی جمع ہونا
شروع ہو جاتا اور ٹی ایم اے کا عملہ صرف ایک دھاگہ کی مدد سے سٹی ٹریفک کی
آمدورفت کیلئے بند کر دیتا۔پھر ہفتوں اس پانی کی نکاسی کیلئے ہزاروں روپے
لگا کر کسی اور جگہ پر لگانے کے فنڈز اس پانی کی نکاسی پر بہا دیئے جاتے
ہیں۔کیا ڈسٹرکٹ انتظامیہ، پلاننگ ڈیپارنمنٹ،ٹی ایم اے، مانیٹرنگ ونگ ،
ٹھیکیدار یا کمپنی سے کسی ایم این اے، ایم پی اے نے پوچھا کہ لاکھوں،
کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار ہونے والا واحد انڈرپاس میں پانی کی نکاسی کا
نظام مفلوج کیوں ہے؟ کیا یہ بہت بڑی نااہلی نہیں؟اس کا ذمہ دار کون ہے؟اس
کے بنانے والوں پر جرمانہ کیا گیا؟جب بھی انڈرپاس پانی سے بھرتا ہے ٹی ایم
اے کا عملہ، گاڑیوں سمیت اس کے پانی کو نکالنے پر ہفتوں لگا دیتا اور
ہزاروں کا پٹرول، ڈیزل نااہلی کی نظر ہو جاتا۔ڈی سی او میانوالی یا ٹی ایم
اے کے افسران، انجینئرزنے اس انڈرپاس کے سیوریج کے نظام کو دوبارہ ٹھیک کر
نے کیلئے پلاننگ بنائی ہے؟بارشوں اور سیلابوں کو کنٹرول کوئی نہیں کر سکتا
لیکن وہ وقت دور نہیں اگر یہی سلسلہ چلا رہا تو انڈرپاس کی تعمیرکاکل خرچا
اور ٹی ایم اے کی ہر دفعہ پانی کی نکاسی پر پٹرول، ڈیزل، مشینری پر خرچا
برابر آن کھڑا ہوگا۔
|