موسم گر ما جیسے ہی شروع ہو تا
ہے میرے شہر کے ہر دکا ن دار کی یہ خواہش ہو تی ہے کہ پا نی کا ایک بڑ ا کو
لر دکا ن کے باہر رکھ دیا جائے تاکہ گرمی کی شدت سے پیاس سے تڑپنے والے لوگ
خاص کر مسافر اُس پانی کو پی کر اپنی پیاس بجھاسکیں ۔یہاں یہ طریقہ ایک
دوسال سے نہیں بل کہ کا فی عرصہ سے زندہ و جاوید ہے اور ہر دکان دار کی یہ
خواہش ہو تی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے پانی کے کولر کودکا ن سے باہر رکھے بل کہ
اُس کولر کو روز دھوکر اُس میں ٹھنڈے پانی کا انتظام بھی کرے ۔انسانوں کی
آسانی کے لیے یہ تو ایک انفرادی محنت ہے مگر کچھ دکان دار حضرات باہمی
تعاون سے ایک بڑے واٹر کولر کا بندوبست کر کے مین چوک یا کسی مناسب جگہ پر
رکھ دیتے ہیں جہا ں سے گر می کی شدت کو کم کر نے کے لیے نہ صرف یہ دکا ن
دار بل کہ مسافر بھی مستفید ہو تے ہیں ۔جیسے ہی گر می کی شدت کچھ زیادہ ہو
تی ہے اور حبس عروج پر ہو نے کے ساتھ ساتھ سو رج آگ برساتے ہو ئے درجہ
حرارت کو 40ڈگری سے اوپرلے جاتا ہے تو’’ سبیل ‘‘کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ وہ
کاروباری افراد جو ایک منٹ اپنے کا روبار کوچھوڑنانہایت مندے کا سودا
سمجھتے ہیں گھنٹو ں لگا کر اس سبیل کے لیے خاص قسم کا پانی تیار کر تے ہیں
اور پھر گھنٹوں سبیل پر کھڑے ہو کر مسافروں اور آنے جانے والے افراد کو
سبیل سے پانی پلاتے ہیں یہ پانی گرمی کی شدت میں پیاس کو کم کرنے کے لیے
کافی سو د مند ثابت ہوتاہے۔
غر ض گر میو ں کی آ مد پر دکان دار اپنی دکان کے باہر اور گھر وں والے اپنے
گھر وں کے باہر پانی کا مناسب اور اچھا انتظام کر دیتے ہیں تاکہ کو ئی پیا
سا پیا س سے بے چین ہو کر بے سد ھ نہ ہوجائے ۔یہ انسانیت کی معراج ہے جس کو
دیکھ کر انسانیت پر فخر ہوتا ہے اور لب پر شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمیں انسان
بنایا گیا ۔انسانیت کی اس معراج کے نظارے گر میو ں میں دکا نو ں کے باہرنصب
واٹر کو لر سے بھی دیکھے جاسکتے ہیں اور گھر وں کے باہر لگے کولر سے بھی،
اسی طر ح یہ نظارے گھروں کے اندر بھی دیکھے جا سکتے ہیں جہاں مائیں بہنیں
اور بیٹیاں پرندوں کی پیاس کا خیال رکھتے ہوئے چھت پر ایک برتن مخصوص
کردیتی ہیں اور وقتاً فوقتاً اس میں پانی ڈال کر پرندوں کی پیاس کا بھی
خیال رکھتی ہیں اسی طرح انسانیت کی معراج کے یہ نظارے بازار چو ک میں یا
مصروف سڑک کے کنارے لگی سبیل کی صو رت میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔
اس ایک امر کو اگر مثبت انداز سے سو چا جائے تو انسانیت پر فخر ہو تا ہے
مگر جب اسی انسانیت کے منفی پہلوؤں کی طر ف دیکھیں تو سر شر م سے جھک جاتا
ہے قتل و غارت گری ،عزتوں کی پامالی ، ڈاکے ،حق ماری ، چوری چکاری ،بخیلی ،غیبت
جیسی بے شمار قباعتیں انسان دوسرے انسان کے لیے ہی کرتا ہے عا دت یا مجبوری
بہانہ بنا کر انسا ن انسانیت کی اس معر اج سے دھڑم نیچے گرتا ہے۔
اسی انسانیت کے منفی پہلو کا سامنا چند دن پہلے ہوا اور سر شرم سے جھکنے کے
ساتھ ساتھ زبان گنگ اور دماغ ماؤف ہو گیا کہ ایک انسان جس نے اس دنیا میں
مستقل نہیں رہنا ہے وہ بھی دوسرے انسانوں کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے اور
پھر جب اپنے اوپر مشکلات آن پڑتی ہیں تو گلہ شروع کرتے ہی پہلا سوال یہ
کرتا ہے کہ میں نے کیا کبھی کسی کے لیے مشکل پیدا کی کہ میرے لیے مشکلات
کھڑی ہو گئی ہیں ؟میں تو ہر کسی کے ساتھ اچھا کرتا ہوں اور میرے ساتھ برا
پتا نہیں کیوں ہوتا ہے ؟حالاں کہ جو کل اس نے بویا تھا وہ آج کاٹ رہا ہے
مگر اپنے آپ کی خطاؤں کو پس پشت ڈال کر وہ مطمئن رہتا ہے ۔ بہر حال انسانیت
کے منفی پہلو کا مشاہدہ کرنے کے بعد اسے قارئین تک پہنچا رہا ہوں ملاحظہ
کریں :
مجھے عموماًایک بہت بڑے ادارے کے پی اے آفس جانے کا اتفاق ہوتا رہتاہے
سردیوں میں وہاں ملا زمین کا رش نہ ہو نے کے برابر ہوتا ہے جب کہ گرمیوں
میں یہاں کے ملازمین آکرٹھنڈے پا نی کے رکھے کو لر سے ٹھنڈا پا نی پیتے اور
گر می کی شدت کو کم کرتے ہوئے مجھے بکثرت ملتے ہیں ۔ملازمین کو پی اے آفس
میں دیکھتا رہتا ہوں توایک دن ادارے کے پی اے سے پو چھا کہ کیا اس ادارے
میں ٹھنڈے پا نی کا کوئی اور بندوبست نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ انتظام نہیں
ہے ۔جہاں یہ حیر ت ہو ئی کہ اتنے بڑے ادارے میں ٹھنڈے پانی کا انتظام نہیں
ہے وہا ں یہ خو شی ہو ئی کے اس آفس میں بر جمان پی اے نے ہرخاص وعام کے لیے
ٹھنڈا پانی عام رکھا ہوا ہے ۔ میں نے اس آفس میں صاحب لوگوں کو پانی پیتے
دیکھا اور کلاس فور اور مالیوں کو بھی اسی آفس میں اسی گلاس اور اسی کولر
سے پانی پیتے ہوئے دیکھا۔ حیرت او رخوشی کے ملے جلے تاثرات سے میں یہاں
عموماً بیٹھ کر مشاہدہ کرتا تو مجھے انسانیت پر فخر ہوتا ۔اسی فخر کو جب پی
اے پر کھولا تو وہ بھی خوش ہوا اور پیاسوں کو ٹھنڈا پانی پلانے پر اپنے آپ
کو خوش قسمت گردانا۔
کچھ دنوں بعد پھر اس ادارے میں جانے کا اتفاق ہوا جیسے ہی پی اے آفس میں
داخل ہوا تو مجھے وہاں رش نہ دیکھ کر تھوڑی سی کنفیوژن ہوئی ۔سوال یہ ذہن
میں آیا کہ کیا سردیاں شروع ہو گئی ہیں ؟کیا پی اے آفس بدل گیا ہے یا میں
غلط جگہ آگیا ہوں ؟ماتھے سے ٹپکتے پسینے سے ثابت ہوا کہ گرمیاں ختم نہیں
ہوئی ہیں بل کہ آج گرمی کی شدت کچھ زیادہ ہے جب کہ پی اے کا گرم جوشی سے
ملنا یہ ثابت کر رہا تھا کہ میں ٹھیک جگہ آیا ہوں لہٰذا ان سوالات کو وقعت
نہ دیتے ہوئے وہاں خالی ساری کرسیوں میں سے ایک کرسی پر بیٹھ گیا اردگرد کا
مشاہدہ کیا تو رش نہ ہونے کی وجہ سمجھ لگی کہ آج اس آفس میں ٹھنڈے پانی کا
کولر ہی نہیں تھا ۔ ذہن میں کولر نہ ہونے کی وجہ یہی آئی کہ خراب ہوگیا ہو
گا لیکن جب پی اے سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ خراب نہیں ہوا ہے بل کہ صاحب نے
ٹھنڈے پانی کے کولر کو بند کر کے سٹور میں رکھوا دیا ہے مزید وجوہات پوچھنے
پر پتا چلا کہ صاحب ملازمین کے اس آفس میں اکٹھ سے خائف تھے کہ انھوں نے وہ
ٹھنڈے پانی کا کولر ہی اٹھوا دیا کہ نہ کولر ہو گا اورنہ ہی اس آفس میں
تانتا بندھا رہے گا۔ہوسکتا ہے ان ملازمین سے اس آفس کے معاملات میں خلل آتا
ہویا ہوسکتا ہے کچھ اور خرابی ہو رہی ہو جس کو بھانپ کر صاحب نے کولر اٹھوا
دیا یہاں تک تو صاحب کی بات میں دم لگتا ہے مگر اس کا حل بھی تو ہے کہ اگر
وہ کولر باہر کسی مناسب جگہ پر نصب کر دیا جائے یا ادارے میں موجود مختلف
جگہوں پرایسے کولر نصب کر دیے جائیں تو بھی اس مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے ۔
خیر یہی مشورہ جب میں نے پی اے کو دیا تو پی اے بھی بولا کہ پانی نہ پینے
سے ملازمین مر نہیں جائیں گے اور اگر زیادہ ہی ان ملازمین کو پیاس لگی ہے
تو وہ لان میں لگی ٹونٹی سے پانی پی لیں وہ بھی تو پانی ہے ۔ پی اے کا یہ
جواب سن کر میں حیران ہوا اور پی اے سے صرف یہ ہی پوچھ پایا کہ کیا یہ آپ
کے اپنے الفا ظ ہیں یا اس بندے کے جو اے سی میں بیٹھا وقتاً فوقتاً ٹھنڈے
پانی کے کش پر کش لگائے جارہا ہے ؟۔۔۔ اس سوال کا جواب پی اے کیا دیتا وہ
تو خود سوکھے ہونٹوں اور ماتھے سے ٹپکتے پسینے میں سراپا سوال بنا مجھ سے
آنکھیں تک نہیں ملا رہا تھا ۔
|